بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
درس نمبر ...(1)
سورہ انفال
ترتیب کتابت: 8
پارہ : 9 و 10
نزول
ترتیب نزول: 88
مکی/ مدنی : مدنی
اعداد و شمار
آیات: 75
الفاظ: 1244
حروف: 5388
سورہ انفال [سُوْرَۃُ الْأَنْفالِ] کو انفال کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اس
میں لفظ انفال بروئے کار لایا گیا ہے اور اس میں انفال سے متعلق احکام بیان
ہوئے ہیں۔ حجم و کمیت کے لحاظ سے یہ سورت قرآن کی متوسط سورتوں میں ابتدائی
سورتوں میں سے ہے جو طویل سورتوں کے مرادف ہے اور تقریبا نصف پارے پر مشتمل
ہے۔
سورہ انفال
لفظ "انفال" بمعنی جنگی غنائم اور عمومی ثروتیں؛ اسی سورت میں مذکور ہے اور
کسی بھی دوسری سورت میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے
کہ اس میں لفظ انفال استعمال ہوا ہے اور انفال کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ اس
سورت کا دوسرا نام "بدر" ہے اور اس سورت میں غزوہ بدر کی طرف مفصل اشارہ
ہوا ہے۔ بعض مفسرین کے مطابق یہ سورت جنگ بدر کے دوران ہی اس وقت نازل ہوئی
جب جنگی غنائم کے سلسلے میں مسلمانوں کے درمیان اختلافات ابھرے تھے۔ یہ
سورت مدنی ہے۔ کوفہ کے قراء کے مطابق اس سورت کی آیات کی تعداد 75، بصری
قراء کے مطابق 76 اور شامی قراء کے مطابق 77 ہے البتہ پہلا قول زیادہ مشہور
اور صحیح ہے۔ اس سورت کے الفاظ کی تعداد 1244 اور اس کے حروف کی تعداد 5388
ہے۔ مصحف کی کتابت یا جمع قرآن کی ترتیب کے لحاظ سے آٹھویں اور ترتیب نزول
کے لحاظ سے اٹھاسی ویں سورت ہے۔ حجم اور کمیت کے لحاظ سے قرآن کی پہلی اوسط
سورتوں میں سے ہے۔ یہ سورت طول و کمیت کے لحاظ طویل سورتوں کے بعد دوسرے
درجے کی سورتوں میں سے ہے۔
بعض علماء نے اس سورت کو سورہ توبہ کے ہمراہ طویل سورتوں کے زمرے میں
گردانا ہے۔
سورہ انفال ذیل کے فقہی احکام پر مشتمل ہے:
انفال اور عمومی وسائل اور ثروتوں اور ان کے مصرف و استعمال سے متعلق
احکام؛
خمس کے احکام اور اس کا استعمال؛
جہاد کے آداب، مجاہدین کے فرائض، جنگی قیدیوں کے ساتھ برتاؤ،
عہد و پیمان منعقد کرنے اور اس کی پابندی،
جنگی تیاریوں کی اہمیت،
مؤمن کے علائم اور نشانیاں اور اس کی روحانی اور اخلاقی صفات و خصوصیات اور
ان ہی موضوعات میں دوسرے مسائل نیز دیگر مختلف مسائل و موضوعات بھی ہیں.
تفسیرنور
سورہ انفال
آیت نمبر ۱ تا ۱۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آیت۱
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَاْلِطقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ
وَالرَّسُوْلِج فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ وَ
اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ ٓاِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o
ترجمہ۔ خداوند رحمان و رحیم کے نام کے ساتھ۔ (اے پیغمبر!) یہ لوگ آپ سے،
جنگی غنیمتوں اور غیرمملوکہ املاک کے بارے میں سوال کرتے ہیں (کہ کس کی
ملکیت ہیں؟) تو کہہ دیجئے کہ انفال خدا اور رسول کی ملکیت ہیں۔ پس تم خدا
سے ڈرو اور اپنے اندرونی حالات کی اصلاح کرو اور خدا اور اس کے رسول کی
اطاعت کرو اگر تم ایمان رکھتے ہو!
چند نکات:
قرآن مجید میں تقریباً ۱۳۰ مرتبہ لفظ "سوال" یا اس کے مشتقات استعمال ہوئے
ہیں، اور ۱۵ مرتبہ "یسئلونک" کا جملہ استعمال ہوا ہے۔
"انفال" جمع ہے "نفل" کی جس کے معنی ہیں "عطیہ" اور "اضافہ"۔ اور "نوفل" اس
شخص کو کہا جاتا ہے جو صاحب عطا و بخشش ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو
فرزند کا عطیہ "نافلہ" کہلایا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ووھبنالہ اسحق و
یعقوب نافلة ۔ (انبیاء/ ۷۲) فقہی اصطلاح میں مندرجہ ذیل اشیاء کو "انفال
کہا جاتا ہے۔ قدرتی وسائل اور عمومی دولت، جنگی غنیمتیں، متروکہ املاک،
لاوارث اموال، جنگلات، پہاڑی درے، بیشے، بنجر زمینیں ہر قسم کے معدنی ذرائع
وغیرہ۔
تاریخی کتابوں میں ہے کہ جنگ بدر میں جو غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگی اس کے
بارے میں مختلف سوالات ذہنوں میں گردش کرنے لگے کہ: مال غنیمت کا کیا کیا
جائے؟ کسے دیا جائے کسے نہ دیا جائے؟ کن لوگوں کا حق اولیٰ بنتا ہے؟ چنانچہ
اس موقع پر مال غنیمت کی تقسیم کا کام سرکار رسالت نے خود اپنے ذمہ لے لیا
اور ہر ایک کا حصہ منصفانہ طور پر اسے دیا تاکہ زمانہ جاہلیت کے فرضی
امتیازی سلوک کو ختم کر دیا جائے اور مستضعفین کی حمایت اور پشت پناہی کی
جائے۔ ہرچند کہ کئی لوگوں نے اس مساویانہ سلوک کو سخت ناپسند بھی کیا۔
(ملاحظہ ہو کتاب "فروغ ابدیت" جلد ۱ ص ۴۲۳)
چونکہ تقریباً تمام سورت جنگ بدر کے بارے میں ہے لہٰذا یہ آیت بھی زیادہ تر
جنگی غنیمت پر نظر رکھے ہوئے ہے لیکن اس کے ساتھ مخصوص نہیں ہے (ازتفسیر
المیزان)
پیام:
۱۔ عمومی اموال: لوگوں کی مقدس ترین اور محبوب ترین ذات کے ہاتھوں میں ہونے
چاہئیں (للہ والرسولہ)
۲۔ انفال، اسلامی نظام کی پشت پناہ ہے اور اسلامی حکومت کو اقتصادی پشت
پناہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
۳۔ مسائل چاہے عمومی ہوں یا اقتصادی ان کے بیان کرنے کا اصل مرجع الٰہی
رہبر ہی ہے۔ (یسئلونک۔ قل) 1
۴۔ اسلام کے پاس تو جنگلوں اور بیابانوں تک کے لئے قانون بھی ہیں۔
۵۔ حضرت رسول خدا کے تمام مصرف، اہداف الٰہی کی روشنی میں ہوتے ہیں (للہ و
الرسول) 2
۶۔ عمومی اموال کی حفاظت کے لئے تقوی اور پاکیزگی قلب کی ضرورت ہوتی ہے
(فاتقوا اللہ)
۷۔ اتحاد و اتفاق کی حفاظت اور لوگوں کے اندر اصلاح قائم رکھنا ہر ایک پر
واجب ہے۔ (اصلحوا) 3
۸۔ ایمان کا تعلق صرف دل ہی کے ساتھ نہیں ہوتا، ظاہری جلوے اور عملی اطاعت
بھی ضروری ہوتی ہے (اطیعوا، ان کنتم موٴمنین)
۹۔ مسلمان کو چاہئے کہ اخلاق، معاشرے اور سیاست میں پیش پیش ہو تاکہ کہیں
بھی ناکام نہ ہو (اتقوااللہ، اصلحوا۔ ذات بینکم، اطیعوا)
۱۰۔ صرف محاذ پر چلے جانا ہی ایمان کی نشانی نہیں ہے، جنگی غنیمت سے بے
نیازی، برادری اور بھائی چارے کی حفاظت اور رہبر اور قائد کے حکم کی
بجاآوری بھی لازمی شرط ہے۔ (ان کنتم موٴمنین)
۱۱۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ محاذ پر جانے اور جان کی بازی میں تو کامیاب ہو
جائیں، لیکن مال کی آزمائش، غنیمت اور انفال کی تقسیم کے موقع پر مار کھا
جائیں اور ناکام ہو جائیں۔
۱۲۔ محاذ جنگ میں اصل اور بنیاد ہے "حق کی باطل پر فتح" غنیمت کا تو مسئلہ
ہی فرعی اور اضافی ہے۔ (انفال عفی "اضافہ" کے پیش نظر)
۱۳۔ جو معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھاتا ہے اسے خود بذات متقی ہونا چاہئے۔
(اتقوا اللہ واصلحوا)
آیت ۲، ۳
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ
قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہ زَادَ تْہُمْ اِیْمَانًا
وَّ عَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ oصلے الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ
الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ o ط
َ ترجمہ۔ صحیح بات یہ ہے کہ مومن تو درحقیقت وہی لوگ ہیں کہ جب اللہ کا نام
لیا جاتا ہے تو ان کے دل (اس کی عظمت سے) لرز جاتے ہیں، اور جب ان کے سامنے
خدا کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ کر دیتی ہیں،
اور وہ صرف اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں۔
وہی لوگ تو ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ کہ ہم نے انہیں عطا
کیا ہے اس میں سے (معاشرہ کے محروم لوگوں پر) خرچ کرتے ہیں،
ایک نکتہ:
جونہی عاشق کے سامنے معشوق کا نام لیا جاتا ہے تو اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے
اور اس کے غیظ و غضب کا تصور دل کو لرزا دیتا ہے اور اس کے لطف و کرم کا
احساس دل کو سکون عطا کرتا ہے، یا جس طرح بچہ اپنے ماں باپ سے ڈرتا بھی ہے
اور ان سے اپنا قلبی سکون بھی حاصل کرتا ہے۔
پیام:
۱۔ ایمان، عشق اور تقویٰ کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے (المومنون۔ وجلت)
۲۔ ڈرنے والا دل ہی کمالات کی بنیاد ہے، سب سے پہلے دل میں خوف پیدا ہوتا
ہے (وجلت) پھر ایمان میں اضافہ، نماز کے قیام اور خدا پر توکل کی باری آتی
ہے (ایمانا، یتوکلون، یقیمون)
۳۔ ایمان کے مختلف درجات ہیں اور اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے (زادتھم)
۴۔ قرآن پاک کی ہر ایک آیت، حجت، دلیل اور نور ہے جو ایمان کے اضافے کا
موجب بن سکتی ہے (زادتھم)
۵۔ جس خوف کا تعلق جہالت سے ہو وہ برا ہوتا ہے، اور جس کا تعلق معرفت سے ہو
قابل تحسین ہے (الموٴمنون۔ وجلت)
۶۔ جو شخص اذان اور خدا کی آیات سننے کے باوجود بھی بے پروائی کا مظاہرہ
کرے اسے اپنے ایمان کو مشکوک سمجھنا چاہئے۔
۷۔ مومن ہمیشہ دو حالتوں کے درمیان رہتا ہے۔ خوف اور امید۔ (وجلت، یتوکلون)
۸۔ راہ خدا میں حلال مال اور خدا کی عطاکردہ روزی سے ہی خرچ کیا جانا
چاہئے۔ (رزقناھم)
۹۔ مومن اپنے مال و دولت کو خدائی عطیہ سمجھتا ہے، اپنے ہاتھوں کی کمائی
نہیں جانتا۔ (رزقناھم)
آیت ۴
اُولٰئِٓکَ ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا طلَھُمْ دَرَجٰتٌعِِنْدَ رَبِّھِمْ
وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ o
ترجمہ۔ یہی تو حقیقی مومن ہیں، جن کے لئے ان کے پروردگار کے پاس درجات ہیں،
بخشش ہے اور باعظمت اور کریمانہ روزی ہے۔
ایک نکتہ: "کریم" رزق سے مراد ہمیشہ کی "کسی کے احسان کے بغیر" وسیع اور
خالص روزی ہے۔
پیام:
۱۔ ایمان اس وقت کامل ہوتا ہے جب اس کے ساتھ توکل، نماز، راہ خدا میں خرچ
کرنا بھی جمع ہو جائیں۔ ایمان نعرے کے ساتھ نہیں عمل کے ساتھ ہوتا ہے (حقا)
۲۔ خداوند تعالیٰ سے درجات حاصل کرنے کا راز ایمان اور نماز میں پوشیدہ ہے
(لھم درجات)
۳۔ ہیں ایسے لوگ بھی جو ایک دنیوی درجے کے حصول کے لئے پوری زندگی خرچ کر
دیتے ہیں لیکن الٰہی درجات سے بالکل غافل ہیں (درجات)
۴۔ اللہ تعالیٰ کے درجے بہشت کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں، اس دنیا میں بھی ہیں
