اسیر جان

کچھ احساسات کو الفاظ کا جامہ پہنانا ناممکن ہوتا ہے۔ صحرا اپنے وجود پر گِرنے والے پہلے قطرے کے احساس کو کیسے بیان کر سکتا ہے۔

کنول کمرے میں بیٹھی اپنی دوست ستارہ سے فون پر بات کر رہی تھی۔ ستارہ نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ کیا بنا تمہارے ان سرکار کا جو تمہاری امید لے کر آئے تھے۔ کنول نے ہنستے ہوئے کہا،مجھے یقین ہے کہ کچھ نہیں بنا ہو گا۔ اگر ان کا دماغ خراب ہواتب ہی ہاں کریں گے۔ ستارہ نے تجسس سے کہا ،تم کرنا کیا چاہتی ہو۔ کنول نے بیزاری سے کہا ۔ مجھے پتہ چلے گا تو تمہیں بھی بتاؤں گی۔ موضوع تبدیل کرنے کے لیے کنول نے پوچھا تم کیا کر رہی تھی۔ ستارہ نے فوراً کہا ۔میں کمپیوٹر کورس کر رہی ہوں ۔ اسی کی پریکٹس کر رہی تھی۔
کنول نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ یار میری امی کہتی ہیں ،لڑکیوں کو اس سب کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ستارہ نے تمسخر خیز لہجے میں کہا ، تمہاری امی بہت بیک ورڈ ہیں ۔ آج کے دور میں ہر لڑکی کو اس قابل ہونا چاہیے کہ اپنا آپ سنبھال سکے ۔ خدا نخواستہ اگر کام کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو کیا ہو گاتمہارے تو ماموں اچھے ہیں ۔ سب اچھے نہیں ہوتے۔آج کل کون بی ۔اے پاس کو پوچھتا ہے-

کنول کو اس کی باتیں سن کر دل ہی دل میں افسوس محسوس ہوا۔کنول نے مایوسی سے کہا !کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو لیکن صرف میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ میرا تو بڑا دل تھا کہ آگے کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لے لوں لیکن۔

ستارہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا ، ممکن ہے ۔ تمہارے میاں جی تمہیں اجازت دے دیں پڑھنے کی۔تم کر کیا رہی تھی،ستارہ نے پوچھا تو کنول نے کچھ دیر مولانا روم کی تصویر والی کتاب کو دیکھا اور پھر بولی۔ میں تو مولانا روم کے عشق سے متعلق پڑھ رہی تھی ، شمس تبریز سے عشق تھا انہیں۔ستارہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ ارے مولانا روم کو کسی مرد سے محبت تھی۔ حیرت ہے۔ مولانا روم کا نام تو میں نے بھی سنا ہے مگر یہ پہلی بار سنا ہے انہیں کسی مرد سے عشق تھا۔

اس کے ہنسنے پر بُرا مانتے ہوئے کنول نے ان سے متعلق صفائی دیتے ہوئے کہا۔ ان کا عشق ایک مرد قلندر سے اللہ ہی کی وجہ سے پروان چڑھا ۔ مولانا روم جیسا عالمِ صدیوں میں پیدا ہوتا ہے ۔شمس تبریز جیسا صوفی بھی۔ ستارہ نے اپنی ہنسی کو روکتے ہوئے کہا۔ اچھا اچھا۔ چلو مجھے امی کے ساتھ جانا ہے ۔ وہ بلا رہی ہیں ۔ مجھے بتانا پھر ،تمہارا رشتہ اگر پکا ہوا تو۔ سہیلی کی مہندی میں ہی لے کر آوں گی ۔تمہارے لیے سمجھی۔ کنول نے دانتوں کو پیستے ہوئے کہا۔ دُعا کرو یہ مہندی اتنی جلدی نہ لگے ۔ کچھ دن اور آزادی کے جی لیے جائیں تو کیا بُرا ہے۔ اچھا تم جاو امی کے ساتھ۔ پھر ملتے ہیں کبھی۔ ہاں ہاں اللہ حافظ ستارہ نے فون رکھا۔ کنول اپنی زندگی سے متعلق سوچنے لگی ۔ جس کی لگامیں اس کے ہاتھ میں نہیں تھیں ۔ اس نے کاپی پنسل اُٹھا ئی ،اپنا پسندیدہ کام کرنے لگی ۔
اے زندگی تو رُک ذرا
میں دیکھ پاوں تیری چال کو
نہ میرے سنگ کوئی چال چل
دیکھ کبھی میرے سوال کو
میں جو شکستہ دل تیرے ساتھ ہوں
کچھ رحم کھا تیرے ہاتھ ہوں
میں بھول چکی لازوال ہوں میں
بھول نہ تو! میرے کمال کو
یہ نہ ہو پلٹ جائے حال سب
ہاتھ میں ہیں میرے ،میرے خیال سب
یہ نہ ہو بدل دوں تیری صورت تمام
دیکھاوں پھر تجھے اپنے جمال کو
تو کہتی پھرے مجھے، ہوئی اسیر میں
چھپاتی پھرے اپنے ملال کو

وہ غزلیں لکھنے میں مصروف تھی۔نہیں یار، مزا نہیں آیا ،یہ کہہ کر لکھی ہوئی غزل (زندگی ) کے ورق کو بے دردی سے پھاڑا ،اور ایک گولا سا بنا کر تکیہ کے ساتھ رکھ دیا۔ پھر پاس پڑی ، مولانا روم کی تصویر ،کتاب کی جلد پر دیکھ کر کچھ دیر ہی میں نئے اشعار لکھنے کی سوجھی۔
نہ اپنی ذات میں جھانک سکی نہ تیری کچھ خبر ملی
دل کو کر دےآئینہ ،جستجو کو میری کوئی گھر ملے
ابھی تشنہ دل ابھی تشنہ جان نامکمل ہے جہاں
ابھی میں اسیر جاں ہوں ، مجھے اُڑنے کو پر ملے
ٹوٹے ہوئے پروں کے سنگ پھڑپھڑانے کا حوصلہ
کنول ؔ کے لیے نہیں دشوار کچھ اگر تیری نظر ملے

اس کی انکھوں میں نمی کیوں اُتر آئی ،وہ خود نہیں جانتی تھی۔ اس نے گالوں پر گِرنے والے آنسووں کو صاف کیا۔وہ اپنی ذات کے اندر عجب تشنگی کو محسوس کرتی تھی۔ کچھ احساسات کو الفاظ کا جامہ پہنانا ناممکن ہوتا ہے۔ صحرا اپنے وجود پر گِرنے والے پہلے قطرے کے احساس کو کیسے بیان کر سکتا ہے۔انسان جب اپنے وجود کی اصل گہرائی کو چھو لیتا ہو گاتو اسے کیسا محسوس ہوتا ہو گا۔وہ سوچوں میں گم اپنے پن کو دانتوں میں دبائے بیٹھی تھی۔

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281047 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More