آئی ایس آئی کے سابق اہم آفیسرز کے اغوا اور قتل کی سنسنی خیز داستان

آئی ایس آئی کے سابق اہم آفیسرز کے اغوا اور قتل کی سنسنی خیز داستان

”ان سائیڈ سٹوریز “ کے حوالے سے شہرت کے حامل پاکستانی تحقیقاتی صحافی سید بدر سعید کی انکشافات سے بھر پور ایک اہم رپورٹ، جس نے اہم حلقوں کو بھی چونکنے پر مجبور کر دیا۔

”جہاد“ کے آغاز سے لے کر اب تک ”جہادیوں“ کی زندگی کے بہت سے نشیب و فراز سے گزر چکے ہیں۔ وہی امریکہ جو کبھی افغان جہاد کو نہ صرف سپورٹ کرتا رہا ہے۔ بلکہ اربوں ڈالر کی سرمایا کاری بھی کرتا رہا ہے آج اپنے ہی تیار کیے گئے ”جہادیوں“ سے لڑ رہا ہے اور انہیں ختم کرنے کے لیے پہلے سے کئی گنا زیادہ ڈالر خرچ کررہا ہے۔ عام لوگوں کے لیے شاید بات صرف اتنی سی ہو کہ افغانستان میں روس کی آمد سے لے کر امریکہ کے قیام یعنی آج تک گولیوں اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں اور ”جہادی“ لڑائی میں مصروف ہیں درحقیقت بات صرف اتنی سی نہیں ہے کیونکہ اس وقت یہاں خطہ کی ایک اہم جنگ لڑی جارہی ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس جنگ میں نہ صرف ”جہادی“ نیٹو یعنی دنیا کے بڑے ممالک کی افواج، پاک فوج ہی شامل نہیں بلکہ آئی ایس آئی، را، خاد، موساد، رام اور سی آئی اے سمیت متعدد خفیہ ایجنسیاں بھی میدان میں اتر چکی ہیں۔ یہاں تک کہ بات بعض اداروں کی دسترس سے آگے جا چکی ہے۔

بعض تجزیہ کار یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ افغان جہاد کی آگ پھیلتے پھیلتے پاکستان تک آپہنچی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت افغان جہاد کی آگ اپنی جگہ پر ہی ہے اور پاکستان میں اس کی آڑ میں ایک نئی آگ لگائی جارہی ہے اور جسے افغان جہادیوں سے جوڑا جارہا ہے جبکہ افغان طالبان کے امیر ملا عمر ذاتی طور پر پاکستان پر حملے کے حق میں نہیں لیکن بات شاید ان کی پہنچ سے بھی آگے جا چکی ہے۔ ”جہادی“ نہ صرف گروپوں میں تقسیم ہو چکے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے مقابل میدان میں اتر چکے ہیں۔ وہ افغان جہادی جو کہ ملا عمر کی سر پرستی میں ہیں ظاہری طور پر بیت اﷲ محسود گروپ سے لاتعلقی کا اعلان کر چکے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل تک لاتعلقی کے اس کے اعلان کے باوجود یہ سمجھا جاتا رہا کہ درپردہ کسی نہ کسی مقام پر جہادیوں کے مابین تعلقات ضرور ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ بیت اﷲ محسود اور ان کے ساتھیوں میں ایسے لوگوں کی اکثریت تھی جنہوں نے افغان جہاد میں طالبان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر روس امریکہ اور شمالی اتحاد کا مقابلہ کیا لیکن2010ءکے تیسرے ماہ یعنی 6 2 مارچ کو پاکستانی طالبان کے ایک گروپ نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس نے یہ واضح کر دیا کہ اب افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر اور پاکستان میں موجود شدت پسندوں کے راستے الگ ہو چکے ہیں۔

اس کہانی کا آغاز تب ہوا جب مارچ2010ءمیں پاکستان میں مصروفِ عمل ایک شدت پسند گرپ نے کچھ افراد کو اغوا کر لیا جن میں ایک ایسا شخص بھی تھا جسے ملا عمر اور دوسرے افغان طالبان کا حربی استاد اور ”امام“ کہا جاتا ہے اس شخص کا دعویٰ تھا کہ طالبان میرے ”سٹوڈ نٹ“ ہیں اور میں نے نہ صرف یہ کہ ان کی تربیت کی ہے بلکہ جب یہ لوگ منظر عام پر آئے تو ہر خفیہ ایجنسی پریشان ہو گئی کہ یہ کون لوگ ہیں لیکن اس وقت بھی میرے آفس میں ایک اہم فائل میں ان کے نام اور تفصیلات موجود تھیں اس شخص کا دعویٰ اپنی جگہ لیکن حالات ایک سے نہ رہے اور بالآخر اسی ”امام“ اور ”استاد“ کو ”جہادیوں“ نے اغوا کرلیا۔ اس شخص کے ساتھ اغوا ہونے والا دوسرا شخص بھی کم اہمیت کا حامل نہیں تھا یہ دوسرا شخص بھی افغان جہاد میں اہم کردار کے طور پر فعال رہا اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس نے اسامہ بن لادن اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے مابین سعودی عرب کے گرین پیلس ہوٹل میں ملاقات کرائی تھی۔ یہ شخص خود کو اسامہ بن لادن کا دوست بتاتا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اسامہ کے پائلٹ کے فرائض بھی انجام دے چکا تھا۔