اور برزخ میں بھی (عندربھم) مطلق ہے۔
۵۔ چونکہ ایمان میں کمی بیشی کا امکان ہوتا ہے لہٰذا درجات بھی گھٹتے اور
بڑھتے رہتے ہیں۔
آیت ۵
کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْم بَیْتِکَ بِالْحَقِّص وَ اِنَّ فَرِیْقًا
مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ لَکٰرِھُوْنَلا
ترجمہ۔ جس طرح تمہارا پروردگار تمہیں (جنگ بدر کا حکم دے کر) اپنے گھر سے
برحق طور پر باہر لے آیا جبکہ مومنین میں سے کچھ لوگ اس بات کو ناپسند کرتے
تھے۔
ایک نکتہ:
جس طرح کہ افرادی قوت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے محاذ جنگ پر جانا اور
دشمن کے ساتھ جہاد کرنا کچھ لوگوں کے لئے سخت دشوار اور بہت ہی ناگوار تھا‘
بدر میں جنگی غنیمتوں کی تقسیم بھی ان کے لئے ناگوار تھی اور سب کچھ ٹھیک
ہو گیا، اسی طرح یہ ناگواری بھی گزر جائے گی۔ اللہ کے رسول کو تو بس اس بات
کی فکر ہونی چاہئے کہ حقیقی مصلحت کیا ہے اور احکام خداوندی کی بجاآوری
کیسے کی جاتی ہے؟ لوگوں کی ناگواری اور ناپسندیدگی تو ہمیشہ سے چلی آ رہی
ہے۔
پیام:
۱۔ پیغمبر اسلام کا مدینہ سے جنگ بدر کے لئے باہر نکلنا حکم خداوندی کے
مطابق تھا (اخرجک)
۲۔ محاذ جنگ میں تمام امور کا محور و مرکز قائد اور رہبرہی ہوتا ہے، اگرچہ
جہاد کے لئے کئی اور لوگ بھی باہر نکلے تھے، لیکن آیت صرف پیغمبر اکرم کے
نکلنے کو بیان کر رہی ہے۔ (اخرجک)
۳۔ جنگ ترقی اور تربیت کا موجب ہوتی ہے (ربک)
۴۔ مدینہ، پیغمبر اکرم کا گھر ہے۔ (بیتک) (ہر شخص کے لئے گھر وہی ہوتا ہے
جہاں وہ اپنی شخصیت کو منواتا ہے، صرف جائے پیدائش ہی گھر نہیں کہلاتی)
۵۔ مسلمانوں کے رہبر اور قائد کو اپنے فریضہ کی بجاآوری کی فکر ہونی چاہئے،
ورنہ ہر کام میں اور ہر حکم کے صادر ہونے پر کچھ نہ کچھ لوگ ناراض ہوتے ہی
ہیں (بالحق)
۶۔ جہاد کو ناپسند کرنے سے ایمان پر کوئی اثر نہیں پڑتا بشرطیکہ اطاعت میں
فرق نہ آنے پائے (من الموٴمنین لکارھون)
۷۔ رہبر اور قائد کو اس بات کی توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ سب لوگ اس کی بے
چون و چرا اطاعت کریں گے (فریقا)
۸۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان بڑی محبت اور خلوص کے ساتھ محاذ
جنگ پر جاتا ہے، لیکن آخر میں مالی مسائل اور جنگی غنائم کی وجہ سے اس کے
دل میں کئی قسم کی باتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
۹۔ جس کے پاس مال یا مالی اختیارات ہوتے ہیں، اس کے دشمن اور مخالف بھی
ہوتے ہیں خواہ وہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہو۔
آیت ۶
یُجَادِ لُوْنَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَاتَبَیَّنَ کَاَنَّمَا یُسَاقُوْنَ
اِلَی الْمَوْتِ وَ ھُمْ یَنْظُرُوْنَ oط
ترجمہ۔ وہ لوگ حق کے بارے میں اس کے واضح ہو جانے کے بعد آپ سے لڑائی جھگڑا
کرتے ہیں (اور اس قدر ڈر چکے ہیں) گویا یہ دیکھ رہے ہیں کہ موت کی طرف ہنکا
کر لے جائے جا رہے ہیں۔
ایک نکتہ:
مسلمانوں کے ایک گروہ کا پیغمبر کے ساتھ جھگڑا جنگ بدر کے بارے میں تھا،
اور وہ بھی اس بات پر کہ نہ تو کافی مقدار میں وسائل جنگ ہیں اور نہ ہی
افرادی قوت۔ اور پھر یہ کہ قریش تاجروں کا مال لینے کے لئے باہر نکل رہے
ہیں۔ لشکر قریش سے جنگ کرنے کے لئے نہیں۔
چنانچہ کچھ لوگ تو جنگ نہ کرنے کی باتیں کرتے تھے اور کچھ دوسرے (جیسے حضرت
مقداد) کہتے تھے: "ہم حضرت موسیٰ کے اصحاب کی مانند نہیں ہیں کہ خود بیٹھ
جائیں اور پیغمبر سے کہیں کہ آپ خود جا کر لڑیں۔ ہم جنگجو لوگ ہیں، آپ جو
حکم دیں گے ہم بسرو چشم بجا لائیں گے! "لیکن جو ڈرپوک لوگ جنگ نہیں کرنا
چاہتے تھے، حضرت رسول خدا سے لڑائی جھگڑا کرتے تھے۔
پیام:
۱۔ پیغمبر خدا کے سارے یار عادل اور آنحضرت کے مطیع امر نہیں تھے (یجاد
لونک)
۲۔ تن پرور اور ڈرپوک لوگ جنگ سے گریز کے طور پر ہمیشہ لڑائی جھگڑے،
توجیہیں، تاویلیں اور بہانے تراشا کرتے تھے۔
۳۔ اگر حوصلے پست اور دل خراب ہو جائیں تو فقط علم کافی نہیں ہوتا۔ (بعد
ماتبین)
۴۔ حوصلہ ہار جانے والے سپاہیوں کا میدان جنگ کی طرف جانا ایسے ہے جیسے کسی
تابوت کو اٹھا کر لے جایا جا رہا ہو۔ (یساقون)
آیت ۷
وَ اِذْ یَعِدُ کُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّھاَ لَکُمْ وَ
تَوَ دُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ تَکُوْنُ لَکُمْ وَ یُرِیْدُ
اللّٰہُ اَنْ یَُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہ وَ یَقْطَعَ
دَابِرَالْکٰفِرِیْنَ oلا
ترجمہ۔ اور اس وقت کو یاد کرو کہ جب خداوند عالم تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ
ان دو گروہوں (دشمن کا تجارتی قافلہ یا جنگی لشکر) میں سے ایک تمہارے لئے
ہی ہو گا، اور تم اس بات کودوست رکھتے تھے کہ غیرمسلح گروہ (تجارتی قافلہ)
تمہارے قابو میں آ جائے۔ جبکہ خدا چاہتا ہے کہ اپنے کلمات (اور طریقہ کار)
کے ذریعہ حق کو تقویت بخشے اور کفار کی بیخ کنی کر دے۔
چند نکات:
