ہانگ کانگ کے دیوہیکل اور طویل القامت گنجان آباد عمارتیں
شہر کے رہائشی مسئلے کی ایک علامت ہیں کیونکہ ان کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں
کئی کئی افراد رہ رہے ہوتے ہیں۔
|
|
ہانگ کانگ کی دیوہیکل اور طویل القامت گنجان آباد عمارتیں شہر کے رہائشی
مسئلے کی ایک علامت ہیں، کیونکہ ان کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں کئی کئی افراد
رہ رہے ہوتے ہیں۔
لیکن فوٹوگرافر مائیکل وُولف نے ان گنجان آباد عمارتوں میں بسنے والوں کی
زندگی کے حقیقی مسائل کو نظرانداز کیے بغیر ان میں حُسن کے لمحوں کو ڈُھونڈ
نکالتے اور اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیتے۔
وُولف کا انتقال 64 برس کی عمر میں 24 اپریل کو ہوا۔
وہ گیارہ برس طویل ’آرکیٹیکچر آف ڈینسیٹی پراجیکٹ‘ (Architecture of
Density Project) کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے۔
اس پراجیکٹ کے لیے انھوں نے ہانگ کانگ کے گنجان آباد علاقوں میں طویل
القامت عمارتوں کی تصاویر لیں اور پھر انھیں کانٹ چھانٹ کر اس طرح جوڑا کہ
یہ عمارتیں ایک دوسرے سے اور بھی زیادہ جڑی نظر آئیں۔
|
|
مائیکل وُولف کی کینیڈا، جرمنی اور امریکہ میں پرورش ہوئی اور انہی ممالک
میں وہ بڑے ہوئے۔ اس کے بعد وہ سنہ 1994 میں ایک فوٹو جرنلسٹس کے طور پر
میگیزین ’سٹرن‘ میں کام کرنے کے لیے ہانگ کانگ منتقل ہوگئے۔
انھوں نے آٹھ برس تک یہ نوکری کی، پھر 2002 میں چھوڑ دی۔ ایک برس بعد انھوں
نے اونچی اونچی عمارتوں کی تصویریں لینا شروع کردیں جو بعد میں ’آرکیٹیکچر
آف ڈینسیٹی پراجیکٹ‘ کی بنیاد بنیں۔
|
|
اونچی اونچی عمارتوں کے بلاکس کی یہ تصویریں پہلے لمحے میں اتنی تجریدی
لگتی ہیں کہ دیکھنا والا یہی سوچتا رہ جاتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔
لیکن جب وہ انھیں غور سے دیکھنا شروع کرتا تو اُسے ان تصویروں میں عام
زندگی کی تفصیلات نظر آنا شروع ہو جاتیں: ایک بالکونی پر تولیہ پڑا ہوا ہے،
ایک تھوڑی سے کھلی ہوئی کھڑکی نظر آتی ہے یا کہیں ایک ٹی شرٹ کو سُکھانے کے
لیے ٹانگا ہوا ہے۔
|
|
سنہ 2014 میں مائیکل وُولف نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’ایک فوٹو جرنلسٹس
کے طور پر میں اپنی تصویروں میں موجود ترکیب اور ساخت سے آگاہ تھا، اور ایک
بات جسے میں بہت پسند کرتا تھا وہ یہ تھی کہ میں دیکھنے والے کی توجہ تصویر
سے ہٹنے نہیں دیتا تھا۔ اور جیسے ہی اس میں آسمان دِکھتا ہے آپ اُس کو
دیکھتے اور کسی نہ کسی انداز میں آگے بڑھ جاتے۔‘
ایسا ہی آرکیٹیکچر میں ہے۔ اگر آپ اس میں آسمان یا اُفق دکھائیں گے تو آپ
