ٹھکرایا ہوا ایک شخص

شاہینہ کا باپ خاور ایک اچھا خاصہ متمول آدمی تھا- شاہینہ چونکہ اس کی اکلوتی اولاد تھی، اس لیے قدرتی طور پر وہ اس سے بہت محبّت کرتا تھا- شاہینہ کی ماں ایرانی نسل کی تھی- ایک دفعہ خاور گھومنے پھرنے ایران گیا تھا- اس کے کچھ ایرانی دوستوں نے اسے ایران کے خوبصورت علاقوں کی سیر کروائی- وہیں ایک قصبے میں اس نے یاسمین کو دیکھا اور اسے دیکھتے ہی وہ اسے اتنی پسند آئ کہ اس نے جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ والے محاورے پر عمل کرنے میں دیر نہیں لگائی-
یاسمین ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی مگر بلا کی حسین تھی- اس سے شادی کرکےوہ اسے پاکستان ہی لے آیا تھا- اس شادی کی وجہ سے اسے ایک فائدہ یہ بھی ہوا تھا کہ اس نے اپنی نو بیاہتا بیوی سے فارسی سیکھ لی تھی-
اس کی بیوی یاسمین ایک سمجھدار اور گھر گرہستی والی عورت تھی- وہ بہت جلد پاکستانی معاشرے میں ضم ہوگئی- اس کے ماں باپ بچپن ہی میں علیحدہ ہوگئے تھے اور دوبارہ اپنی اپنی شادیاں کر کے نئے سرے سے اپنی زندگیاں شروع کر چکے تھے-
یاسمین کی پرورش اس کی ایک خالہ نے کی تھی جس کی کوئی اولاد نہ تھی- خالہ کے انتقال کے بعد ایک طرح سے وہ بالکل تنہا رہ گئی تھی- اس کے ماں باپ اگرچہ اسی قصبے میں رہتے تھے مگر دونوں نے کبھی پلٹ کر اس کی خبر تک نہ لی تھی- ایسے میں خاور کا اس سے شادی کرلینا اس کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا-
وہ دل ہی دل میں اس کا یہ احسان مانتی تھی اور اس کے ساتھ بہت پیار اور محبّت سے رہتی تھی- گھر میں اگرچہ نوکروں کی کمی نہیں تھی مگر خاور کا کھانا وہ خود پکاتی تھی اور اس کے دوسرے کام بھی اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھی-
شاہینہ کی پیدائش سے یاسمین کی زندگی میں ایک انقلاب سا آگیا تھا- وہ اب زیادہ مصروف اور زیادہ خوش رہنے لگی تھی- خاور امیر سہی مگر ایک پیار کرنے والا شوہر ثابت ہوا تھا- یاسمین سے اس کی محبّت پہلے جیسے والی ہی تھی، اس میں کمی نہیں آئ تھی- وہ اپنی فیکٹری سے آتا تو اس کی یہ ہی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ وقت بیوی اور بیٹی کے ساتھ گزارے-
خاور نے فراست نامی ایک ڈرائیور بھی رکھا ہوا تھا جو صرف گھر پر ہی ڈیوٹی دیتا تھا- وہ بہت شریف اور ذمہ دار شخص تھا- خاور نے اس کو رہنے کے لیے کوٹھی کے عقب میں واقع ایک سرونٹ کوارٹر دے رکھا تھا اور وہ اس میں اپنی بیوی اور چار سالہ بیٹے کے ساتھ رہتا تھا- اس کی بیوی گاؤں کی تھی اور گاؤں کے دوسرے لوگوں کی طرح ہی سیدھی سادھی تھی-
فراست کا بیٹا علی شاہینہ سے دو سال بڑا تھا- ایک ہی گھر میں رہنے کی وجہ سے وہ دونوں ساتھ ساتھ رہتے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے کودتے تھے- فراست اپنے بیٹے کو پڑھا لکھا کر ایک بڑا آدمی بنانا چاہتا تھا-
شاہینہ کچھ بڑی ہوئی تو شہر کے ایک مہنگے ترین انگلش اسکول میں پڑھنے جانے لگی مگر فراست کو اس کے باپ نے ایک سرکاری اسکول جو پیلے اسکولوں کے نام سے جانے جاتے ہیں، وہاں داخل کروا دیا تھا-
شاہینہ کے ساتھ رہتے رہتے علی کو بھی پڑھنے لکھنے کا شوق ہوگیا تھا- وہ تھا تو پیلے اسکول میں مگر اس کی تعلیمی رپورٹیں بہت اچھی تھیں اور وہاں کے اساتذہ اس سے بہت خوش تھے- اسکولوں میں اچھے طالب علم اسکول کی نیک نامی کا سبب بنتے ہیں-
ایک ہی گھر میں رہنے کی وجہ سے فارغ اوقات میں شاہینہ اور علی ساتھ ہی کھیلا کرتے تھے- دونوں چھوٹے چھوٹے تھے اس لیے ان کے کھیلنے کودنے پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوتا تھا- شاہینہ اس سے بہت مانوس ہوگئی تھی- وہ اپنے کھانے پینے کی چیزوں میں سے علی کے لیے کچھ چیزیں بچا کر اس کے لیے لے جاتی تھی مگر آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ علی نے اس سے کوئی چیز لے کر کھائی ہو- وہ ہمیشہ انکار کر دیتا تھا- شاہینہ کو اس پر بڑی حیرت ہوتی تھی، اسے علی کے انکار کرنے کی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی- اسکول میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا- وہاں تو اکثر بچے اسی کوشش میں رہتے تھے کہ کسی طرح اپنے ساتھیوں کی چیزوں پر ہاتھ صاف کرلیں-