"شوکة" کا لفظ "شوک" سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں کانٹے اور نیزے کی
انیاں، اور "ذات الشوکة" سے مراد مسلح گروہ ہے جبکہ "غیر ذات الشوکة" سے
مراد غیرمسلح تجارتی قافلہ ہے۔
ابو سفیان ایک تجارتی قافلہ لے کر سفر پر روانہ ہوا، حضور پیغمبر خدا صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کی طاقت کو کمزور کرنے اور مہاجر مسلمانوں کے
مال کی تلافی کے لئے جو کہ کفار مکہ نے ان سے چھین لیا تھا یا قبضہ کر لیا
تھا، کچھ لوگوں کو اس تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کے لئے تیار کیا، اس
منصوبے کا ابو سفیان کو علم ہو گیا اور اس نے اس کی خبر مکہ والوں کو بھی
پہنچا دی، چنانچہ مکہ سے تقریباً ایک ہزار کا لشکر اس ۴۰ افراد پر مشتمل
تجارتی قافلے کی حفاظت کے لئے مکمل طور پر سنبھل کر اور مسلح ہو کر پہنچ
گیا، مکہ اور مدینہ کے درمیان ان تینوں گروہوں (مسلمانوں، کفار کے لشکر اور
تاجروں) کی مڈبھیڑ ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے غیبی امداد کے ذریعہ مسلمانوں کی
مدد فرمائی، باوجودیکہ مسلمان فوجی تیاری اور جنگ کے قصد کے بغیر باہر آئے
ہوئے تھے لیکن پھر بھی دشمن پر غالب آ گئے۔ مسلمانوں کی تعداد ۳۱۳ تھی اور
جنگ بدر ۱۷ رمضان ۲ ھ میں واقع ہوئی۔ اس جنگ میں ابوجہل اور ستر دوسرے کفار
واصل جہنم ہوئے اور ستر آدمیوں کو قید کر لیا گیا، حالانکہ کفار کے لشکر کی
تعداد مسلمانوں سے تین گناہ زیادہ تھی۔
پیام:
۱۔ خدائی امداد کی یادآوری، ایمان کی تقویت کا موجب ہوتی ہے (واذ)
۲۔ حق کی باطل پر فتح، اقتصادی درآمد سے زیادہ اہم ہوتی ہے (تو دون ان غیر
ذات الشوکة تکون لکم … یقطع دابر الکافرین)
۳۔ بعض اوقات خدائی ارادے کی تکمیل مومنین کے ہاتھوں سے بھی ہوتی ہے (یرید
اللہ)
۴۔ فتح صرف افرادی قوت اور جنگی وسائل کے ذریعہ ہی حاصل نہیں ہوتی اصل اور
اہم عامل ارادہ الٰہی ہے۔ (یرید اللہ)
۵۔ انسان طبعی طور پر آرام طلب ہے۔ (تودون ان غیرذات الشوکة)
۶۔ جہاد اسلامی کا اصل مقصد و مطلوب احقائق حق اور باطل کی بیخ کنی ہوتا ہے
نہ کہ کشور کشائی اور زمینوں پر قبضہ!
۷۔ احقاق حق، اللہ اور اولیأ اللہ کے کلمات اور خدائی اوامر و قوانین کے
ذریعہ ہوتا ہے۔ اور عزت و فتح جہاد اور فداکاری کے سایہ میں ہے، نہ کہ
سیاسی مذاکرات اور مختلف سازشوں کے ذریعے۔
۸۔ کائنات میں حق کی عزت اور باطل کی ذلت کے ساتھ ہی آخری فتح حاصل ہو گی۔
(یریداللہ)
آیت۸
لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَ یُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ
o
ترجمہ۔ تاکہ خداوند عالم حق کو پائیدار اور باطل کو نیست و نابود کر دے
اگرچہ مجرمین اس بات کو ناپسند بھی کریں۔
ایک نکتہ:
یہ آیت مسلمانوں کے لئے بہترین تسلی اور دلجوئی کا باعث ہے۔
پیام:
۱۔ خداوند عالم کے وعدے کسی کے ذاتی اور مادی مفادات کے لئے نہیں بلکہ حق
کے پائیدار کرنے اور باطل کی نابودی کے لئے ہوتے ہیں۔ (لیحق الحق)
۲۔ کافر دشمن کا اس بارے میں کیا ردعمل ہوتا ہے؟ اس سے تمہارا کوئی تعلق
نہیں ہونا چاہئے، خداوند عالم اپنے ارادے کو خود ہی عملی جامہ پہنائے گا۔
(ولوکرہ المجرمون)
آیت۹
اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّ کُمْ
بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَةِ مُرْدِفِیْنَ o
ترجمہ۔ اس زمانے کو یاد کرو جب تم (بدر کے میدان میں) اپنے رب سے نصرت طلبی
کر رہے تھے، پس اس نے تمہاری درخواست کو قبول کیا (اور فرمایا) میں ایک
دوسرے کے پیچھے آنیوالے ایک ہزار فرشتوں کے ذریعے تمہاری مدد کرنے والا
ہوں۔
چند نکات:
"مردف" کا لفظ "ارداف" سے لیا گیا ہے جو "ردیف" کے معنی میں ہے یعنی ایک
دوسرے کے پیچھے ہونا گویا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی امدادیں جاری رہیں گی۔
سورہ آل عمران/۱۲۴ میں "ثلثة آلاف" تین ہزار فرشتوں کے ذریعہ امداد کا ذکر
ہے جبکہ اس کے بعد کی آیت میں پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں کا تذکرہ ہے۔ اور
شاید یہ اس لئے ہے کہ مسلمانوں کی مقاومت و پائیداری جتنا بڑھتی گئی غیبی
امداد میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا گیا۔
جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کفار کی تعداد کے ایک تہائی تھی، جبکہ ان کے
عسکری ذرائع اور حربی وسائل بھی کفار سے بہت ہی کم تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ
مسلمانوں میں ذہنی آمادگی بھی نہیں تھی، اس میں پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور اپنے رب کے حضور ان الفاظ میں دعا
مانگی:
"اللھم انجزلی ما وعدتنی، اللھم ان تھلک ھذہ العصابة لاتعبد فی الارض"
خداوندا! تونے جو مجھ سے وعدہ فرمایا تھا اسے میرے لئے پورا فرما! بار
الٰہا! اگر مسلمانوں کا یہ چھوٹا سا گروہ بھی شہید ہو گیا تو پھر روئے زمین
پر تیری عبادت کرنے والا کوئی باقی نہیں رہے گا۔
پیام:
۱۔ سختی اور مشکلات کے دنوں کو کبھی نہ بھلاؤاور خداوند عالم کی نعمتوں کو