کو اندازہ ہو جائے گا کہ تصویر میں دوسری اشیا کتنی بڑی ہے اور اس میں
’کوئی فریبِ نظر نہیں ہے۔ لیکن اس کو اس انداز سے کانٹ چھانٹ کر کے میں
عمارت کے قد کو یا اُس کے سائز کو نہیں دکھا رہا ہوتا ہوں بلکہ میں ایک
استعارہ تخلیق کر رہا ہوتا ہوں۔‘
کبھی کبھار، جیسا کہ ’میری پسند کی اشیا‘ کی سیریز میں ہوا، دیکھنے والا ان
تصویروں میں شہری زندگی کی تفصیلات جاننے کے لیے وہ زیادہ قریب اور غور سے
دیکھنے لگ جائے گا۔
|
|
اس تجربے کے علاوہ مائیکل وُولف کبھی اس تجریدی انداز سے ہٹ کر پرانی ڈگر
پر آتا اور پورے شہر کا جائزہ پیش کرنے والے انداز کی تصویریں بناتے تھے،
جیسا کہ اس کی تصویروں کی ایک اور سیریز ’ہانگ کانگ: سامنے کا دروازہ/پچھلا
دروازہ‘ میں نظر آتا ہے۔
مائیکل وولف کو صرف ہانگ کانگ ہی نے مسحور نہیں کیا۔ سنہ 2014 میں پیرِس کی
ایک عمارت کی چھت سے بنائی گئی تصویر میں شہر کی مصروف زندگی کو چھتوں پر
لگی چمنیوں کے گورکھ دھندے سے پیش کیا۔
|
|
اور ان کی ٹوکیو کے سب وے نیٹ ورک پر مبنی سیریز ’ٹوکیو کمپریشن‘ شہر کی
تیز رفتار زندگی کی ایک حقیقی عکاسی کرتی ہے جس میں ہجوم کی وجہ سے لوگوں
کے چہرے ٹرینز کی کھڑکیوں کے شیشوں کے آگے دبے ہونے کی وجہ سے پچکے ہوئے
نظر آتے ہیں۔
ٹرین کے ڈبے ہجوم سے اتنے زیادہ بھرے ہوئے ہیں کہ بظاہر اس میں سے باہر
نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے، زیادہ مسافروں نے اپنے آنکھیں بند کی ہوئی
ہیں یا اپنے چہروں کو اپنے ہاتھوں سے چھپایا ہوا ہے۔
|
|
مائیکل وولف کے اہلِ حانہ نے اُن کے انتقال کی خبر کا اعلان کرتے وقت کہا
تھا کہ ’اُن کی شہری زندگی کے بارے میں تخلیقات میں اِن حالات میں رہنے
والے لوگ اور ’بے انتہا شہری پھیلاؤ کی تہذیب سے لوگوں کی زندگیوں پر اثر
انداز ہونے والے حالات کے بارے میں ان کی تشویش ان کی تخلیقات کا محرک ہوتا
تھا۔‘
اُن کی یہ تشویش، بحیثیت فوٹو جرنلسٹ اور پھر بحیثیت آرٹسٹ، زندگی بھر ان
کی تمام کوششوں کا مرکزی خیال رہی۔
یقیناً، جیسا کہ انھوں نے بی بی سی کو ایک مرتبہ بتایا تھا کہ ’میں اپنے آپ
کو ان حالات میں تصور کرتا ہوں۔ میں جاپان میں دوسری آرٹسٹوں کے فن پاروں
سے آگاہ ہوں جن میں انھوں نے تنخواہ دار لوگوں کی رات گئے دفتروں سے گھر
آتے ہوئے ٹرین میں تصویریں بنائیں، جن میں وہ مسافر ذہنی طور پر مکمل طور
پر تھکے ہوئے نظر آتے ہیں، پلیٹ فارمز پر اوندھے پڑے ہوئے ہیں۔ یہ تصویریں
سنگین زیادتی ہیں۔‘
’یہ (تصویریں) کچھ نہیں بولتی ہیں، اور یہ ایک قسم کی شہوت نظری ہے جس کے
میں خلاف ہوں۔ میں ایسا کبھی نہ کروں۔‘
|
|