رمضان المبارک میں تو شیطان قید ہوجاتاہے ۔ مگرجیسے ہمارے
یہاں ذخیرہ اندوز اور زائد منافع خور اِنسان نما شیطان کے چیلے چانٹے مدر
پدر آزار ہوجاتے ہیں،جیسایہ ایک ماہ تک لوٹ مار کا بازار گرم کرتے ہیں ،سب
جانتے ہیں۔اور ماہِ رمضان کے آنے سے پہلے اور عید کی چاند رات تک مہنگائی
محورقص رہتی ہے۔ ذخیرہ اندوز ،زائد منافع خور اور کلمنہی مہنگائی دھمال
ڈالتے ہیں۔ غریب خوشیوں سے محروم رہتاہے۔ لگتا ہے کہ جیسے میرے دیس پاکستان
میں ماہ رمضان سے مہنگائی اور منافع خوروں کا گہرا تعلق ہے ۔جبکہ رمضان
رحمان کے نیک بندوں کے لئے پہلے ہی رحمتوں ، برکتوں اور بخششوں کی ساعتیں
لئے نزول ہوتا ہے۔ یقینا ذخیرہ اندوز اور زائد منافع خور اِس ماہِ مبارکہ
میں ناجائز طریقوں سے زائددولت جمع کرنے کے چکر میں ربِ کائنات اﷲ رب العزت
کی رحمتوں،برکتوں اور بخششوں سے محروم رہ جاتے ہوں گے۔
جہاں سارے عقل مند جمع ہوجا ئیں؛ تو عقل کاگھاس چرنے جا نا یقینی ہوجاتا
ہے،ایسے کام ہوتے ہیں کہ توبہ توبہ کان کو ہاتھ لگائے بغیر کوئی نہیں رہ
سکتاہے۔ کہنے دیجئے، کہ آج ہماری حکومت میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک ارسطو
اور افلان طون جمع ہیں۔ اِسی لئے قدم قدم ہر حکومتی نااہلی ٹپک ٹپک کر بہہ
رہی ہے۔
اَب یہ حکومتی نااہلی ہی تو ہے کہ جیسے اِس حکومت نے رمضان المبارک میں
دفاتر کے اوقات کار صبح 10بجے سے دوپہر4بجے تک فکس کئے ہیں۔ سوچیں ،جب صبح
اور شام کے وقت تمام سرکاری و نجی اور بینکوں کی ایک ساتھ آمد اورچھٹی ہوگی
تو کراچی سمیت مُلک بھر کی سڑکوں پر رش اور ہجوم کا کیا عالم ہوگا؟ سب
کوشام کے وقت جلدگھر پہنچ کر اپنی فیملی کے ساتھ افطار کرنے کی خواہش اور
جلدی میں حادثات لگ ہوں گے۔ موجودہ حکومت کی نااہلی سے رمضان المبارک میں
دفاتر کے اوقات کارکا 70سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیاہے۔
جبکہ پچھلے 70سالوں میں ماہِ رمضان المبارک کے اوقات کار صبح 8بجے سے دوپہر
1یا2بجے تک ہواکرتے تھے. روزہ دار ملازمین آرام اور سہولت کے ساتھ اپنے
گھروں تک پہنچتے تھے .مگر امسال پی ٹی آئی کی نا اہل اشخاص اور منصوبہ
سازوں پر مشتمل حکومت کی جہ سے ایسا نہیں ہوگا ۔ماہ رمضان المبارک میں
کراچی سمیت مُلک بھر کی سڑکوں کا صبح اور شام کے اوقات میں رش اور ہجوم کے
باعث منظر کسی قیامت سے کم نہ ہوگا سب کو نفسا نفسی کی پڑی ہوگی اور ہر
کوئی جلد بازی کی وجہ سے ایک دوسرے سے اگلے نکلنے کے چکر میں حادثات کا
شکار الگ ہورہا ہوگا ۔لازمی ہے کہ وزیراعظم عمران خان جہاں تک یو Uٹرن لے
چکے ہیں۔ آج ایک Uٹرن رمضان المبارک کے پرانے والے صبح اور شام کے اوقات
کار کی بحالی کے لئے بھی لے کر خود کو پکا اور سچا مسلمان ثابت کرنے میں