کبھی فراموش نہ کرو۔ کیونکہ خداوند عالم کی نعمتوں کی یاد انسان کے شکراس
کے حوصلے کو پروان چڑھاتی ہے۔ (اذ)
۲۔ محاذ جنگ میں موجود مجاہدین کی دعا اور ان کا استغاثہ موثر ہوتا ہے اور
دعائیں قبول ہوتی ہیں (تستغیثون۔ فاستجاب)
۳۔ انسانی زندگی میں فرشتے بہت ہی موثر ہوتے ہیں۔ (ممدکم)
۴۔ دعا، قبولیت کی کنجی ہے (تستغیثون…فاستجاب)
۵۔ اللہ اگر چاہے تو دعا مانگے بغیر بھی عطا کر سکتا ہے، لیکن دعا، الٰہی
تربیت کا ایک راستہ ہے (ربکم)
۶۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے غیبی امداد اس وقت آتی ہے جب ہم بھی ان
اسباب کو کام میں لائیں جو اللہ نے ہمیں ظاہری طور پر عطا فرمائے ہیں۔ (ممد
کم)
آیت ۱۰
وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشْرٰی وَ لِتَطْمَئِنَّ بِہ قُلُوْبُکُمْ
ط وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِاللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ
حَکِیْمٌo
ترجمہ۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس (فتح اور فرشتوں کے نزول) کو اور کچھ بھی
قرار نہیں دیا سوائے اس کے کہ تمہارے لئے خوشخبری ہو اور یہ کہ تمہارے دلوں
کو اطمینان حاصل ہو جائے۔ اور نصرت وکامیابی خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف
سے نہیں ہوتی، یقیناً خداوند عالم غالب (اور) حکمت والا ہے۔
چند نکات:
قرآن مجید میں مومنین کے لئے امداد کرنے والے فرشتوں کا بارہا تذکرہ ہوا
ہے۔ حتی کہ جب موٴمن کی روح قبض ہو رہی ہوتی ہے اور جان نکل رہی ہوتی ہے تو
اس وقت بھی خداوند کریم فرشتے کو بھیجتا ہے تاکہ وہ مومن کے دل کی ڈھارس بن
سکے اور حق کے کلمات اس کی زبان پر جاری کرائے اور اسے شیطانی وسوسوں سے
محفوظ رکھے۔
خداوند عالم کی تخلیق و آفرینش میں القأ دو طرح کا ہوتا ہے ایک تو خدا کے
فرشتوں کی طرف سے جو مومن لوگوں کے دلوں میں سکون و اطمینان کا القأ کرتے
ہیں۔ جب کہ خداوند عالم فرماتا ہے: "اذیوحی ربک الی الملائکة انی معکم
فثبتوا الذین امنوا سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب" خداوند عالم فرشتوں
کی طرف وحی کرتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، پس تم مومنین کو ثابت قدم
رکھو، میں کفار کے دلوں میں خوف اور وحشت ڈال دوں گا (انفال/۱۲)۔ اور ایک
القأ شیطان کی طرف سے خوف اور وحشت کی صورت میں ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا
ہے: "ذٰلکم الشیطان یخوف اولیائہ" یہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے پیروکاروں کو
ڈراتا ہے (آل عمران/۱۷۴)
پیام:
۱۔ امداد کرنے والے فرشتے، مومنین کا حوصلہ بڑھانے کے لئے آئے تھے، کفار کو
ہلاک کرنے کے لئے نہیں آئے تھے۔ (کیونکہ تاریخی نکتہ نظر سے یہ بات اظہر من
الشمس ہے کہ جنگ بدر میں کون کافر کس مسلمان مجاہد کی تیغ کا لقمہ بنا ہے
جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ جنگ بدر کے مقتولین کی زیادہ تعداد علی ابن ابی طالب
علیہ السلام کے ہاتھوں فی النار ہوئی۔ (وما جعلہ اللہ الابشریٰ)
۲۔ اگر مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی تھی تو اس میں نہ تو ان کی جنگی چالوں
اور وسائل حرب کی وجہ سے ہوئی اور نہ ہی فرشتوں کی وجہ سے بلکہ صرف اور صرف
خداوند متعال کی جانب سے ہی ہوئی (وما النصر الامن عنداللہ…)
۳۔ فتح و کامرانی نہ تو افرادی قوت سے حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی جنگی سازو
سامان سے، بلکہ اس کا دارومدار رب العزت کی مرضی اور منشا پر ہے 4 (وما
النصر الامن عند اللہ)
۴۔ خدا کی امداد اس کی حکمت کی بنیادوں پر ہوتی ہے (حکیم)
آیت ۱۱
اِذْیُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْہُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ
مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَھِّرَ کُمْ بِہ وَ یُذْھِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ
الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَ یَُثَبِّتَ بِہِ
الْاَقْدَامَ oط
ترجمہ۔ اس زمانے کو یاد کرو جب خداوند عالم نے اپنی طرف سے امن و سکون کی
خاطر تم پر مختصر سی نیند مسلط کر دی اور تم پر آسمان سے پانی برسایا تاکہ
اس سے تمہیں پاک کر دے اور تم سے شیطان (کے وسوسوں) کی پلیدی کو دور کر دے،
تمہارے دلوں کو محکم کرے اور تمہیں ثابت قدم رکھے۔
ایک نکتہ:
جنگ بدر میں ابتدا میں پانی کے تمام کنویں دشمن کے قبضے میں تھے، جس کی وجہ
سے مسلمان سخت تزلزل کا شکار ہو گئے، اللہ تعالیٰ نے مینہ برسایا جس سے وہ
نہال نہال ہوگئے، ان کے پاؤں کی ریت بھی جم کر سخت ہو گئی کہ لڑائی کے موقع
پر ان کے پاؤں پھسلنے سے بچ گئے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ ثبات قدم سے استقامت، ثابت قدمی اور پائیداری مراد ہو۔
نہ کہ بارش والی زمین پر ان کے پاؤں کا استحکام۔
پیام:
۱۔ جنگ میں ہلکی سی نیند بھی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے کہ اس سے ایک