پہلے شخص کا نام کرنل (ر) امیر سلطان عرف کرنل امام ہے جبکہ دوسرے شخص کا نام اسکوار ڈن لیڈر(ر) خالد خواجہ ہے یہ دونوں افراد آئی ایس آئی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ان کے ساتھ ساتھ برطانوی صحافی اسد قریشی کو بھی اغوا کر لیا گیا۔ شدت پسندوں نے اغوا شدگان میں۔ سب سے پہلے اسامہ بن لادن کے ”دوست“ خالد خواجہ کی بلی دینے کا فیصلہ کیا اور انہیں قتل کر دیا جبکہ ملا عمر سمیت طالبان کے اہم لیڈروں کے دوست اور استاد کرنل امام کی ”خرید و فروخت“ کے لیے جرگہ طلب کیا گیا۔

اصل صورتِ حال کیا ہے؟ کیا طالبان کی صفوں میں ”نقاب پوش“ شامل ہو چکے ہیں؟ کیا واقعی طالبان نے اپنے حربی استاد کو قتل کردیا ؟ طالبان نے اسامہ بن لادن کے ”دوست“ خالد خواجہ کو قتل کیوں کیا؟ اغوا ہونے سے پہلے خالد خواجہ اور کرنل امام نے کس سے ملاقات کی؟ کرنل امام اور خالد خواجہ کس کے کہنے پر وزیرستان گئے؟ کیا خالد خواجہ کو افغان صدر حامد کرزئی کے ایما پر قتل کیا گیا؟ طالبان کمانڈر حافظ گل بہادر، خالد خواجہ کو بچانے میں کیوں کامیاب نہ ہو سکے؟حقانی گروپ معاہدہ ہونے کے باوجود کرنل امام کو کیوں نہ بچا سکے؟کیا کرنل امام دو مرتبہ اغوا ہوئے؟ کرنل امام کو اغوا کرنے والوں کو کرنل امام سے بھی پہلے قتل کیوں کر دیا گیا؟ ایشین ٹائیگرز کی آڑ میں کون سی تنظیم کام کر رہی ہے؟کرنل امام کے قتل کی ویڈیو میں کیا تھا ؟ آخری لمحات میں کرنل امام نے موت کا سامنا کیسے کیا؟ میرے سامنے ایسے بہت سے سوال تھے جن کی تہہ تک پہنچنا میرے لیے بہت ضروری تھا کیونکہ مجھے اپنے قارئین کا اعتماد برقرار رکھنا تھا۔ تحقیقات کے دوران مجھے یہ احساس تھا کہ قارئین کی ایک بڑی تعداد ”ٹاپ سیکرٹ ”انفارمیشن تک رسائی چاہتی ہے۔ پاکستان سے محبت کرنے والے اس دھرتی سے منسلک ہر بات جاننا چاہتے ہیں۔ مجھے بہت جلدی لیکن بہت زیادہ معلومات حاصل کرنی اور حقائق کی تہہ تک پہنچنا تھا۔ میں اپنا فرض نبھانے میں کامیاب ہو سکا یا نہیں اس کا فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔

کیا واقعی طالبان کی صفوں میں ”نقاب پوش“ شامل ہو چکے ہیں؟

آج کل طالبان تحریک کے نام پر صورتِ حال جس تیزی سے تبدیل ہوتی جارہی ہے وہ واقعی باعثِ تشویش ہے ایک وقت تھا کہ پاکستانی نوجوان جذبہ شہادت ہے دھڑا دھڑ ”افغان جہاد“ کا حصہ بنتے چلے جارہے تھے لیکن وقت نے پلٹا کھایا اور حالات یکسر بدل گئے وہی طالبان کہ جن کی خاطر پاکستانی قوم جان کی بازی لگانے پر تلی تھی آج پاکستانی قوم کی جان کے درپے ہیں۔ مسلسل ہونے والے بم دھماکوں کے باعث طالبان کے خلاف عوامی نفرت کا سیلاب بڑھتا جارہا ہے جسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ تحریک طالبان نے اپنا مقصد اور ”نشانہ“ بدل لیا ہے یا پھر اس تحریک میں ایسے ”نقاب پوش“ شامل ہو چکے ہیں جن کا اس تحریک سے کوئی واسطہ نہیں اور وہ کسی اور مقصد لیے طالبان کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف افغان تحریک طالبان کے سربراہ ملا عمر بھی اپنی تحریک کو ”ہائی جیک“ ہونے سے بچانے کے لیے سر گرم عمل ہیں اور متعدد مرتبہ کسی نہ کسی ذریعے سے یہ بات سامنے لاچکے ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف نہیں اور نہ ہی پاکستان میں ہونے والی شرپسندانہ کاروائیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

