پاکستانی پولیس موبائل فون کے ذریعے 3 طریقوں سے مجرم کا
سراغ لگاتی ہے اور یہ وہی 3 طریقے ہوتے ہیں جن کا استعمال دیگر ممالک کی
پولیس بھی کرتی ہیں- لیکن یہ واضح رہے کہ ان طریقوں کی مدد سے مجرم کی
موجودگی کا بالکل درست مقام تو معلوم نہیں ہوتا لیکن پولیس مجرم کے بہت
قریب ضرور پہنچ جاتی ہے- جس کے بعد باقی محنت پولیس کو خود کرنا ہوتی ہے
اور وہ مجرم کو تلاش کرتی ہے-
|
|
موبائل فون کے ذریعے مجرم کو پکڑنے کا پہلا طریقہ تو انتہائی سادہ ہوتا ہے
اور وہ یہ کہ پولیس مجرم نے جس موبائل فون نمبر کا استعمال کرتے ہوئے بلیک
میلنگ وغیرہ کے لیے کال کی ہے موبائل کمپنی اس نمبر کا ریکارڈ نکلوایا جائے-
اور دیکھا جائے کہ وہ کس کے نام پر رجسٹرڈ ہے اور ایڈریس وغیرہ کیا ہے؟ اگر
تو مجرم نے اپنے اصلی نمبر سے کال کی ہے تو وہ باآسانی گرفت میں آجاتا ہے-
مگر اس کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں-
اکثر مجرم ایسی سِم کے ذریعے فون کرتے ہیں جو ان کے نام پر رجسٹر ہی نہیں
ہوتی- ایسے میں پولیس دوسرا طریقہ استعمال کرتی ہے- ہوتا یہ ہے کہ عام طور
پر مجرم کال کرنے کے لیے موبائل فون میں سِم تو دوسری لگا لیتا ہے لیکن
موبائل فون وہی استعمال کرتا ہے جو اس کے عام استعمال میں ہوتا ہے-
جب مجرم دوسری کسی سِم سے کال کرتا ہے تو موبائل کمپنی کے پاس نمبر کے ساتھ
ساتھ موبائل کا آئی ایم ای آئی (imei) نمبر بھی چلا جاتا ہے- جس پر پولیس
اس آئی ایم ای آئی نمبر کے ذریعے استعمال ہونے والی دیگر سِم کا بھی پتہ
کرتی ہے- یعنی اس موبائل میں لگنے والی دوسری سِموں کے بارے میں بھی
معلومات لیتی ہے جو یقینی طور پر مجرم کے نام پر یا اس کے قریبی رشتے دار
کے نام پر ضرور رجسٹرڈ ہوتی ہیں- اس طرح پولیس کو مجرم تک پہنچنے میں آسانی
ہوجاتی ہے-
|
|
تیسرا طریقہ موبائل ٹاور کے سگنلز کا پتہ لگانا ہے- اس طریقہ میں موبائل
کمپنی کی جانب سے پولیس کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں کہ مجرم کا موبائل کس
ٹاور سے سگنل موصول کر رہا ہے اور وہ ٹاور کونسے علاقے میں نصب ہے؟ سسٹم
میں مجرم کے موبائل فون کا ٹاور سے فاصلہ بھی نمایاں ہورہا ہوتا ہے- مجرم
کا موبائل جتنے ٹاور کے رینج میں آتا ہے ان سب کی معلومات لے کر پولیس سرچ
آپریشن شروع کرتی ہے اور بالآخر مجرم تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتی ہے-
واضح رہے کہ تمام موبائل کمپنیاں پولیس کو ریکارڈ فراہم کرنے کی پابند ہوتی
ہیں اور وہ پولیس کو ہر قسم دستیاب معلومات فراہم کرتی ہیں-
|