اللہ تعالی نے ابن آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر حکمران
بنانے کے لےاشرفیت کی کرسی پر بٹھایا اور اسے اعتماد اور حوصلہ دینے کے لے
فرمایا کہ زمین و آسمان تمھارے تصرف میں ہیں: " جس نے تمہارے لئے زمین کو
بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل
نکالے تمہارے کھانے کو۔ تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ"
:(البقرہ 22) صرف اتنا ہی نہیں بلکہ زمیں و آسمان میں جو کچھ ہے(جو نظر آتا
ہے یا محسوس ہوتا ہے) وہ سب کچھ بھی اس کی رعیت میں دے دیا : " وہی ہے جس
نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔ پھر آسمان کی طرف استوا (قصد)
فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے وہ سب کچھ جانتا ہے - (البفرہ: 29) اور
فرشتوں پر(جواللہ کے احکامات پر عمل درآمد کے پابند ہں ) واضح کر دیا کہ
انسان اللہ کا نائب ہے۔ اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں
زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں
فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا اور ہم تجھے سراہتے ہوئے ، تیری
تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں ، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں
جانتے -(البقرہ:30) پھر علیم نے اپنے ذاتی علم سے انسان کو سرفراز فرمایا ،
اور انسان کی علمی برتری بھی فرشتوں پر واضح کر دی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے
آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے
فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ (البقرہ:31) اور انسان کی اس برتری کو
ثابت بھی کر دیا ۔ فرمایا اے آدم بتا دے انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے
(یعنی آدم نے ) انہیں سب کے نام بتا دیئے فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں
جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم
ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو -(البقرہ:33) اسی پر اکتفا نہ کا بلکہ
فرشتوں سے سجدہ کرا کر خلافت الہی کا مقام مستحکم کیا اور جس کسی نے اس
اعلی انسانی مرتبے کی حقیقت کو نہ جانا، اس کو اپنے دربار ہی سے نکال
باہرنہ کیا بلکہ اس کو ذلیل و رسواء کر دیا اور اس کی سات لاکھ سال کی
فرمانبرداری کو شرف انسان کے مقام کےاستحکام پر تج دیا ۔ اور (یاد کرو) جب
ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس
کے کہ منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا- (البقرہ:34) انسان کے لیے
خالق نے جنت آراستہ فرمائی ۔اور وہاں اسےگھر دیا ۔اور آزادی عطا فرمائی۔
اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے
بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے
والوں میں ہو جاؤ گے - (البقرہ: 35) پھر آدم کی خطا معاف فرمانے کے لے ،
خود ہی آدم کو کچھ کلمات سکھا دیے ۔اور آدم کی خاکساری اور انکساری پر معاف
بھی فرما دیا۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی
توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرہ: 37)
انسان زمین پر آباد ہوا تو خالق انسان نے اس کے لے آسمان سے نعمتوں کے خوان
اتارے ۔ اور ہم نے ابر کو تمہارا سائبان کیا اور تم پر من اور سلویٰ اتارا
کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور انہوں نے کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی
ہی جانوں کو بگاڑ کرتے تھے - اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ -۔
(البقرہ: 57) کبھی زمین پر پانی کا قحط ہوا تو معجزوں کے ذریعے انسان
کوسیراب کیا ۔ اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے فرمایا
اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے بارہ چشمے بہ نکلے ہر گروہ نے
اپنا گھاٹ پہچان لیا کھاؤ اور پیو خدا کا دیا اور زمین میں فساد اٹھاتے نہ
پھرو۔(البقرہ: 60) انسان کو زمنی پر بسنے اور کھانے پینے کی آزادی عطا
فرمائی۔ اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اورشیطان کے قدم پر
قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ،(البقرہ: 168) اتنی مہربانواں
اور نوازشوں کے بعد بھی جب انسان خالق و بندے کے رشتے کا ادراک نہ کر پائے
تو رفیق اعلی یاد دلاتا ہے۔ کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہے
آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ
مددگار۔ (البقرہ: 107)
|