علی اس سے اس کے پرانے کھلونے وغیرہ بھی نہیں لیتا تھا- ایک بات اس نے اور دیکھی تھی کہ جب وہ چاکلیٹ، ٹافی، ببل گم وغیرہ کے ریپر پھینکتی تھی تو علی ان کو اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیتا تھا- ایک دفعہ عید کے موقعہ پر لان میں جھولا جھولتے ہوئے اس کی رنگ برنگی چوڑیاں ٹوٹ کر گھاس پر گر گئیں تو وہ بھی اس نے احتیاط سے اٹھا کر اپنے کرتے کی جیب میں رکھ لی تھیں- وہ اس کی ان حرکتوں کا سبب اس سے معلوم کرنا چاہتی تو وہ ٹال جاتا تھا-
علی تھا تو ایک معمولی آدمی کا بیٹا مگر ہر وقت صاف ستھرا رہتا- شاہینہ نے کبھی اسے میلے کچیلے کپڑوں میں نہیں دیکھا تھا- اس کی یہ عادت شاہینہ کو بہت پسند تھی- جب وہ لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہوتے تو شاہینہ یاد کر کر کے اسکول کی ہر بات اسے بتاتی تھی- وہ بڑی دلچسپی سے انھیں سنا کرتا- اس نے کبھی بھی شاہینہ سے لڑائی نہیں کی تھی، جیسا کہ عموماً اس عمر کے بچے کرتے ہیں- وہ اس کے ہر کام کی تعریف کرتا اور نہایت شائستگی اور نرم لہجے میں اس سے گفتگو کرتا-
ایک روز جب شاہینہ کی بارھویں سالگرہ تھی، تو وہ زرق برق لباس میں نظر آئ- اسے دیکھ کر علی کے منہ سے بے اختیار نکل گیا "تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو"- یہ اس نے کہہ تو دیا مگر پھر ایک دم گڑ بڑا گیا، جلدی سے بولا "میرا مطلب ہے کہ تم ان کپڑوں میں بہت اچھی لگ رہی ہو"- شاہینہ بھی چپ نہ رہ سکی- اس نے ہنس کر کہا "نہیں علی- تمہاری پہلی والی بات مجھے پسند آئ ہے"-
خاور کئی روز سے ایک بات محسوس کر رہا تھا کہ شاہینہ علی سے بہت مانوس ہوتی جا رہی تھی- وہ بیٹھا سنتا رہتا تھا، اکثر وہ اپنی ماں سے اسی کے بارے میں باتیں کرتی رہتی تھی- یہ باتیں علی اور اس سے ہی متعلق ہوتی تھیں- ہم نے یہ کیا- ہم نے یہ کھیل کھیلے وغیرہ وغیرہ-
جب علی دسویں جماعت میں پہنچا تو اس نے پورے بورڈ میں اول پوزیشن لی تھی- اس کی کامیابی پر شاہینہ بہت خوش تھی- خاور نے یہ بات بھی محسوس کی-
خاور ایک جہاندیدہ شخص تھا- اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ ایک روز یہ ہی بات ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آ کھڑی ہو گی- علی اب چودہ پندرہ سال کا ہوگیا تھا- وہ سرخ و سفید رنگ کا ایک نہایت خوش شکل لڑکا تھا- اس نے قد بھی خوب نکالا تھا اور اپنے باپ سے بھی لمبا ہوگیا تھا- پڑھائی لکھائی میں بھی وہ بہت آگے تھا اور ادب آداب میں بھی اپنی عمر کے دوسرے بہت سے بچوں سے اچھا تھا- یہ سب باتیں ایک طرف، مگر تھا تو وہ ایک ڈرائیور کا بیٹا- اس کی اس ایک خامی نے خاور کی نظروں میں اس کی تمام اچھائیوں پر پانی پھیر دیا تھا-
خاور کی حقیقت پسند طبیعت نے اسے فکر میں مبتلا کر دیا تھا- شاہینہ کی علی سے ذہنی وابستگی اسے خطرے کا احساس دلانے لگی تھی- اسے یہ ڈر تھا کہ یہ ذہنی وابستگی وقت کے ساتھ ساتھ محبّت میں نہ بدل جائے- اس کا ارادہ تھا کہ وہ شاہینہ کی شادی اپنے بھائی کے چھوٹے بیٹے سے کرے گا- کسی ممکنہ پریشانیوں سے بچنے کےلیے ایک روز اس نے نہایت بے رخی سے بغیر کوئی وجہ بتائے فراست کو نوکری سے جواب دے دیا- اس کا خیال تھا کہ اس طرح علی بھی یہاں سے چلا جائے گا اور تھوڑے عرصے بعد شاہینہ بھی اسے بھول بھال جائے گی-