جلدی کریں۔
بہر حال ،آج ایوان اور مچھلی بازار میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ہے، دونوں
جگہوں سے تعفن اٹھ رہاہے،ایوان حزبِ اختلاف اور اقتدار کے اراکین کی ذاتی
اور سیاسی کردار کشی سے ناگوار بو سے دوچار ہے ؛تو وہیں۔سڑکوں پر حکومتی
حامیوں اور اپوزیشن کے چاہنے والے دست وگریبان ہورہے ہیں۔ اَب نوبت یہاں تک
پہنچ چکی ہے کہ چیخ چلانے والوں سے غلط اور ٹھیک کی تمیز بھی ختم ہوگئی ہے۔
ہمارے شہری کتنے طاقتور ہیں؟ اِس کا اِنہیں اندازہ ہی نہیں ہے ۔جس رو ز
پاکستانیوں کو اپنی قوت کا لگ پتہ گیا۔ یقینا اُسی روز پچھلے اگلے حکمرانوں
کے ہوس ٹھکانے آجا ئیں گے، وہ تو اچھا ہو کہ ابھی تک پاکستانی حکمرانوں اور
سیاستدانوں کے ہاتھوں کھیلونا بنے ہوئے ہیں۔تب ہی اِن سے سیاسی بہروپئے
کھیل رہے ہیں ۔اَب پاکستانیوں کو جاگنا ہوگا ور نہ، ہمارے سیاسی پنڈٹ ہمیں
ٹرک کی لال بتی کے پیچھے بھگاتے رہیں گے؛ اور ہم تھک ہار کر چُورچُور ہوتے
رہیں گے۔ اورباری باری ہمارے سیاسی جو کر (حکمران) ہمیں سیراب دِکھاکر پاگل
بناتے رہیں گے اور ہم پاگل بن کر اپنا تن من دھن سب کچھ اپنے سیاسی کائیں
کائیں کرتے کووں پر اُلٹاتے رہیں گے۔
جب تک پاکستان میں پیٹ بھرے لوٹ مارکرتے حاکم مسندِ حکمرانی پر قابض رہیں
گے۔ اُس وقت تک یہ بدنیت حکمران اپنے وزراء اور مشیروں سے غریب عوام کو طرح
طرح کی لولی پاپ سے بہلاتے رہیں گے، اور عوام مہنگائی کے ہاتھوں مرتے رہیں
گے، اِس لئے کہ یہی 71سال سے پاکستان میں حکمرانوں اور اِن کے ساتھیوں کا
عوام کو مہنگائی سے مارنے کا مشغلہ ہے۔ اِدھر اُدھر سے آٹھ دس ماہ سے
غیرمستحکم ہونے کے طعنے سُننے والی حکومت استحکام کے دائرے میں کب آئے گی؟
کیا یوں ہی اپنے پانچ سال تنقیدیں اور طعنے سُننے اور جواب دینے میں گزار
دے گی؟یا عوام کی خیر خواہی اور فلاح کے لئے بھی اپنے وعدوں اور دعووں کے
مطابق کچھ اچھا کرنے کا ارادہ رکھتی بھی ہے کہ نہیں ؟ جبکہ آج گزرتے دن کے
ساتھ مہنگائی کے مارے ہر پاکستانی میں رواں حکومت سے متعلق تذذب اور اضطراب
بڑھتا جارہاہے کہ یہ کیسی حکومت ہے جو ابھی تک عوامی فلاح و بہبود کا ایک
بھی کام نہیں کرسکی ہے۔
آخرکب حکومت گرداب سے نکلے گی؟اور اِس کا اضطراب اورعدم استحکام کا اونٹ
کسی کروٹ بھی بیٹھے گا ؟ یا یوں ہی سب کچھ چلتارہے گا؟عوام مہنگائی کے بوجھ
تلے دب کر مرتے رہیں گے،اور حکمران اور اِن کے چیلے چانٹے غیر سنجیدگی کا
مظاہر ہ کرتے ہوئے سب کچھ ہنس کر ڈالتے رہیں گے اور جیسا ہے جہاں ہے سب کچھ
یوں ہی چلتارہے گا۔ایک بات ہے کہ 71سال سے پاکستانی قوم کی سب سے بڑی
بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اِس نے شخصیت کے قول و فعل کو چھلنی سے چھانے بغیر بس
