ازقلم:حافظ عمیرحنفی
رمضان پورے سال کا قلب ہے۔
اگر یہ درست رہا تو پورا سال درست ہے،اسی لئے امام ربانی حضرت مولانا مجدد
الف ثانی ؒ اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں
کہ رمضان المبارک کے مہینے میں اتنی برکت کا نزول ہوتا ہے کہ بقیہ پورے سال
کی برکتوں کو رمضان المبارک کی برکتوں کے ساتھ وہ نسبت بھی نہیں جو قطرے کو
سمندر کے ساتھ ہوتی ہے۔۔۔۔۔
’’رمضان کا لغوی مفہوم،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
شَھْرْ رَمَضَاَنَ اَلَّذِیْ اْنْزِلَ فِیِہِ اْلْقْرْآن
ترجمہ:رمضان کا وہ مہینہ جس میں قرآن نازل ہوا
رمضان کا لفظ ’’رَمْضْ‘‘سے نکلا ہے اس کے لفظی معنیٰ تیزی اور شدت کے
ہیں۔عربی میں کہتے ہیں ’’رَمِضَ یَوْ مْناَ ایْ اشْتَدَّ حَرّْہ‘‘کہ آج تو
گرمی بہت ہے۔
اس طرح جب کواپرندہ بہت زیادہ پیاسا ہو اور پیاس کیوجہ سے لمبے لمبے سانس
لے رہا ہوتو اسے عربی میں ’’رَمِضْ الّطائِرْ‘‘ کہتے ہیں۔یعنی پرندہ کو بہت
پیاس لگی ہے۔
رَمضَانْ کا لفظ فَعٍلاَن کے وزن پر اسم جنس ہے بعض علما نے کہا باب سَمِعَ
یَسمَعْ سے رَمِضَ یَرْمَضْ اسم مصدر ہے
یہ وہ مہینہ ہے کہ گناہوں کی تپش کو ٹھنڈا کرنے کیلئے آتا ہے، گویا رمضان
کا لفظ خوداپنا معنیٰ بتا رہا ہے کہ لوگوں نے اپنی جانوں پر جو ظلم کیے،ان
گناہوں کیوجہ سے شدت سے آگ جل رہی تھی اور رمضان المبارک کا مہینہ اس آگ کی
شدت کو ختم کرنے کیلئے بھیجا گیا ہے۔
روزہ کا لغوی واصطلاحی مطلب
روزہ کو عربی میں صوم کہتے ہیں، اس کا لغوی معنیٰ ہے رک جانا،ٹہرجانا۔
جب بی بی مریم نے بولنا بند کیا تو قوم نے کہا آپ بات کریں تو انہوں نے قوم
سے کہا:
’’اِنّیْ نَذَرْتْ لِلرّحمٰنِ صَوْمَاً‘‘
(بیشک میں نے رحمٰن کیلئے روزہ مان لیا ہے)
ان کا یہ صوم کھانے پینے سے رکنا نہیں تھا،بلکہ اس کا مطلب بولنے سے رک
جانا تھا۔
اسی طرح کوئی گھوڑا چلتے چلتے رک جائے اور تھکاوٹ کیوجہ سے نہ چلے عربی میں
اس کو صائم کہتے ہیں۔
شرعی اصطلاح میں طلوع صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے اور جماع سے
پرہیز کرنے کو روزہ کہتے ہیں۔
حافظ ابن حجر نے روزہ کی تعریف یہ لکھی ہے:
(مخصوص وقت میں مخصوص شرائط کیساتھ مخصوص چیزوں سے رکنے کا نام روزہ ہے)
روزے کیلئے نیت کا ہونا شرط ہے۔
اگر کوئی آدمی بغیر نیت کے بھوکا پیاسا رہے گا تو اس کو اجر نہیں ملے گا۔۔۔۔جب
پہلا روزہ افطار کیا جائے تو اسی وقت اگلے روزے کی نیت کرلی جائے۔
یہ وہ مہینہ ہے جس کی پہلی رات میں جنت کے دوازے کھول دیئے جاتے ہیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان سے قبل یہ دعا فرماتے تھے۔
’’ اَللّٰھْمَّ بَارِکْ لَناَ فِی رَجَب وَشَعْبَانَ وَبَلِّغناَ اِلیٰ
رَمضَانَ‘‘
(اے اﷲ !رجب اور شعبان میں ہمیں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان المبارل تک
پہنچا)
آج بہت کم دوست ایسے ہیں جو یہ دعا مانگنتے ہیں افسوس یہ سنت ختم ہوتی
جارہی ہے۔۔۔
ابن الفضل مشہور تابعی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے ہاں رمضان المبارک کا
اتنا اہتمام ہوتا تھا کہ :ہم چھ مہینے اﷲ سے دعا مانگتے یا اﷲ ہمیں رمضان
تک پہنچا دے اور رمضان کے گزرنے کے بعد باقی چھ مہینے دعا کرتے اے اﷲ !