نوکری ختم ہوئی تو فراست کو رہائش بھی چھوڑنا پڑی- جس روز وہ سرونٹ کوارٹر چھوڑ رہا تھا تو علی کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی- اسے ایک پل چین نہیں آرہا تھا- اس کے چہرے پر عجیب سی پریشانی طاری تھی- وہ ایک ٹوٹے ہوۓ گملے پر بیٹھا سامان کو سوزوکی میں لدتے ہوۓ دیکھ رہا تھا-
یاسمین اور شاہینہ بھی ایک کھڑکی میں سے یہ منظر دیکھ رہی تھیں- شاہینہ سخت افسسردہ تھی کیونکہ اسے ان لوگوں کے یہاں سے جانے کا بہت افسوس تھا- اس کی نظر علی پر پڑی تو اس کی حالت دیکھ کر اس کا دل بھر آیا-
اس نے یاسمین سے کہا "امی- آپ انہیں کیوں جانے دینے رہی ہیں- علی چلا جائے گا تو اس کی پڑھائی کا کیا ہوگا- انھیں اگر کوئی گھر نہیں ملا تو وہ لوگ کہاں رہیں گے- میں روز شام کو بیڈ منٹن کس کے ساتھ کھیلوں گی- یہ بہت اچھے لوگ ہیں- فراست انکل اور ان کی بیوی ہم لوگوں سے کتنی محبّت کرتے ہیں"-
یاسمین کو اندازہ تھا کہ ایک ہی جگہ رہنے کی وجہ سے شاہینہ ان لوگوں سے بہت مانوس ہوگئی تھی- اس نے کہا "بیٹی- میں انہیں کیسے روک سکتی ہوں- تمہارے پاپا بہتر سمجھتے ہیں- اب انھیں فراست انکل کی ضرورت نہیں تھی- انہوں نے اسے جواب دے دیا"-
یہ سن کر شاہینہ کی آنکھیں بھیگ گئیں- وہ کمرے سے نکل کر علی کے پاس آئی "علی- تم تو مت جاؤ، یہیں رہو"-
علی تھا تو اگرچہ کم عمر مگر اس میں عقل بہت تھی- شاہینہ کی بات سن کر اس کے ہونٹوں پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ آگئی- اس نے شاہینہ سے تو کچھ نہیں کہا مگر دل میں سوچنے لگا "میری ہی وجہ سے تو ابّا کو نوکری سے جواب ملا ہے- میں یہاں کیسے رہ سکتا ہوں- جب ہم دونوں چھوٹے تھے اس وقت بھی تمہارے پاپا کئی مرتبہ مجھ سے کہہ چکے تھے کہ میں تمھارے ساتھ نہ کھیلا کروں- اسی لیے میں تمہارے پاس نہیں آتا تھا- میں تو خود چاہتا ہوں کہ ہر وقت تمہارے ساتھ رہوں مگر میں کر بھی کیا سکتا ہوں"-
یہ سوچتے سوچتے وہ آبدیدہ ہوگیا- کچھ دیر بعد اس نے کہا "شاہینہ- میری ایک بات یاد رکھنا- میرا یہاں سے جانے کو بالکل بھی جی نہیں کررہا ہے- اب ہم پتہ نہیں کہاں جائیں گے- تم وہاں تھوڑا ہی ہوگی- مجھے ذرا بھی اچھا نہیں لگ رہا"-
اس کی باتوں نے شاہینہ کو سخت رنجیدہ کر دیا تھا- وہ روتی ہوئی اندر چلی گئی-
وہ لوگ چلے گئے مگر شاہینہ اس بات کو نہ بھول سکی- وہ چپ چپ سی رہنے لگی تھی- ایک ساتھ رہتے رہتے اسے علی سے بہت انسیت ہوگئی تھی، اس کے چلے جانے سے اسے دلی تکلیف ہوئی تھی- اس صدمے سے وہ بیمار بھی ہوگئی اور کئی دنوں تک اسکول بھی نہ جا سکی-
یاسمین کو علم تھا کہ وہ علی کو یاد کرتی ہے مگر وہ بھی بے بس تھی- اس نے اس سلسلے میں خاور سے بھی بات کی تھی جس پر خاور نے کہا تھا "یاسمین میں نے دنیا دیکھی ہے- وقتی طور پر ہم جذبات میں آ کر ان لوگوں کو پھر اپنے پاس بلا سکتے ہیں- مگر یہ بات تو سوچو بعد میں ہمیں کتنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا- ان لوگوں کو بڑا بھی ہونا ہے- اگر یہ آپس میں شادی پر بضد ہوگئے تو جانتی ہو ہماری کتنی رسوائی ہوگی- لوگ کہیں گے کہ خاور کی بیٹی کی شادی اس کے ڈرائیور کے بیٹے سے ہوئی ہے- میری ساری عزت خاک میں مل جائے گی"-
"میں اس بات کو نہیں مانتی- وہ دونوں بچے ہیں- اگر علی شاہینہ کا بھائی ہوتا تو تب بھی وہ اسی طرح رہتے جیسے اب رہتے ہیں"- شاہینہ نے ان دونوں کی صفائی پیش کی-
"اس بات کو اب یہیں رہنے دو"- خاور نے خشک لہجے میں کہا- "تم ان چھوٹے لوگوں کو نہیں جانتیں- یہ سہل پسند ہوتے ہیں- ان کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح شارٹ کٹ کے ذریعے انہیں بیٹھے بٹھائے دولت مل جائے- علی اپنی عمر سے کہیں زیادہ چالاک لڑکا ہے- اس کے ذہن میں وہ ہی سب کچھ ہے جو میں تمہیں بتا رہا ہوں- میں نے جو کچھ بھی کیا ہے، شاہینہ کی بہتری اور اپنی عزت کے لیے کیا ہے"-
کسی بدمزگی سے بچنے کے لیے یاسمین خاموش ہوگئی-
