مانے گا ہر صحابی کو جو بااصول ہے
ان سے دغا تو حُبِّ علی بھی فضول ہے
سچوں کے جان و دل ہیں نثارِ معاویہ
اللہ اور رسول کے پیارے معاویہ
اُن کی برائی چھوڑ، اے باغی، اے کم نظر
داٸم کُلاہِ وعدۂ حُسنیٰ ہے انکے سر
سرمہ ہے چشمِ دل کا غبارِ معاویہ
اللہ اور رسول کے پیارے معاویہ
میرے محترم مسلمانوں زبان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت کی بشارت
کامصداق بننے کے بعد اگرحضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کچھ نہ کرتے توبھی ان کے
لیے کافی تھا،
مگراسلام کے اس شیردلیرنے جہاد موقوف کرناتو درکنار،اس سلسلے کوموقوف کرنا
بھی گوارا نہ کیا اور یہاں سے فارغ ہوکر قسطنطنیہ کے قریبی علاقوں میں جہاد
جاری رکھا۔ 35ھ میںآ پ کی قیادت میں غزوہ ذی خشب پیش آیا۔
تاریخ کہتی ہے اسی سال خلیفہ راشد حضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کی
شہادت کادل دوز واقعہ پیش آیا۔
جس سے آپ رضی اللہ تعالی خلیفہ مظلوم کے قریب ترین رشتے دارہونے کی وجہ سے
بہت زیادہ متاثرہوئے،قصاص عثمان رضی اللہ تعالی کے مطالبے کی وجہ سے جنگ
جمل وصفین کے واقعات بھی پیش آئے،
جن میں انہی منافقین کا کردار نمایاں تھا، جو قتل عثمان رضی اللہ تعالی کے
ذریعے اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے میں ناکامی کا بدلہ اب مسلمانوں کوآپس
میں لڑا کرلیناچاہتے تھے۔
جس کا ایک ثبوت اہل علم ؤ دانش کے نزدیک یہ قول بھی ہے:
امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ فرما تے ہیں:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ میں ابتدا
نہیں کی۔(المنتقی )
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالی کو ان تمام عہدوں اورمناصب
پرنہ صرف برقرار رکھا،جن پر آپ رضی اللہ تعالی عہد عثمانی میں فائز
تھے،بلکہ یہ فرما کر ہر قسم کے شکوک وشبہات کو بھی دور فرما دیا:ہم بھی
مسلمان ہیں اوروہ بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں،ہمارا اور ان کا اختلاف صرف
دم عثمان رضی اللہ تعالی کے مسئلے میں ہے۔
(نہج البلاغہ)
جنگ صفین سے واپسی پرجب آپ رضی اللہ تعالی نے سناکہ بعض اہل لشکرحضرت
سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف بے احتیاطی سے کلام کررہے ہیں تولوگوں سے
ارشادفرمایا:
اے لوگو!
تم معاویہ کی گورنری اور امارت کو نا پسند مت کرو، کیوں کہ اگر تم نے انہیں
گم کر دیا تو دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے، جس
طرح اندرائن کا پھل اپنے درخت سے ٹو ٹ کر گر تا ہے۔
(البدایہ والنہایہ ،حافظ ابن کثیر )
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدمحض چھے ماہ خلافت کے منصب
پرفائزرہنے کے بعد41ھ میں حضرت سیدناحسن رضی اللہ عنہ نے برضاورغبت خلافت
آپ رضی اللہ تعالی کوسونپ دی اورحضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہمانے آپ
رضی اللہ تعالی کوخلیفہ برحق مانتے ہوئے بیعت کرکے منافقین کے تمام عزائم
کو یکسر ناکام بنا دیا۔
خلیفہ بنتے ہی آپ رضی اللہ نے عارضی طور پر اسلامی فتوحات میں آنے والے
تعطل کاخاتمہ کردیا اور اسلامی لشکرکی باگ ڈورسنبھال لی۔
حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک عظیم جرنیل،سپہ
سالاراورمیدان حرب کے نڈرشہسوارتھے،یہی وجہ ہے کہ سیدنا حضرت امیر معاویہ
رضی اللہ تعالی عنہ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالہ سے شاندار
دور حکومت ہے، ایک طرف بحر اوقیانوس اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک
میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گاڑ دیے۔
اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے خلفائے
راشدین کےترقیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل نئے امور واصلاحات
کی داغ بیل ڈال کر ان کو فروغ دیا:
1...حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق
میں قائم کیا۔
2...سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا، جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور
دنیا کی زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔
3...آبپاشی اور آبنوشی کے لیے پہلی نہر کھدوائی۔
4...ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔
5...احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ
ایجاد کیا۔
6...آپ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے، آپ
نے پرانے غلافوں کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔
7...پارلیمنٹ کا قیام عمل میںآ یا اور انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور
انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔
8...بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک نفع یا سود کے جاری کرکے تجارت
وصنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے فرمائے۔
9...سرحدوں کی حفاظت کے لیے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے
تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں۔
10...بڑے بڑے اخلاقی مجرموں کے لیے خصوصی پولیس (سی۔آئی ڈی ا سٹاف)کی
بنیادڈالی۔
حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی
163احادیث مروی ہیں۔جن میں سے کئی حدیثیں بخاری ومسلم میں بھی موجودہیں۔
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی اس قدرقربت کے باوجودآپ رضی اللہ تعالی کی
روایات کم اس لیے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی حدیث نقل کرنے میں حددرجہ محتاط
تھے۔
تاریخ گواہ رہے گئ مدینہ طیبہ کے قریب میدان"بدر" میں حق و باطل کا سب سے
پہلا معرکہ بپا ہوا۔
شمع اسلام کو گْل کرنے کا ارادہ رکھنے والے کئی ابدی بدبخت خاک و خون میں
تڑپ تڑپ کر بالآخر خدائی قہار کے روبرو جا پہنچے۔
کفر کے غرور کا سر نیچا ہوا اور رسول اللہﷺ کے شیر دل سپاہیوں نے مشرکوں کو
خاک چاٹنے پر مجبور کیا۔
تاریخ اسلامی کے اوراق پکار پکار کر کہتے ہیں کہ اس رزم گاہ کی سرزمین نے
بیسیوں دشمنان اسلام کے خون کو چوسا ہے ۔
تب عرب کے معروف قبیلہ بنو امیہ کے خاندان کے نامی گرامی وڈیرے خدائی لشکر
کی تلواروں سے گھائل ہوئے ،
صحابہ کرامؓ کے نیزوں کی انیوں پر اس خاندان کے سردار عتبہ ، ولید اور
حنظلہ کو اچھال دیا گیا اور یوں دشمنان اسلام اپنے انجامِ بد کو جا پہنچے۔
یہ خاندان تب 2 دھڑوں میں تقسیم ہوا ، بعض دین کی دشمنی میں اپنی جان کی
بازی ہار گئے اور بعض دین محمدی کی دوستی میں حیات جاوداں پا گئے۔
اس دوسرے فریق میں بنو امیہ کا وہ خوش نصیب شخص جسے دنیا جرنیل اسلام ،
کاتب وحی ، فاتح عرب وعجم ، امام تدبیر و سیاست اورسب سے بڑی اسلامی ریاست
کے حکمران کے تعارف سے جانتی ہے، وہ سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ
عنہما ہیں۔جنکا ذکر ان شاءاللہ تا قیامت زندہ ہے اور زندہ رہے گا بے شک
اسلام سے دور, متعصب مزاج لوگ اپنے قلمدان سے زہر اگلتے رہیں....
22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم ، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے
والے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔
حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ رضی اللہ تعالی کی نماز جنازہ
پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں مدفون ہوئے۔اللہ کی ان پر بے شمار
رحمتیں نازل ہوں۔(آمین)۔
گلزارِ جاں میں قربِ نبوت کے پھول ہیں
انکی بہن ضیاۓ مکانِ رسول ہیں
ہیں لازوال نقش و نگارِ معاویہ
اللہ اور رسول کے پیارے معاویہ
قرآن میں خدانے اتاری ہیں آیتیں
جن سے عیاں ہیں بزمِ صحابہ کی عظمتیں
مہکی اسی چمن سے بہارِ معاویہ
اللہ اور رسول کے پیارے معاویہ
اُس آنکھ نے زیارتِ سرکار پائ ہے
سب رفعتوں سے بڑھ کے یہ انکی اونچائ ہے
لبریز ہو گلوں سے مزارِ معاویہ
اللہ اور رسول کے پیارے معاویہ
آقا نے ان کو مہدی و ھادی کی دی دعا
تا حشر جگمگاۓ گا وہ جلوۂ ھُدیٰ
ہے رہبری پہ اب بھی منارِ معاویہ
اللہ اور رسول کے پیارے معاویہ
ملت کو عظمتوں کی سحر بخش دیجئے
اے شاہ اپنا فیضِ نظر بخش دیجئے
دامن فریدی بھی ہے پسارے معاویہ
اللہ اور رسول کے پیارے معاویہ
|