ملا عمر کے ان نظریات کی وجہ سے ہی افغان طالبان، پاکستانی طالبان اور اب پنجابی طالبان کی اصلاحات سامنے آرہی ہیں۔ عسکریت پسندوں کے مقاصد اور نظریات الگ الگ ہیں لیکن نام کے ساتھ طالبان ضرور لگا ہوا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملا عمر کی تحریک طالبان میں ”نقاب پوش“ شامل ہو چکے ہیں۔ یہاں ”نقاب پوش“ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا اصل تحریک طالبان سے کوئی تعلق نہیں لیکن وہ ان کی صفوں میں شامل ہو کر اپنا ”کام“ کر رہے ہیں ان میں بھارت کی خفیہ ایجنسی ”را“ اسرائیل کی موساد، افغانستان کی ”خاد“ اور ”رام“ امریکہ کی سی آئی اے سمیت دیگر خفیہ ایجنسیوں کے ”تنخواہ دار“ بھی شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق ماضی میں آئی آیس آئی سے رابطے میں رہنے والے بعض طالبان ، جو آئی ایس آئی کی گرفتاری کے خوف سے پاکستان چھوڑ کر بنکاک چلے گئے اب بھارتی سی بی آئی سے رابطوں میں ہیں اسی طرح پہلے دور کے طالبان سے بھارتی خفیہ ادارے سی بی آئی نے بات چیت شروع کر رکھی ہے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مارچ 2010 میں طالبان کے اہم رہنماﺅں کو ایک عرب ملک کے توسط سے دہلی کے دورے کی دعوت بھی دی گئی اس کئے بعد یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ حج کے موقع پر بھی ان خفیہ اداروں نے اہم جہادی کمانڈروں مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جس کے لیے ایک اہم پاکستانی سیاستدان کی خدمات حاصل کرنے کا پروگرام بنایا گیا حج سے کچھ دن قبل اس لیڈر نے واضح طور پر کہا کہ ابھی مجھ سے مذاکرات کے لیے رابطہ نہیں کیا گیا میں سعودی عرب جا رہا ہوں اگر رابطہ کیا گیا تو ہر ممکن مدد کروں گا یہ لیڈر جہادی حلقوں کے قریب سمجھے جاتے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق 4سو سے زائد طالبان ”را“ سے رابطوں میں ہیں۔

”را“ ۔ سی بی آئی اور سی آئی سے رابطوں میں رہنے والے ان طالبان کو ”نقاب پوش“ کا نام دیا جا سکتا ہے کیونکہ ان سے ”را“ سی بی آئی اور سی آئی اے اپنا مطلب پورا کرنے میں مصروف ہے اور انہی کی بدولت ملا عمر کو طالبان تحریک کو بدنامی سے بچانے کے لیے ”لائحہ “ نام قانون تیار کرنا پڑا اور بالآخر افغان طالبان اور ان شدت پسندوں یا نقاب پوشوں کے درمیان اختلافات سامنے آنے لگے جس کی ایک مثال پاکستان میں ہونے والے خود کش حملے بھی ہیں۔ یاد رہے کہ طالبان تحریک(افغانستان) کے امیر ملا عمر کبھی بھی پاکستان میں خود کش حملوں کے حق میں نہیں رہے اور وہ مختلف ذرائع سے اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں بلکہ یہاں تک ہوا کہ انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کو ماضی میں یہ پیغام بھی بھیجا کہ وہ پاکستان پر حملہ نہیں کریں گے۔

دوسری طرف خود کو طالبان کہلوانے والے نقاب پوشوں نے پاکستان میں خود کش حملے جاری رکھے یہ وہ لوگ تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کے خلاف تھے یا پھر وہ لوگ ہیں جنہوں نے غیر ملکی ہاتھوں میں کھیلنا شروع کر دیا اور سی آئی اے اور را کے لیے کام کرنا شروع کر دیا اس کی تازہ مثال آئی ایس آئی کے دو سابق افسران اور افغان جہاد میں نمایاں کردار ادا کرنے والے کرنل(ر) امام سلطان امیر طرار المعروف کرنل امام اور اسکوارڈن لیڈر(ر) خالد خواجہ کا اغوا بھی ہے۔

طالبان نے اپنے ہی ”استاد“ کو اغوا کیوں کیا؟

مارچ2010ءمیں جہاں افغان طالبان اور پاکستان میں موجود شدت پسندوں کے درمیان اختلاف کھل کر سامنے آگئے وہاں دوسری طرف بہت سے انکشافات بھی ہوئے۔ طالبان اس سے پہلے بھی متعدد لوگوں کو اغوا کر چکے ہیں ان میں سے بعض کو چھوڑ دیا گیا اور بعض کی گردنیں کاٹ کر ان کی ویڈیو جاری کر دی گئی۔ ایسی ویڈیو آج بھی بہت سے لوگوں کے موبائل اور کمپیوٹر میں محفوظ ہیں لیکن اس مرتبہ طالبان نے جن افراد کو اغوا کیا ان کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ طالبان ان کو بھی اغوا کر سکتے ہیں۔