اس روز کے بعد نہ تو شاہینہ کی علی سے ملاقات ہوئی اور نہ ہی اس نے اسے دیکھا- ایک دفعہ وہ ضد کر کے یاسمین کے ساتھ اس کے اسکول بھی گئی مگر وہاں سے پتہ چلا کہ علی نے وہ اسکول چھوڑ دیا ہے-
خاور کو بھی احساس تھا کہ شاہینہ علی کے جانے سے اداس ہوگئی ہے- اس نے اس کا یہ حل نکالا کہ اپنے بھائی سے کہہ دیا کہ وہ اپنے بیٹے جمیل کو روز شام کو ان کی گھر بھیج دیا کرے- یہ لوگ آپس میں کھیلا کریں گے اور اس طرح ایک دوسرے سے مانوس بھی ہوجائیں گے- جمیل علی کا ہم عمر تھا-
جمیل ان کے گھر آنے لگا مگر وہ شاہینہ کو ذرا پسند نہیں آیا- وہ آتا تو اپنے ساتھ کھانے پینے کی بہت سی چیزیں لے کر آتا مگر اس نے آج تک شاہینہ کو اپنی کوئی چیز نہیں دی تھی- اسے صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا اور ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنا پسند تھا-
ایک روز وہ بھاگا بھاگا شاہینہ کے کمرے میں داخل ہوا- اس کے چہرے پر دبے دبے جوش کے آثار تھے- اس نے کہا "شاہینہ- شاہینہ- میں نے چھپ کر تمہاری امی پاپا کی باتیں سنی ہیں- تمہارے پاپا تمہاری امی سے کہہ رہے تھے کہ ہم جمیل کی اور شاہینہ کی شادی کریں گے"-
شاہینہ کو یہ سن کر بہت غصہ آیا "جمیل تمہیں شرم نہیں آتی- دوسروں کی باتیں چھپ چھپ کر سنتے ہو؟"-
"لو اس میں کیا بری بات ہے"- جمیل نے لاپرواہی سے کہا "میں تو اپنی پھپھو کی باتیں بھی چھپ چھپ کر سنتا ہوں اور ما ما کو بتادیتا ہوں- وہ مجھے خوب شاباش دیتی ہیں اور پھپھو سے خوب لڑتی ہیں"- اس کی بات سن کر شاہینہ خاموشی سے اٹھی اور یاسمین کے پاس جا کر بیٹھ گئی-
وقت سدا ایک جیسا نہیں رہتا- خاور کا بھی وقت بدل گیا- اس کو فیکٹری میں مسلسل گھاٹے کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا- گھاٹا اتنا بڑھا کہ ملازمین کی تنخوائیں دینا مشکل ہوگیا- اس سے ملازمین میں بددلی پھیلی اور کام بہت سست رفتاری سے چلنے لگا- پھر ایک روز فیکٹری میں آگ لگ گئی- آگ کس وجہ سے لگی کچھ پتہ نہیں چلا- ہر چیز خاک کا ڈھیر ہوگئی تھی-
خاور کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے- بینک میں موجود پیسے وہ پہلے ہی نکال کر فیکٹری کے اخراجات پورے کرنے میں لگا چکا تھا - اسے یہ امید تھی کہ شائد حالات بدل جائیں گے مگر حالات بد سے بدتر ہوتے گئے- پھر دھیرے دھیرے یہ گھاٹا اتنا بڑھا کہ فیکٹری کو چلانے کے لیے اس نے اپنی جائداد کے کاغذات بنک میں رکھوا کر قرضہ لے لیا- زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یہ پیسہ بھی ڈوب گیا-
جب مقررہ مدت تک اس نے بینک کی قسطیں ادا نہیں کیں تو اس کی جائداد قرق کر لی گئی- اب اس کے رہنے کا کوئی ٹھکانہ بھی نہ تھا- وہ لوگ کرائے کے ایک چھوٹے سے گھر میں آگئے- یاسمین اور شاہینہ کے اچھے وقتوں میں بنوائے گئے سونے کے زیورات اب کام آ رہے تھے- ان کو بیچ بیچ کر گزارہ ہونے لگا-
ان پریشانیوں میں شاہینہ کی پڑھائی بھی چھوٹ گئی- چند سالوں میں انہوں نے امیری سے غریبی کا جو سفر کیا تھا، اس نے ان سب کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا تھا- دوست اور رشتہ داروں نے منہ موڑ لیا تھا- خاور کا چھوٹا بھائی بھی اس سے ملنے سے کترانے لگا تھا کیوں کہ برے وقتوں میں فیکٹری کو سہارا دینے کے لیے اس نے بھائی سے ہی مدد کی درخواست کی تھی- بھائی کا دل تو پسیج گیا تھا مگر اس کی بیوی نے ہنگامہ کھڑا کردیا- انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی ان کے گھر جانے سے منع کردیا تھا-
ان بدلتے حالات کی وجہ سے وہ تینوں سارا سارا دن خاموش رہتے تھے- گھر کا خرچہ بڑی مشکلوں سے چل رہا تھا- خاور نے بڑی کوشش کی کہ اسے کہیں کوئی نوکری وغیرہ مل جائے مگر اسے کامیابی نہ ہوئی- ان تمام فکروں نے اس کی صحت پر بہت برا اثر ڈالا تھا- وہ شکل سے برسوں کا بیمار نظر آتا تھا، اسے کون نوکری دیتا-
