بی بی سی کی نامہ نگار عنبر خیری کے کالم (قاتل قوم) کا ترکی بہ ترکی جواب

بی بی سی چونکہ ایک صلیبی ادارہ ہے اور اسکا مقصد ہی صلیبیوں کیلئے رائے عامہ کو ہموار کرنا ہے۔ اسلئے انکی اسلام اور پاکستان دشمنی کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جب بھی پاکستان کا کسی طاغوتی ملک یا شخصیت کے ساتھ معاملہ چل نکلا ہے تو بی بی سی کو پاکستان اور اسکی آڑ میں اسلام دشمنی دکھانے کا بھرپور موقع ملا ہے اور بی بی سی والوں نے اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔

حال ہی میں جب ملعونہ آسیہ مسیح نے حضور صلی اللہ علیہ و علی وآلہ و صحبہ و سلم اور اسکی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شان میں گستاخیاں کیں تو عدالت میں مقدمہ کی سماعت اور خود ملزمہ کے اقرار گناہ کے بعد جب اس عورت کو سزا موت ملی تو اسکے خلاف مغربی میڈیا اور پاکستان میں انکے ایجنٹوں نے خوب واویلا کیا۔

اور عدالتی احکامات کو پیروں تلے روندتے ہوئے جب سلمان تاثیر نے حد سے گزر کر ملعونہ آسیہ کو معاف کرنے کی تیاری کی اور اس سلسلے میں پریس کانفرنس کر کے توہین رسالت کا قانون (جو کہ عین شریعت خداوندی کے مطابق ہے) کو کالا قانون کہا تو اسکے گارڈ ممتاز قادری نے اسکو اس جہاں سے اگلے جہاں روانہ کردیا۔

جب ممتاز قادری کو اس سلسلے میں خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھا تو اس وقت بی بی سی کے نامہ نگاروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔

چنانچہ وسعت اللہ خان نے ممتاز قادری کو برا بھلا کہتے ہوا ایک کالم لکھ مارا جسکا جواب بھی میں نے دیا تھا۔

سلمان تاثیر کے قتل کے بعد جب یہ معاملہ سرد ہوا تو نامعلوم افراد نے شہباز بھٹی کو بھی قتل کردیا۔ جو کہ توہین رسالت قانون کے درپے تھا۔

اب ایک بار پھر بی بی سی کے نامہ نگاروں کے پیٹ میں مرور اٹھا ہے چنانچہ اب کی بار عنبر خیریں کا نمبر تھا اور انہوں نے بھی غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے ایک کالم لکھ مارا ۔

کالم کیا تھا اپنے نفس کی خباثت کو ظاہر کردیا۔

میں نے انکے کالم کا جواب دینا مناسب جانا۔ لہٰذا ذیل میں بی بی سی کے نامہ نگار عنبر خیریں کے الفاظ ہونگے پھر بندہ (درویش خُراسانی ) طرف سے اسکا جواب ہوگا۔

عنبر خیری:
کالم کا نام ہے ( قاتل قوم )

جواب: مجھے آپکے اس دوغلے پن پر ہنسی آرہی ہے ۔ ہم کو قاتل قوم کہتے ہوئے شرم نہیں آتی ، ذرا اپنے گریبان کی طرف تو دیکھو، عراق اور افغانستان کی پوری پوری آبادیوں کو آگ میں تبدیل کر کے بھی تم کو شرم نہیں آئی تو اب کیا آئے گی۔ظاہر ہے جس کے ٹکڑوں پر پلو گی ، اسی کے گیت گاؤ گی۔

عنبر خیری :
( آپ کو کسی کی بات اگر پسند نہ ہو یا آپ کو اس کی شکل اچھی نہ لگے تو شاید اس کو قتل کرنا کوئی بُری بات نہیں۔ کم سے کم پاکستان میں۔ اور اگر اس قتل میں آپ 'مذہب' اور 'کافر' کے پہلو لے آئیں تو شاید لوگ آپ کو اس عمل پر شاباش بھی کہنا شروع کردیں۔ کم سے کم پاکستان میں۔)