اغوا ہونے والے کرنل امام کو جہادی حلقوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ان کے نہ صرف طالبان سے اچھے تعلقات رہے ہیں بلکہ انہیں طالبان کا حربی استاد بھی کہا جاتا ہے کرنل امام کے ساتھ ساتھ اغوا ہونے والے دوسرے شخص اور آئی ایس آئی کے سابق آفیسر اسکوارڈن لیڈر خالد خواجہ کے بھی طالبان سے اچھے تعلقات رہے ہیں ان کے طالبان اور القاعدہ سے اس قدر گہرے مراسم تھے کہ انہوں نے اسامہ بن لادن اور پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے مابین ملاقات بھی کروانے کا دعویٰ کیا ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ماضی میں اسامہ بن لادن کے پائلٹ کے فرائض بھی انعام دے چکے ہیں۔

کرنل امام اور خالد خواجہ کے اسی بیک گراﺅنڈ کی وجہ سے میرے سامنے یہ اہم سوال تھے کہ طالبان نے اپنے ان ”استادوں“ اور ”جہادیوں“ سے رابطے میں رہنے والے اہم افراد کو اغوا کیوں کر لیا اور بعد ازاں خالد خواجہ کا قتل کیوں کیا؟ اس لائن کو مدِنظر رکھتے ہوئے جب تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ ان ”اہم“ افراد کی ہمدردیاں افغان طالبان کے ساتھ تھیں اور ان کے ”کارنامے“ بھی زیادہ تر ملا عمر سے منسلک جہادیوں کے حوالے سے تھے اسی طرح یہ افراد پاکستان میں ہونے والے خود کش حملوں کے خلاف تھے جبکہ دوسری طرف وزیرستان میں جو ”جہادی“ کام کر رہے ہیں وہ فی الوقت ملا عمر کے زیر سایہ نہیں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ گروپ پاک آرمی اور آئی ایس آئی کے بھی سخت مخالف ہیں جس کی وجہ سے ان کے نزدیک ان دونوں افراد کی وہ اہمیت نہیں ہے جو کہ افغان جہادیوں کی نظر میں ہے لیکن اس کے باوجود انہیں جہادیوں کے نزدیک ان دونوں افراد کی اہمیت اور قدرومنزلت کا بخوبی علم تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ کرنل امام اور خالد خواجہ کے اغوا کے بعد انہیں جہادیوں کی طرف سے کتنا شدید دباﺅ کا سامنا کرنا پڑے گا اسی لیے اغوا کاروں نے اپنی تنظیم کے اصل نام کی بجائے ”ایشین ٹائیگرز“ کا غیر معروف نام استعمال کیا۔

جہادی حلقے اور تجزیہ نگار ”ایشین ٹائیگرز“ کے حوالے سے خاموش ہیں اور اس نام کے حوالے سے معلومات نہیں رکھتے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے بھی اپنے ایک بیان میں یہی کہا ہے کہ ایشین ٹائیگرز کا نام سن کر میں حیران ہوا ہوں معلوم نہیں اس تنظیم میں کون لوگ شامل ہیں۔

ایشین ٹائیگرز“ کی آڑ میں کون سی تنظیم کام کر رہی ہے؟

اس کیس کے دوران میرے سامنے ایک اہم سوال یہ بھی تھا کہ ایشین ٹائیگرز کا نام لے کر کس تنظیم نے خالد خواجہ، کرنل امام اور اسد قریشی کو اغو کیا اور پھر خالد خواجہ کو قتل کر دیا؟ یہ سوال اس لیے بھی خاصی اہمیت کا حامل تھا کہ اغوا کاروں کی طرف سے ایشین ٹائیگرز کا نام استعمال کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک غیر معروف نام ہے اور بیشتر جہادی بھی اس نام سے واقف نہیں۔ اس تنظیم کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں اور نہ ہی اس سے پہلے یہ نام سننے میں آیا۔

چونکہ تحقیقات کے دوران چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا اس لیے میرے سامنے یہ سوال بھی موجود تھا کہ اگر اس نام سے کوئی نئی تنظیم بنی ہے تو اس میں کسی تنظیم کے لوگ شامل ہوئے ہیں کیونکہ ”جہادی گروپ“ ایک دم سے نہیں بن جاتے اور نہ ہی آغاز میں تربیت یافتہ افراد اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس لیے یہ لازمی بات ہے کہ ہر نئی تنظیم کے پیچھے کسی پرانی تنظیم یا جہادی لیڈر کا ہاتھ ہوتا ہے مجھے اسی تنظیم یا کمانڈر کا نام پتا کرنا تھا۔