گھر تو کسی نہ کسی طرح چلانا ہی تھا- ایسے میں شاہینہ نے ہاتھ پاؤں مارے- وہ ایم اے انگلش کر رہی تھی- اس کا تعلیمی ریکارڈ بہت اچھا تھا- ایک مشہور پرائیویٹ اسکول میں اسے بچوں کو پڑھانے کی نوکری مل گئی- اس اسکول میں تنخواہیں بہت اچھی تھیں، عام اسکولوں کی طرح وہ اپنی ٹیچروں کو چار چار ہزار روپے ماہانہ نہیں دیتے تھے-
شاہینہ ایک سمجھدار لڑکی تھی- اس نے جس ماحول میں پرورش پائی تھی اس میں روپے پیسے کی کمی نہیں تھی- اب حالات خراب ہوۓ تو انھیں بے پناہ تکلیفیں اٹھانا پڑ رہی تھیں مگر اس کے منہ سے کبھی بھی ایک لفظ شکایت کا نہیں نکلتا تھا-
خاور اس صورت حال سے سخت دل گرفتہ تھا- اسے اس بات کا قلق ہوتا تھا کہ اس نے اپنے کاروبار پر اس طرح توجہ نہیں دی جس طرح دینی چاہیے تھی- اس کے دوستوں نے بھی اس سے منہ موڑ لیا تھا اور اس سے ملنا جلنا بند کر دیا تھا- وہ بیمار بھی رہنے لگا تھا- ذہنی تفکرّات بڑھ جائیں تو ان کا اثر صحت پر ہی پڑتا ہے- وہ شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض بن گیا تھا- چند قدم بھی چلتا تو اس کا سانس پھولنے لگتا تھا- یاسمین ہر وقت اس کی خدمت میں لگی رہتی تھی-
ان تمام پریشانیوں میں گھری یاسمین کو ایک فکر اور لگی ہوئی تھی- وہ فکر تھی شاہینہ کی شادی کی- خاور کے رشتے داروں نے تو اس سے قطع تعلق کرلیا تھا- خاور اس کی شادی جمیل سے کرنا چاہتا تھا مگر خراب حالت دیکھ کر ان لوگوں نے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی، شادی کیسے کرتے- اس نئی جگہ پر ان کے جاننے والے بھی نہیں تھے- وہ پریشان تھی کہ یاسمین کا رشتہ آئے گا بھی تو کیسے آئے گا اور اگر آ بھی گیا تو شادی کے اخراجات کا کیا ہوگا؟
ایک روز جب وہ خاور کو دو ا پلا رہی تھی تو اس نے کہا "جانتی ہو یاسمین- ہم پر یہ برے حالات کیوں آئے ہیں- میرے غرور اور بڑے بول نے ہمیں اس حال کو پہنچایا ہے- میں نے علی کے متعلق جو باتیں کی تھیں یہ اس کی سزا ہے- وہ لوگ کس قدر اچھے تھے، اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ان لوگوں کو یوں بے آسرا کرنا کتنے بڑے گناہ کی بات ہے- میرے اس فعل نے ان کی زندگی میں کتنی مشکلات پیدا کردی تھیں- میں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ علی کی تعلیم کا کیا ہوگا- میری خود غرضی نے ہم سب کو یہ دن دکھاے ہیں- میرے اپنوں نے میری حالت دیکھ کر میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے"- یہ کہتے کہتے اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے- "اپنی زیادتیوں کا ہمیں اس وقت احساس ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر جاتا ہے- انسان کا اچھا وقت ہو تو اسے دوسرے لوگ حقیر نظر آتے ہیں- اچھے وقت میں اگر عقل سلب ہوجائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ برا وقت شروع ہونے والا ہے"-
یاسمین کے ذہن میں اس وقت کی باتیں گھوم گئیں- علی ایک بہت ہی اچھا لڑکا تھا- اس میں صرف ایک ہی خامی تھی کہ وہ ایک غریب ڈرائیور کا بیٹا تھا- اس کی اسی خامی کی بنا پر بغیر کسی وجہ کے خاور نے اس کے باپ کو نوکری سے بے دخل کردیا تھا اور ان کے سر چھپانے کا آسرا بھی چھین لیا تھا-
یاسمین کو یاد تھا کہ خاور کے اس اچانک فیصلے پر علی کا باپ فراست ہکا بکا رہ گیا تھا- اس ذرا سے فیصلے نے اس کے لیے لاتعداد مسلے کھڑے کر دیے تھے- وہ علی کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتا تھا، اس کی تعلیم کے سلسلے میں یاسمین اس کی خاموشی سے مالی مدد بھی کرتی رہتی تھی-علی نے اسکول بھی چھوڑ دیا تھا اور شائد وہ لوگ اپنے گاؤں چلے گئے تھے- "نہ جانے اب ان کا کیا حال ہو؟"- یاسمین نے بڑے دکھ سے سوچا -