جواب:
عبنر صاحبہ یہ ایک قانون ہے کہ ہر معاشرے میں بعض باتوں کی اجازت ہوتی ہے اور بعض کی نہیں ۔جس ملک کے ٹکڑوں پر آپ پل رہی ہیں خود اس ملک میں بھی بعض باتیں کرنا ممنوع ہے ، ورنہ اس ملکی کی جیلیں مسلمانوں سے بھری نہ ہوتیں۔ انہیں باتوں سے آدمی کافر اور مسلمان ہوتا ہے۔ آپکو اگر کوئی ماں باپ کی گالی دے تو قابل تعزیر لیکن محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و علی آلہ و صحبہ و سلم کی شان میں گستاخی کرے تو یہ آزادی کہلائی؟

اسطرح تو جنگل کا قانون ہوتا ہے جسطرح کہ آپکی سوچ ہے۔ آپکے چیہتے انگریزوں نے تو جیلیں بھر دی صرف انکے ظلم کے خلاف بولنے کے سبب اور انکو آپ بھول کر ہمارے معاشرے کے پیچھے پڑ گئیں۔

یہی زبان آپکو اعلیٰ مقام بھی دے سکتی ہے اور آپکا سر بھی پھوڑ سکتی ہے۔

عنبر خیری:
( پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد پاکستان میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کے قاتل گارڈ کی اس حرکت کو سراہا۔ کچھ لوگوں نے اس کی مذمت کی لیکن ڈرتے ڈرتے اور سہمے ہوئے انداز میں۔)

جواب: ظاہر ہے کہ جب گورنر خود عدالتی سزائے موت کو ٹال کر ماوراے عدالت ملزم کو رہائی دیتی ہے اور ملک کے قانون کے خلاف زبان درازی کرتا ہے تو گورنر کا انجام بھی ماورائے عدالت تو ہونا ہے۔ ظاہر ہے جو بوؤ گے وہی کاٹو گے۔

اور انکے گارڈ کو لوگوں نے اسلئے سراہا کہ اس نے گورنر کو ترکی بہ ترکی جواب جو دے دیا۔گورنر کو گالی دینا اگر جرم ہے تو حضور صلی اللہ علیہ و علی وآلہ و صحبہ و سلم کی شان میں گستاخی کی سزا کالا قانون کیوں ، کیا یہ مردار نبی سے زیادہ بلند و بالا ہے؟

عنبر خیری:
( اب دیکھتے ہیں کہ اس قتل کی کتنی مذمت کی جاتی ہے، نہ صرف سرکار کی طرف سے بلکہ عوام کی طرف سے بھی ۔)

جواب:
اگرچہ یہ آدمی بھی قانونی مجرمہ کو طاقت کے زور پر بے گناہ قرار دینے کی کوشش میں تھا اور توہین رسالت قانون میں اپنی استاذی کر رہا تھا، لیکن جب دینی حلقوں کا حکومت کے ساتھ معاملہ حل ہوگیا تو اسکو قانون میں ترمیم سے روک دیا گیا۔

اور معاملے کے حل ہونے کے بعد اسکے قتل کا دینی جماعتوں نے بھی مذمت کیا ہے۔ہوسکتا ہو کہ اسکے قتل میں خود تمہارے چہیتے ریمنڈ ڈیوس کے ساتھ ملوث ہوں۔

عنبر خیری:
( بیالیس سالہ شہباز بھٹی وفاقی حکومت کے وزیر تھے، پاکستانی تھے، سیاسی اور سماجی کارکن تھے، انسانی حقوق اور انصاف کے لیے جدوجہد کرنے والے ایک شہری تھے )

جواب : اتنے بڑے آدمی ہوتے ہوئے اس نے آسیہ مسیح کیس میں جو دوغلا پن اختیار کیا تھا کہ سزائے موت کی ملزمہ کو اپنے جھوٹ کے ذریعے بالکل بےگناہ قرار دے کر بیرون ملک فرار کروانے کی کوشش میں ملوث تھے۔ شرم کرنی چاہئے ایسے سماجی کارکن کو ۔ جو مجرموں کو فرار کروا رہے ہوں۔

عنبر خیری:
( اب دیکھتے ہیں کہ ان کے بارے میں یہ سب کچھ کہا جائے گا یا صرف یہ کہا جائے گا کہ وہ عیسائی تھے اور (بقول جاہلوں کے) 'توہین رسالت کے قانون کے دشمن۔ )

جواب: اگر بات صرف عیسائیوں کی ہوتی تو پاکستان میں بہت سے عیسائی امن و سکون سے رہ رہے ہیں۔