اس نقطہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے جب میں نے تحقیقات کا دائرہ کار بڑھایا اور معلومات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی تو ایشین ٹائیگرز کے پس پردہ کام کرنے والی تنظیم کا نام سامنے آگیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان سکیورٹی اسٹبلشمنٹ اور خالد خواجہ کے قتل کی تحقیقات کرنے والوں کو یقین ہے کہ یہ کام حرکت الجہاد الا سلامی کا ہے ذرائع کے مطابق حرکت الجہاد الا سلامی پاکستان چیپڑ کے سربراہ قاری سیف اﷲ ہیں جب کہ اس کی آزاد کشمیر شاخ کی قیادت الیاس کشمیری کر رہے ہیں۔ الیاس کشمیری کو حالیہ چند ماہ سے القاعدہ کی حاشیہ بردار، امریکہ مخالف تنظیم ”لشکر ظل“ کا بھی سربراہ بتایا جارہا ہے۔ یاد رہے اس سے پہلے یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ الیاس کشمیری ڈرون حملے میں نشانہ بن گئے تھے پاکستان اور خصوصاً پنجاب میں ہونے والے سکیورٹی اداروں پر حملوں کے پیچھے بھی الیاس کشمیری کا نام بتایا جاتا ہے۔ قاری سیف اور الیاس کشمیری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بیت اللہ محسود کے لیے کام کرتے تھے اور ان کا شمار بیت اللہ محسود کے اہم کمانڈرو ں میں ہوتا تھا ۔لیکن بات یہاں تک محدود نہیں تھی ۔ ان کا تعلق جس کیمپ سے بتایا جاتا ہے وہاں اکثر کام باہمی رابطوں کے ذریعے ہوتے ہیں ۔عثمان پنجابی نے کس کے لیے یہ کام کیا اس کا درست اندازہ اس وقت تک مشکل تھا جب تک پس پردہ رہنے والا اصل ماسٹر مائنڈ سامنے نہ آجاتا بہرحال اسے سامنے آنا ہی تھا ۔اور پھر کرنل امام اس شخص کے سامنے آنے کا باعث بنے ۔۔۔

اغوا سے قبل کرنل امام اور خالد خواجہ نے کس سے ملاقات کی؟

کرنل امام اور خالد خواجہ کے حوالے سے تحقیقات کے دوران ایک اہم سوال یہ بھی تھا کہ اغوا ہونے سے قبل انہوں نے کسی سے ملاقات کی اور اس شخص نے انہیں کیا مشورہ دیا اسی طرح وزیرستان جاتے وقت وہ کس سے رابطے میں تھے؟ انہوں نے وزیرستان کا سفر کن کے کہنے پر شروع کیا؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہیں کہ انہوں نے جن سے ملاقات کی اور جن سے رابطے میں تھے وہ ان کے مقصد اور اغوا کے حوالے سے بھی بہت کچھ جانتے ہوں گے۔ اسی طرح اس ساری کہانی میں وہ شخص بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے جس نے انہیں وزیرستان جانے کا کہا۔

تحقیقاتی حوالے سے کام کرنے والے افراد بخوبی جانتے ہیں کہ تحقیقات کے دوران چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی بعض اوقات خاصی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور تحقیقات کے دوران کڑی سے کڑی ملانے کا عمل جاری رہتا ہے یہی کڑیاں بعد میں مل کر ایک مکمل کہانی کو جنم دیتی ہیں ایک ذرا سا جھول پوری کہانی کو ضائع کر دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات تحقیقاتی صحافی کو معمولی سی بات معلوم کرنے کے لیے جان کی بازی لگانی پڑتی ہے اور کئی دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ جس راز کو جاننے کے لیے صحافی جان خطرے میں ڈال دیتا ہے اس کا پوری کہانی میں ذکر ہی نہیں ہوتا کیونکہ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ مطلوبہ شخص یا فائل کا اس کہانی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

بہرحال ان افراد کے حوالے سے جب تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ بظاہر تو کرنل امام اور خواجہ خالد ایک پاکستانی نثراد برطانوی صحافی اسد قریشی کی مدد کے لیے وزیرستان گئے تھے۔برطانوی صحافی اسد قریشی ”جہادیوں“ کے حوالے سے ایک ڈاکو منڑی بنانا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں انہیں بعض طالبان کمانڈروں سے انٹر ویو کرنے تھے۔ خالد خواجہ اس سارے معاملے میں ذاتی دلچسپی لے رہے تھے اور انہوں نے کرنل امام کو بھی اپنے ساتھ چلنے کا کہا۔ کرنل امام نے شروع میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا شاید انہیں اندازہ تھا کہ پاکستان میں کام کرنے والے ”جہادی“ اور تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے کئی گروپ اب ملا عمر کے قبیلے میں نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ملا عمر کے احکامات کے پابند ہیں بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ کرنل امام کی ہچکچاہٹ اور خدشات درست تھے انہیں خالد خواجہ کی نسبت حالات اور بدلتی ہوئی صورت حال کا بخوبی اندازہ تھا لیکن بالآخر خالد خواجہ انہیں قائل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

اب یہ سوال پیدا ہو گیا کہ اس حوالے سے انہوں نے کس سے مشورہ کیا؟ کیا کوئی شخص انہیں وزیرستان آنے پر اکسا رہا تھا؟ اس سلسلے میں جو انکشافات ہوئے اس میں اس شخص کا نام بھی سامنے آگیا جس سے خالد خواجہ رابطے میں تھے۔ ذرائع کے مطابق خالد خواجہ وزیرستان جانے سے پہلے عثمان پنجابی نامی شخص سے رابطے میں تھے وہ کافی پُر امید تھے کہ ماضی میں طالبان سے رابطے ان کا کام آسان کر دیں گے لیکن عثمان پنجابی درحقیقت ایک پھندا تھا۔ آخری مرتبہ انہیں میر علی میں دیکھا گیا اور پھر وہ اس پھندے کا شکار ہو گئے اور انہیں ”جہادیوں“ نے ”چھاپ“ لیا۔

