اردو ہم شرمندہ ہیں!

تحریر: احمد امین

زبان کسی بھی معاشرے کی ثقافت اور شناخت کا اہم ستون ہوا کرتی ہے۔ دنیا میں جتنی بھی قومیں ترقی کرتی ہیں۔ وہ کبھی بھی اپنی زبان تہذیب اور روایات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی ۔ جوان کو پیچھے دھکیلتی ہیں وہ قومیں برباد ہو جاتی ہیں۔ جو اپنی تہذیب اور زبان کو بھول جاتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب اردو میں بات کرنا پروقار اور اعلیٰ مرتبہ کی بات سمجھی جاتی تھی لیکن جیسے ہم مغربی ثقافت سے متاثر ہونا شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ ہم نے چاشنی سے بھری اس زبان کو پیچھے دھکیلنا شروع کردیا۔ اب تو یہ عالم ہے کہ اگر کسی کے سامنے ہمارے منہ سے اردو کا جملہ نکل آئے تو ہم نادم ہوتے ہیں اور شرمندگی سے کو نے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اپنی بے عزتی محسوس کرتے ہیں۔ اردو زبان کو عزت اور اہمیت دینا تو دور اب ہم اس سے شرمندہ ہیں۔ زبان بھی کھو رہی ہے۔ اور تہذیب بھی آج کا نوجوان اپنے آپ کو ماڈرن اور تہذیب یافتہ دکھانے کے لئے مغربی ثقافت سے اس قدر متاثر ہے۔ آج کے سکولوں میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ بچہ انگریزی ہی میں بات کرے۔یہی نہیں بلکہ انگریزی کو لے کر آگے جائے۔

آج اردو کو ایک ثانوی حیثیت دی جا چکی ہے۔ ایک وقت تھا جب کسی سے ملتے تھے تو السلام و علیکم کہا کرتے تھے۔ اب اس کی جگہ ہائے اور ہیلو نے لے لی ہے۔ تعلیمی اداروں میں اب ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ جو کبھی استاد ہوا کرتے تھے، آج وہ ٹیچر کہلانے لگے ہیں۔ وہ اب اپنے شاگردوں کو فقط انگریزی میں بات کرنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ یہاں تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رو یا جائے، ہمارے گھروں میں بھی اردو کو ایک یتیم اولاد کی طرح کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ کلاس ٹیچر کے پاس والدین شکایت کرنے آتے ہیں کہ ہمارا بچہ اردو میں بات کرنے لگا ہے۔ یہ چیز ہمارے لیے پریشانی کا سبب ہے۔ جس معاشرہ میں والدین اپنے بچوں کے قومی زبان بولنے پر فکر میں پڑ جائیں تو ایسے معاشرے کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ہمیں باقی زبانوں کو پیچھے چھوڑ دینا چاہیے کیوں کہ دنیا کے ساتھ چلنے، آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیے ان زبانوں سے آشنائی ضروری ہے۔ لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اس آگے بڑھنے کی دوڑ میں ہم اپنی قومی زبان ہی کو فراموش کر دیں ہمیں تو اس پر فخر محسوس ہونا چاہیے۔ وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں کہاں سے فخر کا باعث ہے؟ اگر غور کیا جائے تو جو چاشنی اردو زبان میں ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں۔ رکھ رکھاؤ اور ٹھہراؤ سے بھری زبان کو ہچکولوں کا سامنا ہے۔

جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اردو بولنے اور پڑھنے والے ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ آج کا نوجوان اردو کو رومن میں پڑھتا ہے اور اس کے پاس یہ جواز موجود ہے کہ جب رومن میں پڑھ لیتے ہیں تو اردو کے اپنے رسم الحظ کی کیا ضرورت ؟محض رومن میں اردو لکھ کر یہ احسان کیا جاتا ہے کہ ہم اتنی ہی اردو جانتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ اردو بالکل ہی ناپید ہو جائے اب اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اپنے تعلیمی اداروں، گھروں اور دفتروں میں اردو کو رائج کریں۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں اردو شامل تو ہے لیکن اس پر توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ والدین جہاں گھروں میں بچوں کے آپس میں انگریزی بولنے کے لیے جدوجہد میں لگے ہیں اگر اس کے ساتھ اردو بھی بولیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اردو زبان کے زوال میں حکومت سے لے کر ایک عام آدمی تک نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے۔

دکھ تو اس بات کا ہے کہ میں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہوکر کیسے بگاڑ لیا ہے۔
آخری میں ایک شعر سب قارئین کی نذر کرنا چاہوں گی کہ
؂اردو ہے مرا نام میں خسروؔکی پہیلی
میں میرؔ کی ہم زاد ہوں، غالبؔ کی سہیلی
 

Ahmed Ali Kaif
About the Author: Ahmed Ali Kaif Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.