البتہ یہ بات کہ توہین رسالت کے دشمن ، تو اس میں وضاحت کی کیا ضرورت ہے، ۳ مارچ ۲۰۱۱ روزنامہ مشرق کا فرنٹ پیج دیکھیں ، خود معلوم ہوجائے گا کہ یہ صاحب کیا تھے۔اور اس قانون کے بارے میں اسکے کیا تاثرات اور ارادے تھے۔

رہا جاہل کہنا تو جب انسان کی عقل حسد اور کینے سے ماؤف ہوجاتی ہے تو اسکو اپنے سوا سب جاہل نظر آتے ہیں ۔حالانکہ وہ خود سب سے بڑا جاہل ہوتا ہے۔

جاہل تو تمہارا معاشرہ ہے جو کہ شراب پی کر بیوی اور ماں بہن کی تمیز نہیں کرتا ہے اور ہم جنس پرستی کو فروغ دیتا ہے اور کتوں کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔

عنبر خیری:
( لیکن شہباز بھٹی کے قتل کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ جنہوں نے دہشت گردوں کی بھر پور مذمت نہیں کی، )

جواب :
ظاہر ہے کہ اگر شہباز بھٹی کو قانون کے اندر رہ کر باتیں کرنے کا سلیقہ سکھایا جاتا اور اسکو توہین رسالت قانون کے خلاف دہشت گردی سے روکا جاتا اور اسکے ان کرتوتوں کی مذمت کی جاتی تو نہ وہ توہین رسالت کے قانون کی خلاف ورزی کرتے اور نہ ہی سزائے موت کی ملزمہ کو باہر فرار کرواتے۔ اور ہوسکتا کہ اسطرح قتل سے بچ جاتے۔ویسے موت کا ایک دن معین ہے۔

عنبر خیری:
( جنہوں نے انسانی جان کا لینا برا نہ سمجھا بلکہ پھانسی اور سزائے موت کو صحیح کہا، جنہوں نے ملک کی مذہبی اقلیتوں کو ایک کمتر ذات سمجھا، جنہوں نے انتہا پسندوں کی مذمت نہ کر کے ان کی ایک طرح سے حمایت کر دی )

جواب:
یہ تمام باتیں تمھارے آقاؤں کیلئے ہیں، انہوں نے عراق ،افغانستان اور وزیرستان میں بے گناہ مسلمانوں کے خون کو جائز قرار دے کر انکو کیوبا اور سی آئی اے کے جیلوں میں سزائے موت اور پھانسی اور واٹر بورڈنگ جیسی سزاؤں سے نوازا۔

اور مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کو کمتر ذات سمجھ کر ان کی زندگیوں کو مشکل بنا دیا ،کبھی پردہ پر پابندی تو کبھی مسجد پر پابندی۔ اور اسطرح وہاں مسلم اقلیت کو کمتر ذات سمجھا۔

اور یہودی اور صلیبی جنونیوں اور بش جیسے صلیبی جنگوں کے شروع کرنے والے پاگلوں اور انتہا پسندوں کی مذمت نہیں کی بلکہ انکے ذلیل کاموں کیلئے الٹا راہ ہموار کی، بی بی سی اور اے آر وائے کے اسٹوڈیو میں بیٹھ کر اور مظلوم مسلمانوں کے خلاف جھوٹی اور من گھڑت خبریں پھیلا کر۔

عنبر خیری:
(جنہوں نے اللہ رسول کا نام لے کر وحشیانہ حرکتوں کو صحیح قرار دے دیا۔۔۔)

جواب:
یہ سب کو معلوم ہے کہ عراق اور پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کرانے کا ذمہ دار کون تھا۔ یہ تمھارا چہیتا ریمنڈ ڈیوس صاحب اسی کام کیلئے تو پاکستان میں موجود تھا۔ اور جس کے ٹکڑوں پر تم پل رہی ہو ، اسی دیس نے پاکستانیوں کو لڑانے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی، عراق اور پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کرانے میں موساد، سی آئی آے اور برطانیہ کے خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ساری دنیا کو معلوم ہے اور ریمنڈ ڈیوس بھی انکا ایک ساتھی ہے۔

اور یہ تم لوگ ہو جو کہتے ہیں کہ وی ٹرسٹ ان گاڈ، اور کروسیڈ کا لفظ بول کر اسلامی ممالک پر حملہ آور ہوتے ہو۔
Mansoor Mukarram
About the Author: Mansoor Mukarram Read More Articles by Mansoor Mukarram: 21 Articles with 68097 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.