بیج زمین مین دفن کیا جاتا ہے۔ آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے
مگر جب وہ پھٹ کر، پھوٹ کر اورزمین کو پھاڑ کر نکلتا ہے تو نظر آتا ہے۔ جب
درخت بنتا ہے تو مخلوق اس سے مستفید ہوتی ہے۔کچھ کے لیے پناہ گاہ بنتا
ہے۔کوئی اس کے پھل سے لطف اندوز ہوتا ہے۔پتے اور چھلکے سے شفا حاصل ہوتی ہے
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کئی بیچ پیدا ہوتے ہیں۔محبت بھی ایک بیج ہے انسان
کے دل میں پھوٹتا ہے تو زبان اور اعضاء سے لوگوں کو نظر آتا ہے۔محبت وہ
جوہر ہے جورشتوں، ناطوں، قرابتوں اور دوستیوں کو مستحکم بناتا ہے۔فرد،
خاندان اور معاشرے پر اثر انداز ہو کرزندگیوں میں امن، سکون اور عافیت لاتا
ہے۔
اہل علم کے نزدیک محبت کے تین درجے ہیں۔ محبت، شدید محبت اور اشد محبت۔ اشد
محبت کوامام فخرالدین رازی نے عشق کا نام دیا ہے۔۔محبت کے بارے میں صاحب
کنزالایمان نے لکھا ہے جو کسی چیز سے محبت کرے اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے
۔اشد محبت کا ذکر قرآن پاک میں ہے ایمان والے اللہ سے اشد محبت کرتے ہیں
(البقرہ:165)
محبت کا تعلق جبلت، فطرت،اطاعت، عطا،احسان وغیرہ سے ہوتا ہے۔ البتہ شدید
محبت ایک کیفیت ہے اور عشق جوہر ہے۔ ہر جوہر کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔ جیسے
گھی کی بنیاد دودھ ہے۔ انسانوں کی آپس میں محبت ایک فطری عمل ہے جو یوم
الست کو آپس میں مانوس ہو جانے والی ارواح کے درمیان پایا جاتا ہے۔
محبت خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ جس کابیچ ہر دل میں رکھ دیا گیا ہے۔
جن لوگوں کے دلوں میں دفن یہ بیج پھوٹ کر ظاہر ہو جاتا ہے ان سے اللہ اپنی
محبت کا اظہار کرتا ہے
اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (البقرہ:222)
اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (آلعمران:159)
اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (آلعمران:139)
اللہ پرہیز گاروں سے محبت کرتا ہے (التوبہ:6)
اللہ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے (التوبہ:108)
اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (المائدہ:13)
اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (المائدہ:62)
اللہ اپنی راہ میں قتال کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (الصف:6)
مزیدرسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تین قسم کے لوگوں سے محبت کرتا
ہے (1) جو خلوص نیت سے اس کی راہ میں اپنی جان فدا کرتے ہیں (2) جو اپنے
پڑوسی کے ظلم پر صبر کرتے ہیں (3) جو رات کو اس وقت اٹھتے ہیں جب قافلہ سفر
سے تھک کر آرام کے لیے اپنا بستر لگاتاہے۔
انسان کو دنیا میں عزیز ترین چیز اپنی اور اہل و عیال کی جان ہوتی
ہے۔مگررسول اللہ ﷺ کی دعا کے الفاظ پر غور فرمائیں میں تیری محبت مانگتا
ہوں اور جو تجھ سے محبت کرتا ہو اسکی محبت اور اس عمل کی محبت جو تیری محبت
سے قریب کر دے ایک دوسری دعا کے الفاظ ہیں اے اللہ تو اپنی محبت کو میری