میرے سامنے یہ بات بھی آئی کہ وزیرستان جانے سے قبل خالد خواجہ ، کرنل امام کو ساتھ لے کر ایک سابق رکن اسمبلی جاوید ابراہیم پراچہ سے بھی ملاقات کرنے گئے۔ جاوید پراچہ نے اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا۔ ”خالد خواجہ25مارچ کو کرنل امام کے ساتھ ان کے گھر پر آئے اس وقت ان کے ساتھ ایک برطانوی صحافی بھی تھا۔ خواجہ چاہتے تھے کہ میں شمالی وزیرستان کے اس سفر میں ان کی مدد کروں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شاید خواجہ امریکیوں اور طالبان کے مابین رابطے استوار کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن مجھے طالبان سے یہ پیغام ملا کہ تمہارے دوست کو خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔ جاوید پراچہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے خواجہ کو نصیحت کی کہ وہاں نہ جائیں ان کے الفاظ تھے کہ میں نے کرنل امام سے بھی درخواست کی کہ وہ خطرہ مول نہ لیں کرنل امام کچھ ہچکچا رہے تھے لیکن خالد خواجہ نے اصرار جاری رکھا اور میرے مشورے کے برخلاف میر علی روانہ ہو گئے ۔یاد رہے کہ جاوید پراچہ اور خالد خواجہ دونوں کے لال مسجد کے علما سے بھی قریبی تعلقات تھے۔ لال مسجد سانحے کے وقت جاوید پراچہ وفاقی وزیر اعجاز الحق کے ہمراہ عبدالرشید غازی اور مولانا عبدالعزیز سے ملے اور ان سے ہتھیار پھینکنے کی درخواست کی لیکن خالد خواجہ نے اس کی مخالفت کی تھی۔

اسی طرح اغوا کاروں کی طرف سے جو ویڈ یو جاری کی گئی اس میں آئی ایس آئی کے سابق افسران نے کہا ہے کہ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کے کہنے پر وزیرستان کا سفر کیا تھا جبکہ بعد میں ، میں نے ایک انٹرویو کے دوران جنرل حمید گل سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے واضح طور پر اس سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ”میں نے نہیں بھیجا تھا “، جب میں نے اس ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے تو ویڈیو بھی منظر عام پر آ گئی ہے جس میں انہوں نے خود کہا ہے کہ انہیں آپ نے بھیجا تو جنرل حمید گل نے کہا وہ صرف خالد خواجہ کی ویڈیو آئی ہے اور اس سے اغوا کرنے والوں نے زبردستی کہلوایا ہے کرنل امام نے ایسا کچھ نہیں کہا ۔ حمید گل نے یہ بھی کہا کہ اگر میں نے بھیجا ہوتا تو بتا دیتا کہ میں نے بھیجا تھا وہ میرے آئی ایس آئی کے پرانے ساتھی ہیں ، اور جب اما م (کرنل امام )رہا ہو کر آئے گا تووہ خود میرے حق میں گواہی دے دے گا ۔ لیکن جنرل حمید گل کی گواہی دینے کے لیے کرنل امام کبھی واپس نہ آسکے اور انہیں قتل کر دیا گیا ۔ افغان طالبان کو تیار کرنے اور افغان جنگ میں اہم کردار ادا کرنے والے جنرل حمید گل نے میرے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ امام (کرنل امام) جیسا مجاہد جسے دنیا جانتی ہے اسے اغوا کرنے والوں کے بارے میں ، میں بار بار کہتا ہوں کہ وہ مجاہد نہیں ہیں۔

جہادیوں نے اسامہ بن لادن کے ”دوست“ خالد کو کیوں قتل کیا؟

26مارچ2010ءکو وزیرستان کے علاقے میر علی سے اغوا ہونے والے ان اہم افراد کے اغوا کی خبر ابھی گرم ہی تھی اور جہادی حلقے ان کے اغوا پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے اپنے اندازے قائم کر ہی رہے تھے کہ اغوا کاروں نے ماہ اپریل کا آخری دن خالد خواجہ کے آخری دن میں بدل دیا۔ خالد خواجہ کی کہانی ختم ہو گئی ۔

خالد خواجہ کے قتل کے ساتھ ہی یہ سوال اٹھا آخر اغوا کاروں نے خالد خواجہ کو قتل کیوں کر دیا۔ یہ سوال اس لیے بھی اہم تھا کہ ماضی میں خالد خواجہ کے طالبان سے گہرے تعلقات رہے ہیں وہ نہ صرف وزیرستان جاتے وقت پر اعتماد تھے اور بلکہ عثمان پنجابی نامی جہادی سے رابطے میں بھی تھے اس کے باوجود اغوا کاروں نے سب سے پہلے خالد خواجہ کی بلی دے دی ۔