چہرہ دیکھ کر جِسے بھی حکمران چُنا اِسی نے قوم کو مہنگائی کے طوفان او ر
بحرانوں سے دوچار کیا۔ اورقوم کو مسائل کی دلدل میں دھکیلنے میں ثوابِ
دارین سمجھ کر اپنا بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا۔اِسی طرح دوسری بات یہ کہ قوم
نے جس کسی کو بھی اپنا مسیحا سمجھ کر اقتدار کی کنجی سونپی دراصل وہ اِنسان
کی صورت میں لالچی اور بدنیت شیطان کا لائق شاگرد نکلا ۔اُسی نے اپنے فعل ِ
شنیع سے مُلک و قوم اور قومی خز انے کو اِتنا نقصان پہنچایا کہ آج بھی
پاکستانی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر رورہے ہیں۔
پارلیمنٹ جہاں قانون سازی ہونی چاہئے ۔یہاں کا حال یہ ہے کہ ایوان میں
حکومت اور اپوزیشن کے غیر سنجیدہ ریوں اور ذاتی و سیاسی لڑائی جھگڑوں کی
وجہ سے اِن کا تقدس پامال ہورہاہے ، تب ہی آٹھ دس ماہ میں باہر بیٹھ کر
دیکھنے والوں نے اندازہ کرلیا کہ حکومت باقی کے سال بھی بغیر کچھ کئے اِسی
حال میں گزاردے گی ۔ اِس پس منظر میں آہستہ آہستہ مُلک پر ٹیکنوکریٹس کی
حکمرانی کے لئے راہ ہموار کی جانے لگی ہے۔ اگر حکومت نے ابھی سنجیدگی کا
مظاہرہ نہ کیا ۔اور اپنا قبلہ درست کرتے ہوئے؛ اپنا صحیح رول ادانہ کیا ؛تو
پھریہ جان لے کہ جو طاقتور باہر بیٹھے ہیں۔وہ حکمرانی کے شطرنج کے کھیل میں
ٹیکنوکریٹس کی ہی مدد کریں گے؛اور اِنہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لا ئیں گے ۔کیوں
کہ رواں حکومت کے حالیہ دِنوں میں جس طرح سے ٹیکنو کریٹس کی بنیاد رکھی گئی
ہے ۔
اَب کہیں ایسا نہ ہو کہ دیکھتے ہی دیکھتے منتخب حکومت سے اقتدار چھن کر
ٹیکنو کریٹس کے ہاتھ آجائے ۔پھر عوام کو نیاپاکستان اور تبدیلی کا خواب
دِکھاکر حکمرانی کرنے والی ہماری رواں حکومت کے
کرتادھرتاؤں کے ہاتھ سِوائے کفِ افسوس اور پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہ آئے۔پی
ٹی آئی کی حکومت کی مہنگا ئی کی بھڑکائی ہوئی 108روپے لیٹرپیٹرول آگ میں
بیچارے مفلوک الحال ،غریب پاکستانی جل بھن کر بھسم ہوجا ئیں اور منتخب
حکومت کے ہا تھ سے اقتدار پھسل کر ٹیکنو کریٹس کی جھولی میں چلا جائے۔
قبل اِس کے کہ ایسا کوئی دن آئے؛ وزیراعظم عمران خان مُلک میں بڑھتی ہوئی
مہنگائی کو لگام دینے اور اپنے اردگرد حکومت میں شامل ایسے نااہل اور
ناکارہ لوگوں کو بھی نکال باہر کریں جنہوں نے مُلک میں مہنگائی کا طوفان
برباکرایااور جنہوں نے ماہ رمضان المبارک میں آفس ٹائمنگ کا 70سالہ ریکارڈ
غلط ٹائمنگ صبح 10بجے سے شام4بجے تک اور جمعہ صبح 9بجے سے1بجے تک فکس کراکے
توڑاہے۔ جبکہ پچھلے ستر سال میں رمضان المبارک میں تمام دفاتر کے اوقات کار
صبح 8بجے سے دوپہر1یا 2بجے تک ہوا کرتے تھے۔(ختم شُد) |