جان سے میرے اہل وعیال سے اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ میری نظر میں محبوب
بنا رحم کا منبع محبت ہے۔ دنیا میں رحم بھرے مناظر جن کا ہم اپنی آنکھوں سے
مشائدہ کرتے ہیں جیسے انسانوں کے درمیان ایثار کے واقعات، اولاد کے لیے
والدین کی مشقت، معذروں سے ہمدردی یہ سب اس سرمایہ محبت کا سو میں سے ایک
حصہ ہے جو خالق نے پوری مخلوق کو عطا کیا ہے۔دور رسالت میں ایک شخص کو بار
بار شراب نوشی کے جرم میں گرفتار کرکے پایا جاتا تھا۔کسی نے کہا اللہ اس پر
لعنت کر کہ باربار لایا جاتا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس پر لعنت نہ کروکہ
اسے اللہ اور رسول سے محبت ہے ۔ موذن رسول سید نا بلال اللہ اور رسول اللہ
سے محبت کا جیتا جاگتا نام ہے-
مدینہ میں ایک مسلمان فوت ہوا۔کاشانہ نبوت سے ہدائت آئی اس کے ساتھ نرمی
کرو کہ اللہ نے بھی اس کے ساتھ نرمی کی ہے کیونکہ اس کو اللہ اور اللہ کے
رسول کے ساتھ محبت تھی ۔ قبر کھودنے والوں سے فرمایا اس کی قبر کشادہ رکھو
کہ اللہ نے بھی اس کے ساتھ کشادگی فرمائی ہے ۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ
آپ کو مرنے والی کی موت کا غم ہے فرمایا
ہاں، کیونکہ یہ اللہ اور رسول سے محبت کرتا تھا ۔
لوگوں کے کہنے پر رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی سے پوچھا ہر نماز میں ایک ہی
سورۃ کیوں پڑھتے ہو۔عرض کیا اس میں اللہ کی صفات ہیں اور مجھے اس کے پڑہنے
سے محبت ہے۔ فرمان جاری ہوا ان کو بشارت ہو اللہ بھی ان سے محبت کرتا ہے -
یہ واقعہ تو بار بار سنا اور سنایا اور لکھا جاتا ہے کہ ایک نے پوچھا تھا
قیامت کب آئے گی استفسار فرمایا تم نے اس کی کیا تیاری کر رکھی ہے۔نادم نے
عرض کیا نمازوں کا ذخیرہ ہے نہ روزوں کا۔ صدقات و خیرات سے بھی تہی دامن
ہوں۔البتہ سرمایہ امید اللہ اور رسول کی محبت ہے۔ ارشاد فرمایا انسان جس سے
محبت کرے گا اسی کے ساتھ رہے گا۔
اللہ تعالی جب کسی سے محبت کرتا ہے تو جبریل کو حکم ہوتا ہے کہ تم بھی اس
سے محبت کرو۔پھر زمین پر اسے محب بنا دیا جاتا ہے۔
محبت وہ ثمر شیریں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا لوگو، اللہ سے محبت کرو کہ وہ
تمھیں اپنی نعمتیں عطا کرتا ہے اور اس کی محبت کے سبب سے مجھ سے محبت کرو
اور میری محبت کے سبب سے میرے اہل بیت سے محبت کرو ۔
یہ محبت ہی ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کو حبیب اللہ بنایا۔
سنن نسائی میں درج یہ واقعہ اللہ، بندے اور محبت کے تعلق پر سے چادر ہٹاتا
ہے ۔ ایک عورت اپنا بچہ گود میں لے کر سوال کرتی ہے یا رسول اللہ، ایک ماں
کو اپنی اولاد سے جتنی محبت ہوتی ہے، کیا اللہ کو اپنے بندوں سے اس سے
زیادہ محبت نہیں ہے
فرمایا بے شک ایسے ہی ہے
بولی کوئی ماں تو اپنی اولاد کوخود آگ میں ڈالنا گوارہ نہ کرے گی
ان الفاظ کے فرط اثر سے رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں میں صرف آنسو ہی نہ آئے بلکہ
گریہ طاری ہو گیا۔رب العالمین کے صادق و امین رحمت العالمین نبی خاتم
المرسلین ﷺ نے فرمایا اللہ صرف اس بندے کو عذاب دیتا ہے جو سرکشی سے ایک کو
دو کہتا ہے |