خالد خواجہ کو اغوا کرنے والی ”ایشین ٹائیگرز“ نامی غیر معروف تنظیم نے ان کے قتل کی جو وجہ بتائی اس کے مطابق خالد خواجہ جولائی 2007ء کے لال مسجد کے سانحے میں ملوث تھے اور نہ صرف اس سانحے کے ذمہ دار تھے بلکہ امریکہ کے لیے جاسوسی بھی کرتے تھے۔ اسی طرح ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ ان کے اغوا کے اور حکومت نے سنجیدگی سے اغوا کاروں کے مطالبات پر غور نہیں کیا تھا۔ درحقیقت یہ اس کی اصل وجہ نہیں ہے کیونکہ تحقیقات کے دوران میرے سامنے یہ انکشاف ہوا کہ خالد خواجہ اپنے اغوا سے چند ہفتے قبل شمالی وزیرستان میں طا لبان رہنما ولی الرحمن محسود سے ملے اور انہیں عسکریت پسندوں کی ایک فہرست دی اور الزام عائد کیا کہ یہ لوگ بھارتی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرتے ہیں۔

اس ملاقات کے چند ہی گھنٹوں بعد ولی الرحمن محسود کی گاڑی پر امریکی ڈرون نے حملہ کر دیا لیکن طالبان کمانڈر اس حملے میں بچ گئے۔ ولی الرحمن نے فوراً پنجابی طالبان کو اس صورت ِ حال سے آگاہ کیا کہ خالد خواجہ کے حوالے سے محتاط رہیں اس پر پنجابی طالبان نے خالد خواجہ کو ٹریپ کرنے کا منصوبہ بنایا اور پھر اپنے منصوبے پر کامیابی سے عمل کر لیا شاید یہی وجہ تھی کہ خالد خواجہ کو قتل کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا اور سب سے پہلے خالد خواجہ کو گولیاں ماری گئیں۔

دوران تحقیقات یہ بھی معلوم ہوا کہ قتل سے پہلے عسکریت پسندوں نے تین رکنی ٹیم تشکیل دی تھی جس نے خالد خواجہ کے حوالے سے چار ہفتے سے زائد عرصہ تک تحقیقات کیں اور پھر خالد خواجہ کے لیے سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا۔ خالد خواجہ نے بتایا کہ انہوں نے لاہور ہائیکورٹ میں نواز لیگ کے سابق رکن اسمبلی جاوید ابراہیم پراچہ کے ساتھ مل کر ایک درخواست دائر کی ہے اور وہ شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے افراد کے بیانات ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں تاکہ انہیں عدالت میں پیش کیا جا سکے لیکن وہ عسکریت پسندوں کو مطمئن نہ کر سکے اور انہوں نے خالد خواجہ سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے کہ ایک طرف تو وہ ڈرون حملوں کی مخالفت کر رہا ہے اور دوسری طرف وہ امریکہ اور طالبان میں رابطہ کرانے کی کوشش کر بھی کر رہا ہے۔

بعض ذرائع اس واقعہ میں افغان حکومت کے ملوث ہونے کا اشارہ بھی دے رہے ہیں اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ کرنل امام خالد خواجہ اور اسد قریشی کو اغوا کرنے والوں نے ان کے بدلے پاکستان ایجنسیوں کی قید میں موجود افغان طالبان رہنما عبدالغنی برادر، عبدالکبیر اور منصور داد اﷲ کی رہائی کا مطالبہ کیا جبکہ دوسری طرف حامد کرزئی ملا برادر کی گرفتاری پر کافی سیخ پا تھے کیونکہ وہ ان کے ساتھ ملاقات کر کے ایک طرف تو امریکہ کو مطمئن کر رہے تھے تو دوسری طرف کرزئی ملا برادران پریہ احسان جتلا رہے تھے کہ وہ ان کے ہم قبیلہ یعنی پوپلزئی ہیں اس وجہ سے وہ طالبان کو اقتدار میں لا کر اپنے قبیلے کی اقتدار پر گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں اس لحاظ سے یہ افغان حکومت کی کارستانی قرار دی جارہی ہے جس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ بھی ہے تاکہ پاکستان جو کہ امریکہ کو صاف صاف کہ چکا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات سے باہر نہیں رہ سکتا، کا پتہ صاف کیا جا سکے۔

ان تمام وجوہات کے باوجود ایک بات صاف ہے کہ خالد خواجہ کے قتل کے پیچھے ان لوگوں کا ہاتھ ہے جو اسٹبلشمنٹ ، افغان مجاہدیں اور پاکستان شدت پسندوں کے درمیان کوئی معاہدہ ہوتا نہیں دیکھتا چاہتے۔