ایک روز شاہینہ کے اسکول کی چند ٹیچرز ان کے گھر آئیں- ان میں سے ایک نے یاسمین سے کہا "شاہینہ بہت اچھی لڑکی ہے- میں چاہتی ہوں کہ اس کی شادی میرے بھائی سے ہوجائے- یہاں آنے سے پہلے میں نے ایک بار شاہینہ سے بھی بات کی تھی مگر اس نے گول مول جواب دے دیا تھا کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی"-
اس پیشکش نے یاسمین کو بہت دنوں بعد خوشی کا احساس دلایا تھا- وہ خوش ہوگئی اور بولی "آپ کا شکریہ- میں اس سلسلے میں شاہینہ سے بات کر کے آپ کو بتاؤں گی"-
ان لوگوں کے جانے کے بعد اس نے یہ خوش خبری خاور کو بھی سنائی- وہ بھی اس خبر کو سن کر بہت خوش ہوا اور کہا "وہ اپنے گھر کی ہو جائے- یہ بڑے اطمینان کی بات ہوگی"-
شاہینہ سے بات ہوئی تو وہ بولی "امی- فرض کریں میری شادی ہو بھی جاتی ہے تو پھر آپ لوگوں کی دیکھ بھال کون کرے گا"؟
"یہ تمہارے سوچنے کی باتیں نہیں ہیں- ہم اپنا وقت گزار چکے ہیں اب تو ہمیں بس تمہاری ہی فکر کھائے جاتی ہے- تمہارے سامنے ابھی ایک لمبی زندگی پڑی ہے- تمہارے باپ کی خدمت میں کروں گی- تم کیوں پریشان ہوتی ہو"-
"مگر میں تو شادی کرنا ہی نہیں چاہتی "- شاہینہ بولی-
"کیوں؟ اس کی وجہ؟"- یاسمین نے تھوڑے تیز لہجے میں پوچھا-
شاہینہ نے ایک گہری نظر یاسمین کے چہرے پر ڈالی اور بغیر کچھ کہے وہاں سے اٹھ گئی-
مگر شام تک یاسمین اور خاور کی اس خوشی کو بھی کسی کی نظر لگ گئی- جس ٹیچر نے شاہینہ کی شادی اپنی بھائی سے کرنے کی بات کی تھی، اس کا فون آیا تھا- اس نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اس کا بھائی کہہ رہا ہے کہ لڑکی کے گھر کے مسائل اتنے ہیں کہ وہ شادی کے بعد اپنے گھر پر توجہ نہیں دے سکے گی اس لیے وہ یہاں شادی نہیں کرسکتا-
اس بے عزتی نے شاہینہ کو سخت شرمندگی سے دو چار کر دیا تھا- اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ یاسمین سے قدرے تلخ لہجے میں کہا "امی- جب میں آپ سے کہہ چکی ہوں کہ میں شادی نہیں کروں گی تو پھر آپ کیوں میری بے عزتی کروانے پر تلی ہوئی ہیں"- اس کی بات سن کر یاسمین دل مسوس کر رہ گئی-
ایک روز شاہینہ اسکول سے آئ تو دروازے پر لگی گھنٹی بجی- اس نے جا کر دیکھا، باہر ڈاکیہ تھا- اس نے ایک لفافہ اس کو تھما دیا- شاہینہ حیران تھی کہ ان کا ایسا کون ہے جس کو ان کےاس نئے گھر کا بھی پتہ ہے- اس نے بھیجنے والے کا ایڈرس دیکھا مگر وہ لفافے پر موجود نہیں تھا- اس نے لفافہ چاک کر کے دیکھا اور پھر اس کا دل زور سے دھڑکنے لگا- لفافے میں بہت سارے چاکلیٹ، ٹافی، ببل گم وغیرہ کے وہ ریپر تھے جو وہ پھینک دیا کرتی تھی اور جنہیں علی زمین پر سے اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا کرتا تھا-
اس کے جسم میں سنسناہٹ سی دوڑ گئی- علی نے یہ چیزیں بھیج کر اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا تھا- اس نے ایک مرتبہ پھر لفافے کو اچھی طرح دیکھا کہ شائد اس میں کوئی خط یا فون نمبر وغیرہ ہو، مگر اس میں ایسی کوئی چیز نہ تھی-
شاہینہ کو اس رات ٹھیک سے نیند بھی نہ آسکی تھی- وہ بہت حیران تھی کہ علی کی اس حرکت کا مطلب کیا تھا- اس بات سے بہرحال وہ بہت خوش تھی کہ علی نے اسے بھلایا نہیں تھا حالانکہ ان لوگوں کو ان کے گھر سے گئے ہوۓ آٹھ دس سال کا عرصہ ہوگیا تھا- اس دوران علی نے کبھی بھی اس سے ملنے کی کوشش نہیں کی تھی- شاہینہ کو تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ لوگ کہاں چلے گئے تھے-
شاہینہ کو علی اور اس کی باتیں اچھی طرح یاد تھیں مگر ان لوگوں کے حالات میں اس قدر تیزی سے تبدیلی آئ تھی کہ اس کا ذہن کسی اور طرف جاتا ہی نہیں تھا- وہ لڑکی تھی، اپنے دل کی بات کس سے کرتی- بس ایک اس کی ماں یاسمین ہی تھی جو اس کی کیفیت کو اچھی طرح سمجھتی تھی- اسے پتہ تھا کہ یاسمین نے علی کو ابھی تک فراموش نہیں کیا ہے-