تو تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی دشمن کو شب خون مارنے کا موقع بھی
نہیں مل پاتا (النعاس امنة)
۲۔ اگر خدا چاہے تو انسان کثیر تعداد میں مسلح دشمن کی موجودگی میں بھی
سکون کی نیند سو سکتا ہے۔ اگر وہ نہ چاہے تو بہترین باغات میں بھی نیند نہ
آئے اور اگر آئے بھی تو سکون کی نہ ہو (النعاس امنة)
۳۔ اگر مومن اور صابر رہو تو خداوند عالم تمام عوامل فطرت اور اسباب طبیعت
تمہارے اختیار میں دے دے اور تمہارے مفاد میں چلا دے (ینزل علیکم…)
۴۔ محاذ جنگ میں طبعی عوامل مثلاً ہوا، بارش، نیند وغیرہ کو اتفاقی امور
نہیں سمجھنا چاہئے۔
۵۔ مسلمان مجاہد کو صاف ستھرا اور پاک و پاکیزہ ہوناچاہئے اور اس کے حوصلے
بھی بلند ہونے چاہئیں۔ (لیطھرکم…لیربط علی قلوبکم)
آیت ۱۲
اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَةِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاط سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا
الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْھُمْ کَلَّ
بَنَانٍ oط
ترجمہ۔ اس زمانے کو بھی خاطر میں لے آؤ کہ جب تمہارے رب نے فرشتوں کی طرف
وحی کی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، پس تم مومن لوگوں کو ثابت قدم رکھو، اور
میں بہت جلد کفار کے دلوں میں رعب اور ڈر ڈال دوں گا پس تم ان کی گردنوں کے
اوپر کو مارو اور ان کی انگلیوں کو کاٹ ڈالو (تاکہ ہتھیار نہ اٹھا سکیں)
دو نکات:
"بنان" جمع ہے "بنانہ" کی، جس کے معنی ہیں ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کے سرے
یا خود انگلیاں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ "فوق الاعناق" سے مراد کفار کے سرکردہ اور معروف سردار
اور سربراہوں جیسا کہ ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے : "فقاتلو ائمة الکفر" کفر
کے سربراہوں کے ساتھ جنگ کرو (توبہ/۱۲) یعنی دشمن کے سرداروں اور سربراہوں
کو ٹھکانے لگانا چاہئے۔ (از تفسیر فرقان)
پیام:
۱۔ خداوند عالم اہل ایمان پر سکون و اطمینان نازل فرماتا ہے جبکہ کفار کے
دلوں میں رعب ڈال کر انہیں وحشت زدہ کر دیتا ہے۔ (فثبتوا…سالقی)
۲۔ دل خدا کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور ان کا سکون یا اضطراب بھی اسی کی طرف
سے ہوتا ہے (سالقی)
۳۔ خداوند عالم، مومنین کی حمایت اور ہدایت کا کام بعض اوقات فرشتوں سے بھی
لیتا ہے۔ (الی الملائکة)
۴۔ خدا نے استقامت اور پائیداری کے لئے تشویق و ترغیب کا کام فرشتوں کے
ذریعہ قرار دیا ہے، لیکن کافروں کے دلوں میں رعب و وحشت کا کام اپنی طرف
منسوب کیا ہے۔ (فثبتوا…سالقی)
۵۔ فرشتے از خود کسی قسم کی قدت و طاقت کے حامل نہیں ہیں، ان کے پاس جو بھی
قدرت و طاقت ہے وہ سب لطف و حمایت پروردگار کی مرہون منت ہے۔ (انی معکم
فثبتوا)۔
۶۔ میدان جنگ میں اپنی رزمی توانائیوں سے بھرپور فائدہ اٹھاؤ، اور حساس
مقامات پر ضربیں لگاؤ (فوق الاعناق…کل بنان)
۷۔ فقط وسائل اور توانائی آرام و سکون کا موجب نہیں ہیں، اس لئے کہ جنگ بدر
میں مسلمانوں کو عددی قلت کے باوجود آرام و سکون نصیب ہوا (اور وہ بھی ایک
مختصر سی نیند کے ساتھ) جبکہ دشمن کثیر تعداد میں اور ہر طرح سے منظم ہونے
کے باوجود بیمناک اور مرعوب ہو گیا (امنة…الرعب)
آیت ۱۳، ۱۴
ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ شَآقُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہج وَ مَنْ یُّشَا قِقِ
اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ o ذٰلِکُمْ
فَذُوْقُوْہُ وَ اَنَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابَ النَّارِ o
(دشمن کے سروں اور انگلیوں کے پوروں پر مارنے کا) یہ حکم اس لئے تھا کہ
انہوں نے خدا اور اس کے رسول کے مقابلے میں سرکشی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اور
جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر کے ساتھ الجھتا اور ان کی مخالفت کرتا ہے تو
یقینا خدا بھی سخت عذاب دینے والا ہے۔ یہ تمہی تو ہو، پس اسے چکھو اور
کافروں کے لئے (بہت سخت سزا) جہنم کا عذاب ہے۔
پیام:
۱۔ رسول خدا کی مخالفت، خدا کی مخالفت ہے (شاقوا اللہ و رسولہ)
۲۔ خداوند عالم کا ازل سے یہی شیوہ چلا آ رہا ہے کہ جو بھی حق کے ساتھ
الجھے گا، نیست و نابود ہوجائے گا (ومن یشاقق)
۳۔ خدا کا قہر و غضب، سرکش عناصر کی سرکشی کا نتیجہ ہوتا ہے کسی پر بے وجہ
عذاب نازل نہیں ہوتا۔ (ذالک بانھم…)
۴۔ کفار دنیا میں بھی خدائی انتقام اور ہلاکت کا شکار ہوتے ہیں اور آخرت
میں بھی عذاب الٰہی میں جکڑے جائیں گے (عذاب النار) "فوق الاعناق")
آیت ۱۵
یٰٓا یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذْا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا
زَحْفًا فَلَا تُوَ لُّوْ ھُمُ الْاَدْبَارَo
ترجمہ۔ اے ایماندارو! جب کافروں کے ساتھ تمہاری مڈبھیڑ ہو جائے کہ وہ میدان
جنگ میں انبوہ کی صورت میں تم پر حملہ آور ہو جائیں تو تم انہیں پیٹھ دکھا
کر بھاگ نہ جانا۔
ایک نکتہ:
