پہلا منظر:
“امی مجھے نہیں کرنی اپنے گائوں والے کزن سے شادی ۔ وہ پڑھا لکھا نہیں ہے ۔
اس کا آئی کیو گائے بھینس ، اور فصل وغیرہ سے اوپر نہیں ہے ۔
ارے بیٹا تو کیا ہو ا۔؟
یہ بھی تو دیکھ اکلوتا بیٹا ہے وہ اپنے والدین کا۔ کوئی بہن نہیں کوئی
بھائی نہیں راج کرے گی میری شہزادی راج۔”
“لیکن امی مجھے لگتا ہے وہ لوگ دولت کے بھی لالچی ہیں پتا ہے نا آپ کو
سالوں سال فون تک نہ کرنے والے ننھیالی رشتے دار ابا کے بیس لاکھ کے پرائز
بانڈ کا سن کر کیسے بھاگے چلے آئے تھے حال احوال پوچھنے ۔”
“میری بچی سب وہم ہے ۔ لالچ والچ کیا۔ بس خوشیوں میں شریک ہو گئے تو کیا
ہوا۔”
“لیکن امی ۔ “؟
“بس کوئی لیکن ویکن نہیں تمھیں پڑھایا لکھایا اس مقام تک پہنچایا اب تم
اپنے بوڑھے ماں باپ کے سر میں انکار کی مٹی ڈال کر انھیں شرمندہ کرنا چاہتی
ہو ؟
لالچی ہیں بھی تو کیا ہوا ہم تمھیں کوئی فقیر لگتے ہیں ۔۔ گھر کی پہلی خوشی
ہے جی کھول کر جہیز دیں گے۔
بس خبر دار جو کچھ الٹا سیدھا سوچا ہم ماں باپ ہیں تمھارا برا تھوڑی نا
چاہیں گے
بس میری بچی اللہ بہتر کرے گا۔”
دوسرا منظر:
“اف بیگم اب کیا کریں بتائو تم سے کہا بھی تھا کہ جہیز پہلے بھجوادیتے ہیں
۔
اب کیا کریں شادی ہو گئی ہے ۔ دو دن بعد ولیمہ ہے اور آج یہ ڈکیتی کی
واردات۔ اوہ میرے خدا ظالموں نے کچھ نہیں چھوڑا میری بچی کے جہیز کا ایک
ایک تنکا تک لوٹ کر لے گئے خدا غارت کرے ۔ “
“حوصلہ رکھیں آپ ۔ اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوگی ۔ بس اللہ ہماری بچی کو
کسی آزمائیش سے بچائے میرے تو دل کو کچھ ہو رہا ہے ۔”
تیسرا منظر:[ایک سال بعد]
“ہنہ بڑے ٹھاٹ سے بیاہ کر لائی تھا نا اماں تم اسے اب دیکھ لو کیسا کھیل
کھیلا ہے اس کے ماں باپ نے ۔ ڈکیتی کے نام پر سارا جہیز غائب کردیا۔ اور ہم
پھر وہی خالی ہاتھ کے خالی ہاتھ۔ “
“کان کھول کر سن لو تم میں تمھیں تمھارے باپ کے گھر چھوڑ کر آرہا ہوں میرا
ہاتھ تنگ ہے آج کل فصل بھی پوری نہیں ہوئی سوچا تھا کہ تمھارے نصیب سے کچھ
ہاتھ پاوں ماروں گا لیکن اب تو یہ لگتا ہے میرے نصیب پر سیاہی تم نے ہی
پھیر دی ہے آ کر۔”
آخری منظر۔
“بیٹی کیا ہوا تم کیوں رو رہی ہو اور تمھارا شوہر کہاں ہے ۔ اتنی دور سے
اکیلی چلی آئیں اس بدذات کو اتنا بھی خیال نہیں آیا۔
کہ حاملہ عورت اتنا لمبا سفر۔ ارے ۔ ارے یہ تمھارا رنگ۔ پیلا کیوں پڑ رہا
ہے ۔ بیٹا تم ٹھیک تو ہونا۔”
“کچھ نہیں اماں بس جو اللہ کو منظور” |