خاور کا یہ فیصلہ کہ علی اور اس کے ماں باپ کو گھر سے نکالدیا جائے خود یاسمین کو بھی پسند نہیں آیا تھا- وہ سوچتی تھی کہ وہ خود ایک غریب اور کمتر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی مگر اس کی شکل و صورت دیکھ کر خاور نے اس سے شادی کرلی تھی- لیکن جب اسے یہ محسوس ہوا کہ اس کی بیٹی ایک غریب لڑکے کے قریب نہ ہوجائے تو اس نے نہایت بے دردی سے ایک انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کیا-
یہ اس سے اگلے روز کا ذکر ہے- یاسمین خاور کو لے کر معمول کے چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئی ہوئی تھی- شاہینہ جب اسکول سے واپس آئ تو گھر میں تالا لگا ہوا تھا- وہ تالا کھول کر اندر گئی- اسی وقت یاسمین کا فون بھی آگیا- اس نے بتایا کہ لمبی لائن ہے، انھیں آتے ہوۓ کچھ دیر ہوجائے گی اس لیے وہ کھانا کھا کر آرام کرے-
اسے بھوک نہیں تھی- اس نے چائے بنانے کے لیے چولہے پر پانی رکھا اور سوچا کہ چائے پی کر وہ بھی یاسمین اور خاور کے پاس جائے گی- ابھی چائے کا پانی گرم بھی نہیں ہوا تھا کہ باہر کسی گاڑی کے رکنے کی آواز آئ اور تھوڑی ہی دیر بعد گھنٹی بجی-
اس نے دروازے پر جا کر دیکھا تو دنگ رہ گئی- باہر علی اپنی ماں اور باپ کے ساتھ کھڑا تھا- وہ اس کی ماں کے گلے سے لگ گئی- فراست نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا- علی اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا- وہ انھیں اندر لے کر آئ-
"انکل فراست- دیکھیے سب کچھ بدل گیا ہے"- اس نے نہایت افسردگی سے کہا-
"کچھ نہیں بیٹی- سب ٹھیک ہو جائے گا- یہ چیزیں تو زندگی کا حصہ ہوتی ہیں- ان سے گھبرانا نہیں چاہیے"- فراست نے بڑی شفقت سے کہا- "اتنے دنوں بعد تمہیں دیکھا ہے- بہت خوشی ہو رہی ہے"-
علی نے کہا- "بڑی دقتوں کے بعد تمہارا ایڈریس ملا تھا- اس کے لیے بہت بھاگا دوڑی کرنا پڑی تھی- تمہارے محلے میں ایک مالی گھر گھر کام کرتا ہے- اس نے بتایا تھا کہ تم لوگ یہاں رہتے ہو"-
اس کی بات سن کر شاہینہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور اس کی ماں سے بولی "آپ کیسی ہیں؟"-
"خدا کا شکر ہے بیٹی- ہم تو یہاں آتے ہوۓ بہت جھجک محسوس کر رہے تھے مگر علی بہت ضد کر کے لایا ہے"- علی کی ماں نے کہا-
"جھجک محسوس کرنے کی کیا بات ہے- آپ آجاتیں- آپ کا اپنا ہی گھر ہے"- شاہینہ بولی- یہ کہتے کہتے اس کی آوازہ رندھ سی گئی تھی- اسے یاد آگیا تھا کہ اس کے باپ خاور نے کس طرح انھیں گھر سے نکال دیا تھا-
"یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی"- علی نے موضوع بدلنے کی خاطر کہا- "یہ بتاؤ آج کل کیا کر رہی ہو؟"-
"ایک اسکول میں پڑھا رہی ہوں- پاپا کے حالات ایک دم سے ہی بگڑ گئے تھے- ہم لوگ بہت مشکلوں میں آگئے تھے- ان فکروں کی وجہ سے ان کی صحت بھی ٹھیک نہیں رہتی- اس وقت بھی وہ اپنے چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئے ہوۓ ہیں"- شاہینہ نے اداسی سے کہا- پھر وہ بولی "چائے کا پانی گرم ہوگیا ہوگا- میں ابھی آئ"-
وہ اٹھی تو علی بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دیا- اس کی ماں اور باپ ایک دوسرے کو دیکھ کر دھیرے سے مسکرا دئیے-
باورچی خانے میں پہنچ کر علی نے کہا "شاہینہ- سالوں پہلے کہی ہوئی بات میں ایک دفعہ پھر کہنا چاہتا ہوں- تم مجھے اچھی لگتی ہو"-
شاہینہ نے یہ سن کر آنکھیں جھکا لیں اور بولی "اب وقت بدل گیا ہے- تمہاری یہ بات سن کر اس وقت تو مجھے اچھا لگا تھا مگر اب نہیں"-
"شاہینہ جانتی ہو تمہارا ہم پلہ بننے کے لیے مجھے کیا کچھ کرنا پڑا تھا- میری بس یہ ہی خواہش تھی کہ میرے پاس جائز طریقے سے اتنا روپیہ آجائے کہ میں تمہارے قابل ہو جاؤں- اس کے لیے مجھے بہت محنت کرنا پڑی- اس سلسلے میں میرے ایک چچا نے بہت مدد کی تھی- انہوں نے مجھے اپنے پاس دبئی بلا لیا تھا جہاں ان کا کنسٹرکشن کا کام ہے- میں نے کافی عرصہ ان کے ساتھ کام کیا اور پھر واپس آ کر یہاں ایک کنسٹرکشن کمپنی کھول لی- اس کام میں مجھے بہت کامیابی ملی ہے اور خدا کا شکر ہے کہ اب میں اس قابل ہوں کہ تمہارے لیے رشتہ بھیج سکوں"-