"زحف" کے معنی ہیں گھٹنوں یا سرین کے بل زمین پر گھسٹنا ، ایک انبوہ اور
جرار لشکر کی حرکت کو اس لئے "زحف" کہتے ہیں کہ وہ دور سے ایسے معلوم ہوتا
ہے کہ زمین پر گھسٹتا چلا آ رہا ہے۔
پیام
۱۔ جنگ سے فرار حرام ہے۔ (لاتولو ھم)
۲۔ میدان جنگ میں دشمن کی عددی کثرت، میدان سے فرار کرنے کو جائز نہیں بنا
دیتی ( زحفا۔لاتولو ھم)
۳۔ اس وقت فرار حرام ہے جب میدان میں دونوں فریق تیار ہو کر آئیں اور جنگ
میں ایک دوسرے کے ساتھ مصروف ہو جائیں۔ لیکن اگر دشمن مسلح ہو کر شب خون
مارے اور مسلمان اس وقت نہتے اور بے خبر ہوں تو پھر ایسی صورت میں ان کے
لئے عقب نشینی اختیار کر لینے میں کوئی حرج نہیں 5 (لقیتم)
۴۔ اسلامی جنگیں مکتب اور مذہب کے لئے لڑی جاتی ہیں جن کا استعمار و
استثمار اور ہوا و ہوس وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ (الذین امنوا۔ الذین
کفروا)
۵۔ دین اور اس کے رہبر و رہنما پر ہزاروں جانیں قربان! ایک روایت کے مطابق
حضرت امام رضا علیہ السلام نے میدان جنگ سے فرار کی حرمت کو ان الفاظ میں
بیان فرمایا ہے کہ: "فرار، رہبر برحق کی توہین، دشمن کے جری ہونے اور مذہب
کے مٹنے کا موجب ہوتا ہے" 5-a (تفسیر نورالثقلین)
۶۔ میدان جنگ سے فرار نامردی پر دلالت کرتا ہے، قرآن مجید نے بھی "دبر‘ اور
"ادبار" کے جیسے الفاظ استعمال کرکے دشمن کو پیٹھ دکھانے کو توہین آمیز
انداز میں ذکر کیا ہے (الادبار)
آیت ۱۶
وَ مَنْ یُّوَلِّھِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٓ الِاِّ مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ
اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ
وَمَاْ وٰہُ جَھَنَّمُط وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ o
ترجمہ۔ اور ان لوگوں کے علاوہ جو جنگی ساز و سامان کے لئے دوبارہ واپس جاتے
ہیں یا جو لوگ دوسرے گروہ کی مدد کو جاتے ہیں کوئی اور شخص جنگ کے دن دشمن
کو پیٹھ دکھائے گا تو وہ خداوند عالم کے غیظ و غضب کا شکار ہو جائے گا اور
اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور جہنم بہت بری جگہ ہے۔
چند نکات:
آیت میں بتایا گیا ہے کہ میدان جنگ سے بھاگ جانا حرام ہے سوائے دو موقعوں
کے۔ ایک تو جنگی تکنیک کے تحت ایک جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ پر جاگزین ہونا
اور دوسرے اپنی جگہ سے فرار کرکے مسلمانوں کے دوسرے گروہ سے جا ملنا اور
وہاں سے دشمن پر یکبارگی حملہ کرنا۔ البتہ تفسیر کی بعض دوسری کتابوں میں
کچھ اور مواقع بھی ذکر ہوئے ہیں مثلاً مسلمانوں تک اطلاع پہنچانے کے لئے
فرار کرنا یا موجودہ مورچے سے زیادہ اہم کسی اور مورچے کی حفاظت کرنے کے
لئے دوڑ لگانا، (تفسیر فے ظلال القرآن) لیکن یہ سب اسی مذکورہ پہلی قسم کا
مصداق ہیں۔
"متحرفا" کے معنی ہیں تکنیکی بنیادوں پر دشمن کو زچ کرکے اور دھوکہ دے کر
پھر اس کو کاری ضرب لگانے کے لئے خود کو ایک طرف کر لینا۔
"متحیزا" جب مجاہد کو تنہائی اور دشمن سے مقابلے کی ناتوانی کا احساس ہونے
لگے تو اس وقت دوسرے مجاہد گروہ کے ساتھ جا ملنا اور اس کے پہلو بہ پہلو
دشمن کی طرف آگے بڑھنا۔
پیام:
۱۔ میدان جنگ سے فرار گناہ کبیرہ ہے اور خدا نے اس پر اپنے قہر و غضب اور
عذاب کا وعدہ کیا ہے۔ 6 (باء لغضب)
۲۔ تکنیکی بنیادوں پر پیچھے ہٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (متحرفا)
۳۔ جنگ میں دشمن کو دھوکہ دینا جائز ہے (متحرفا)
۴۔ صرف محاذ جنگ پر چلے جانا ہی اہم نہیں ہے وہاں سے فرار نہ کرنا بھی اہم
ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ میدان جنگ میں تو تشریف لے جاتے ہیں
لیکن وہاں علم چھوڑ کر واپسی پر جہنم کا پروانہ اپنے ساتھ لے آتے ہیں۔
۵۔ یقیناً فتح و نصرت خداوند تعالیٰ کی طرف سے ہے لیکن فوجی فنون اور تکنیک
اور جنگی سیاست بھی ضروری ہوتی ہے، (متحرفا لقتال اور متحیزا)
۶۔ تبصرہ کرتے اور نتیجہ نکالتے وقت سب کومتہم نہ کرو اور نہ ہی جلدی میں
فیصلہ دے دیا کرو، ہو سکتا ہے کہ کسی کے عمل کی تبدیلی کسی خاص نقشے اور
تکنیک کے ماتحت ہو (متحرفا)
۷۔ جنگ کے میدان سے فرار دنیا میں ذلت کا اور آخرت میں عذاب کا موجب ہے
(بغضب --جہنم)
۸۔ محاذ جنگ سے بھاگ جانے والوں کی پناہ گاہ سیدھی، جہنم ہے (ماواہ جہنم)
۹۔ میدان جنگ کے بھگوڑے اللہ کے ایسے غضب شدہ لوگ ہوتے ہیں جن سے ہم ہر
نماز میں برائت طلب کرتے ہیں۔ یا بہ الفاظ دیگر ان سے تبرا کرتے ہیں (بغضب)
سورہ فاتحہ میں ہے "غیرالمغضوب علیھم"۔
۱۰۔ نامراد بھگوڑوں کا انجام بہت ہی برا ہوتا ہے (بئس المصیر)
آیت ۱۷
فَلَمْ تَقْتُلُوْ ھُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَھُمْ وَ مَا رَمَیْتَ
اِذْ رَمَیْتَ وَ ٰلکِنَّ اللَّہَ رَمٰیج وَ لِیُبْلِیَ الْمُوٴْمِنِیْنَ
مِنْہُ بَلَآءً حَسَنًاط اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o
ترجمہ۔ تم نے کافروں کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے انہیں قتل کیا ہے۔ (اے
پیغمبر!) جب تم تیر پھینک رہے تھے، تم نہیں پھینک رہے تھے بلکہ خدا نے