ہمارے رمضان کو قبول فرمالے۔۔۔
اب چند احادیث فضیلت رمضان المبارک پر پیش کی جاتی ہیں۔
حضرت ابوسعیدخدریؓ کی روایت ہے:
ترجمہ :(اﷲ رب العزت رمضان المبارک کے ہردن اور ہر رات میں جہنم سے جہنمیوں
کو بری کرتے ہیں۔اور رمضان المبارک کے ہردن اور ہررات میں مومن کی کوئی نا
کوئی دعا قبول فرما لیتے ہیں)
اب ہم پرمنحصر ہے کتنا مانگتے ہیں؟؟
ابن ماجہ کی روایت ہے نبی کریم ﷺنے فرمایا:ترجمہ حدیث مبارکہ
(یقیناً یہ رمضان المبارک کا مہینہ تمہارے پاس آچکا ہے اس مہینے میں ایک
رات ہے جو ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ،جو بندہ اسکی خیر سے محروم رہا
وہ ساری ہی خیر سے محروم رہا اور اسکی خیر سے وہی بندہ محروم ہوتا ہے جو
حقیقت میں محروم ہوتا ہے)۔
ایک مرتبہ حضورنبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ حدیث مبارکہ :
(رمضان تمہارے اوپر آگیا ہے جو برکت والا مہینہ ہے، اس میں اﷲ رب العزت
تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور تم پر رحمتیں نازل فرماتے ہیں،تمہاری خطاؤں
کو معاف کرتے ہیں، دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں، اور اس میں تمہارے تنافس کو
دیکھتے ہیں)۔
تنافس کہتے ہیں نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کو،اس لیئے ہربندہ یہ کوشش
کرے کہ میں زیادہ عبادت کرنیوالا بن جاؤں۔
امام بخاریؒنے ایک حدیث بیان کی ہے وہ فرماتے ہیں:ترجمہ:۔ (جنت کا ایک
دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے،قیامت کے دن اس میں سے روزہ دار گزریں گے،
انکے سوا کوئی بندہ اس دروازے میں سے نہیں گزرسکتا، آواز دی جائے گی کہ
روزے رکھنے والے کہاں ہیں؟روزہ دار کھڑے ہوجائیں گے۔ان کے سوا کوئی اس میں
سے داخل نہیں ہوسکے گا،اور جب وہ داخل ہوجائیگا دروازہ بند کردیا جائیگا)۔
بعض کتابوں میں لکھا ہے جب وہ اس دروازے سے داخل ہونگے توفرشتے انکو یہ آیت
پڑھ کر سنائیں گے۔
ترجمہ آیت مبارکہ:۔ (تم کھاؤ،پیو،یہ بدلہ ہے ان ایام کا جو تم نے اﷲ کی
عبادت میں گزارے تھے)۔
روزہ اﷲ اور بندے کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ ہے۔ حدیث مبارکہ کیالفاظ ہیں
جن کا ترجمہ یہ ہے :
(روزہ میرے لئے ہے اور اسکا بدلہ بھی میرے ذمہ ہے) اس میں ایک نکتہ ہے
ہردینے والا اپنی استطاعت وبساط کے مطابق دیتا ہے متوسط آدمی تھوڑا دے
گا۔امیرآدمی زیادہ دے گا۔اور مالک الملک ذوالجلال کتنا دے گا ؟؟؟۔کوئی
اندازہ نہیں ہے ۔
روزہ بے مثل اور بے ریا عبادت ہے چنانچہ حدیث مبارکہ بیان کی گئی ہے۔
ترجمہ :۔(تمہارے اوپر روزہ لازم ہے کیونکہ اس کی کوئی مثل نہیں) ہے۔
روزہ اور قرآن قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔
حدیث مبارکہ ہے جسکا ترجمہ یوں ہے:
(روزہ اورقرآن پاک دونوں شفاعت کریں گے قیامت کے دن بندے کیلئے)ماخوذاز
خطبات فقیر
رمضان المبارک آنیوالے سال کا نمونہ ہوتا ہے۔اگر رمضان جمیعت کے ساتھ گزارا
تو پورا سال جمیعت کیساتھ گزرے گا۔اگر رمضان تفرقہ کے ساتھ گزارا تو پورا
سال تفرے کیساتھ گزرے گا۔
اب جوآدمی چاہتا ہے کہ اس کی نگاہ پر کنٹرول ہو۔۔۔۔۔وہ رمضان المبارک میں
اس پر عمل کرے اﷲ تعالیٰ پورے سال میں اپنی نگاہ پر کنٹرول عطا کریں گے جو
چاہتا ہے تہجد کی حضوری نصیب ہو رمضان المبارک میں میں کریاﷲ عزّجل پورا
سال تہجد کی پابندی نصیب میں لکھ دیں گے۔ ان شاء اﷲ
اﷲ تعالیٰ ان مبارک ساعات کو سمجھ کر قدر کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین
|