"لیکن علی اب میں تمہارے ہم پلہ نہیں ہوں"-
"یہ کوئی بڑی بات نہیں- یہ تو تم نے کہانیوں میں بھی پڑھا ہوگا کا اکثر شہزادوں کی شادیاں غریب غریب لڑکیوں سے ہوتی تھیں- میں نے تو بہت پہلے ہی سوچ لیا تھا کہ شادی کروں گا تو صرف تم سے- محبّت صرف قصے کہانیوں میں ہی نہیں ملتی- حقیقی زندگی میں بھی اس کا وجود ہے- اپنے ایمان سے بتاؤ میں نے یہ بات سچ ثابت کی ہے یا نہیں؟"-
شاہینہ کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا- وہ چائے بنانے میں لگ گئی- علی وہاں رکا نہیں، واپس جا کر ماں کے پاس بیٹھ گیا-
تھوڑی دیر بعد خاور اور یاسمین بھی آگئے- انھیں دیکھ کر فراست تھوڑا سا پریشان ہوگیا تھا- اس نے اٹھ کر بڑے ادب سے خاور کو سلام کیا اور اس کی خیر خیریت پوچھی- خاور اسے دیکھ کر شرمندہ ہوگیا تھا اور اس سے نظریں نہیں ملا رہا تھا- یاسمین بہرحال ان لوگوں سے بڑے تپاک سے ملی تھی-
چائے پی کر علی کی ماں یاسمین کو الگ لے گئی اور اس سے بولی "مالکن- چھوٹا منہ بڑی بات- ہم بڑی امیدوں سے آپ کے پاس اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر آئے ہیں- ہماری تو ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی مگر علی کی ضد سے مجبور ہوگئے ہیں"-
یاسمین کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا- یہ سوچ کر اس کی آنکھیں بھر آئیں کہ برے وقت میں اپنوں نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا، مگر اس کے باوجود یہ لوگ ان سے دور نہیں ہوۓ تھے- خاور کا یہ خیال غلط ثابت ہوگیا تھا کہ علی اس کی دولت کی وجہ سے شاہینہ سے شادی کرے گا اور یہ سوچ کر ایک طرح سے اس نے اسے بے دردی اور بے عزتی سے ٹھکرا دیا تھا- مگر اب وہ ہی ٹھکرایا ہوا شخص ایک کامیاب انسان بن گیا تھا- اس نے علی کی ماں کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور بولی "میں اس سلسلے میں خاور اور شاہینہ سے بات کرکے آپ کو بتاؤں گی- میں تو راضی ہوں"-
کچھ دنوں بعد علی اور شاہینہ کی شادی ہوگئی- ایک روز وہ رات کو چہل قدمی کے لیے باہر نکلے تو شاہینہ نے کہا "علی- میں اپنی قسمت پر نازاں ہوں- میں دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی ہوں- میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بچپن کی باتوں کو تم اتنی اہمیت دو گے- مجھے یاد رکھو گے اور میری خاطر اتنا کچھ کرو گے"-
"میری کامیابی میں تمہارا بہت بڑا ہاتھ ہے- مجھے اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ اگر تمہیں پانا ہے تو مجھے کچھ بننا پڑے گا- میں خدا کا بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ میری شادی تم سے ہوگئی ہے- انسان اگر کسی مقصد کو اپنے سامنے رکھے اور مسلسل کوشش کرتا رہے تو کامیابی ضرور ملتی ہے- میرا مقصد تمہیں پانا تھا اور اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے میں بھی کوششوں میں لگا رہا- میں بہت خوش ہوں کہ میں تمہیں پانے میں کامیاب ہوگیا ہوں"-
"مجھے یاد ہے کہ تمہیں کس طرح ہمارے گھر سے نکلنا پڑا تھا- تم اگر چاہتے تو اپنی اس بے عزتی کے بعد میرا خیال بھی دل میں نہ لاتے- علی تم بہت عظیم ہو- تم نے ایک مرتبہ بھی میرے پاپا کی زیادتی کا گلہ نہیں کیا- انھیں اور امی کو تم اپنے ساتھ ہی رکھنے پر رضامند ہوگئے ہو- تم کتنے اچھے ہو"- یہ کہتے ہوۓ شاہینہ نے مسکراتے ہوۓ محبّت اور نرمی سے اس کا ہاتھ تھام لیا-

(ختم شد)

 

Mukhtar Ahmed
About the Author: Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mukhtar Ahmed: 70 Articles with 132673 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.