پھینکا تھا (تاکہ کافروں کو مرعوب کرے) اور تاکہ مومنین کو اپنی طرف سے
اچھے طریقے سے آزمائے۔ کیونکہ اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔
پیام:
۱۔ تگ و دو اور سعی و کوشش تو انسان کی طرف سے ہوتی ہے لیکن اسے اثر خداوند
متعال عطا فرماتا ہے (قتلھم ولکن اللہ قتلھم)
۲۔ غرور و تکبر، کامیابی کی آفات ہیں جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے(ولکن
اللہ قتلھم)
۳۔ کام چونکہ انسان کے اپنے اختیار کے ساتھ اسی سے سرزد ہوتا ہے لہٰذا اسی
کی طرف اسے نسبت دی جاتی ہے لیکن چونکہ کام اس کی طاقت اور اثر خدا کی طرف
سے ہوتا ہے اور وہی اس کا حوصلہ اور قوت عطا کرتا ہے اسی لئے خدا کی طرف
منسوب ہوتا ہے۔ (مارمیت…ولکن اللہ رمیٰ)
۴۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کو ملنے والی فتح و نصرت خداوند عالم کے ارادہ اور
امداد سے تھی اور وہ بھی صرف مادی طاقت اور فوجی فارمولوں کے ساتھ نہیں،
ورنہ دو گھوڑوں پر مشتمل مختصر سا لشکر ایک منظم اور آراستہ فوج پر جو سو
گھوڑوں پر مشتمل ہو کیونکر غالب آ سکتا تھا؟
۵۔ جنگیں اللہ تعالیٰ کی آزمائش و امتحان کے وسائل میں سے ایک ہوتی ہیں، جن
سے ایمانداروں اور بے ایمانوں کی لیاقت، آمادگی، استعداد اور پائیداری کا
پتہ چل جاتا ہے۔ (بلآء حسنا)
آیت ۱۸
ذٰلِکُمْ وَ اَنَّ اللّٰہَ مُوْھِنُ کَیْدِالْکٰفِرِیْنَ o
ترجمہ۔ یہ (جنگ بدر میں تم پر خدا کی مہربانی تھی) اور اللہ تعالیٰ یقیناً
کافروں کی چالوں کو ناکام کر دینے والا ہے۔
ایک نکتہ:
"ذالکم" کے ساتھ جنگ میں مسلمانوں کی کیفیت اور آسمان و زمین سے الٰہی
امداد، پیغمبر اکرم کے نیزہ پھینکنے اور اس قسم کی دوسری مہربانیوں کی طرف
اشارہ کیا گیا ہے، گویا یوں کہا جا رہا ہے "ذالکم لطف اللہ علیکم"
پیام:
۱۔ اگر تم محاذ جنگ میں اپنے فریضہ پر عمل کرو گے اور الٰہی رہبر کی اطاعت
کرو گے تو خداوند عالم بھی تمہارے خلاف دشمن کے ہر قسم کے نقشوں کو ناکام
بنا دے گا۔ (موھن کید الکٰفرین)
(معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کے دل میں رعب پڑنا، ان کے رازوں کا فاش ہونا،
ان کے درمیان تفرقہ کا پیدا ہو جانا، طوفان اور رعد و برق کا انہیں اپنی
لپیٹ میں لے لینا دشمن کے نقشوں کی ناکامی ہی ہے)
آیت ۱۹
اِنْ تَسْتَفْتِحُوْا فَقَدْ جَآءَ کُمُ الْفَتْحُج وَ اِنْ تَنْتَھُوْا
فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْج وَاِنْ تَعُوْدُوْا نَعُدْج وَ لَنْ تُغْنِیْ
عَنْکُمْ فِئَتُکُمْ شَیْئًا وَّلَوْ کَثُرَتْ وَ اَنَّ اللّٰہَ مَعَ
الْمُوٴْمِنِیْن َo
ترجمہ۔ اگر تم (اے کفار) اسلام کی فتح و کامرانی کے انتظار میں تھے تو وہ
فتح و کامرانی تمہارے پاس آ چکی (اور اسلام کی حقانیت آشکار ہو چکی) ہے۔
اور اگر تم گمراہی اور باطل سے باز آ جاؤ تو یہ بات تمہارے لئے بہتر ہے۔
اور اگر (اپنے کفر و عناد کی طرف) پلٹ جاؤ تو ہم بھی (تمہارے بارے اپنے قہر
و غضب کی حالت میں) پلٹ جائیں گے۔ اور تمہارا گروہ خواہ کتنا ہی کثیر تعداد
میں ہو تمہارے کچھ کام نہیں آئے گا۔ کیونکہ یقینی طور پر اللہ مومنوں کے
ساتھ ہے۔
ایک نکتہ:
یہ بھی ممکن ہے کہ اس آیت کا خطاب جنگ بدر میں شکست خوردہ کفار کے ساتھ بھی
ہو اور ان مسلمانوں کے ساتھ بھی جو مال غنیمت کی تقسیم پر اختلاف رکھتے
تھے۔ پہلے نظریئے کی تائید سابقہ آیت سے ہوتی ہے جس کا اسی آیت کے ساتھ
تعلق ہے۔ "موھن کیدالکافرین۔ ان تستفتحوا…"
اسی طرح مشرکین کے سردار ابوجہل کی وہ باتیں بھی اس کی موٴید ہیں جب اس نے
جنگ کے لئے مکہ سے باہر آتے ہوئے خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر کہا تھا:
"خدایا! ان دونوں گروہوں میں سے جو زیادہ ہدایت یافتہ ہے تو اس کو فتح و
کامرانی عطا فرما! "اس لئے کہ اسے اپنی فتح پر یقین تھا لیکن شکست کھا گیا۔
اگر مسلمانوں سے خطاب ہو تو اس فتح کے بعد یہ ان کے لئے بہت بڑی تنبیہ ہے
کہ اس قسم کے اعتراضات سے باز رہیں۔ اور اگر انہوں نے دوبارہ ایسی گستاخی
کی تو خداوند عالم کافضل و کرم ان سے پلٹا لیا جائے گا۔ دشمن کے مقابلے میں
ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی اور وہ شکست سے دوچار ہوتے رہیں گے۔ (البتہ
پہلا معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے)
پیام:
۱۔ اللہ کا قہر و غضب یا لطف و کرم ہمارے اپنے انتخاب اور کارناموں سے
وابستہ ہے (ان تفتہوا۔ ان تعودوا)
۲۔ خداوند عالم نے اتمام حجت کر دی ہے اور ہر قسم کے حیلے بہانوں کے رستے
بند کر دیئے ہیں۔ (فقد جاء کم الفتح)
۳۔ تشویق و ترغیب اور تنبیہ و انتباہ کو ساتھ ساتھ ہونا چاہئے (خیر لکم۔ ان
تعودوا نعد)
۴۔ خلاف ورزیوں کا تدارک کرنا چاہئے اور بات دو ٹوک کرنی چاہئے (ان تعودوا
نعد)
۵۔ خدا کے قہر و غضب کے آگے عددی برتری افرادی کثرت کا کوئی بس نہیں چل
سکتا (لن تغنی)
۶۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کے ساتھ ہے (مع الموٴمنین)
اللہ پاک اپنی رحمت سے ہر کمی معاف فرماۓ. |