کیا واقعی جہادی خالد خواجہ کے قتل کی ٹھوس وجہ نہ بتا سکے؟

آئی ایس آئی کے سابق آفیسر خالد خواجہ کے اغوا اور قتل کے بعد میرے سامنے یہ سوال بھی تھا کہ جہادیوں نے خالد خواجہ کے قتل کی جو وجوہات بتائی ہیں ان کی حقیقت کیا ہے؟ کیا واقعی وہ درست ہیں یا ان میں کوئی خامی یا ”ویک پوائنٹ“ موجود ہے؟ اس لائن پر جب مزید تحقیقات کی گئیں تو انکشاف ہوا کہ جہادیوں کی طرف سے خالد خواجہ کے قتل کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں ان میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خامی ضرور ہے۔

اغوا کاروں نے خالد خواجہ کی فرد جرم میں ایک وجہ یہ بتائی کہ وہ لال مسجد کے سانحے کے ذمہ دار تھے جبکہ دوسری طرف اسی لال مسجد سانحے کے ایک بڑے کردار مولانا عبدالعزیز نے ہی خالد خواجہ کی نماز جنازہ پڑھائی جس سے خالد خواجہ کا یہ ”جرم“ خود بخود رد ہو جاتا ہے۔ یاد رہے کہ لال مسجد کے علماء کرام سے خالد خواجہ کے قریبی تعلقات تھے اور جن مولانا نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی وہ سانحہ لال مسجد کے دوران برقعہ میں فرار ہوتے ہوئے گرفتار ہو گئے تھے جبکہ ان کے بھائی اور والدہ گولیوں کا نشانہ بن کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ خالد خواجہ کو لال مسجد سانحے کا ذمہ دار سمجھتے تو کیا ان کی نماز جنازہ پڑھاتے؟

اسی طرح خالد خواجہ کو اغوا کرنے کے بعد اغوا کاروں نے جو مطالبہ کیا اس میں ان کے بدلے افغان طالبان رہنما عبدالغنی برادر، عبدالکبیراور منصور داد اﷲ کی رہائی کا کہا تھا جب کہ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ عبدالکبیر تو گرفتار ہی نہیں ہوئے جبکہ منصور داداﷲ کو بھی پاکستانی حکام نے افغان بارڈر کی بجائے بلوچستان میں ہونے والی ایک جھڑپ میں زخمی حالت میں گرفتار کیا تھا ان کے بارے میں مزید معلوم ہوا ہے کہ وہ اب افغان تحریک کا حصہ بھی نہیں رہے اور خود کو افغان تحریک سے الگ کر چکے ہیں کیونکہ انہیں شک ہے کہ ہلمند میں نیٹو کے حملے میں ہلاک ہونے والے بھائی داد اﷲ اخوند کی ہلاکت میں چند طالبان کمانڈر ملوث ہیں۔

ان باتوں کو مدنظر رکھیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اغوا کار خود بھی مکمل طور پر کلیئر نہیں تھے یا پھر خالد خواجہ کے قتل کی اصل وجہ بتانا نہیں چاہتے تھے شاید اسی لیے ٹھوس اور کمزوریوں سے مبرا دلیل نہ دے سکے اگر ان پوائنٹس پر غور کر یں تو ایسے لگتا ہے جیسے خالد خواجہ کے قتل کا فیصلہ پہلے سے ہی کہیں اور ہو چکا تھا جس پر صرف عمل در آمد کیا گیا جس کے لیے عثمان پنجابی نے بھی اہم کردار ادا کیا ۔

یہی وجہ تھی کہ طالبان کے ایک طاقتور کمانڈر حافظ گل بہادر اپنی بھر پور کوششوں کے باوجود خالد خواجہ کو بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن خالد خواجہ کے لیے ہمدردی بھرے جذبات رکھنے والے طالبان کی طرف سے اغوا کاروں پر اتنا شدید دباﺅ تھا کہ انہوں نے ڈیڈ لائن کے طور پر جو وقت دیا اس سے پہلے ہی خالد خواجہ کی زندگی کا فیصلہ کر دیا لیکن یہ سچ ہے کہ اغوا کار دوسرے طالبان گروپوں کی مخالفت مول لے کر وزیرستان میں آسانی سے نہیں رہ سکتے تھے دوسری طرف خالد خواجہ کے قتل کے بعد کرنل امام کو اپنا استاد اور ہمدرد سمجھنے والوں کی تشویش اور بے چینی میں مزید اضافہ ہو گیا اور انہوں نے اغوا کاروں پر دباﺅ بڑھا دیا۔

طالبان کسی بھی صورت اپنے لیے نیک جذبات رکھنے والے اس اہم دوست کو کھونا نہیں چاہتے تھے اس لیے کرنل امام کو بچانے کے لیے وزیرستان کا ایک اہم اور بڑا جہادی حقانی گروپ میدان میں اترا۔ حقانی گروپ کی قدرو منزلت اور طاقت سے تقریباً تمام جہادی بخوبی واقف ہیں۔ کرنل امام کی رہائی کے لیے جہادیوں نے باقاعدہ جرگہ بلایا جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ اغوا کار کرنل امام کو قتل نہیں کریں گے بلکہ حقانی گروپ کے حوالے کر دیں گے پھر حقانی گروپ کرنل امام کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے۔ چاہے تو رہا کر دے چاہے تو قتل کر دے اور حقانی گروپ کے فیصلے پر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا۔

حقانی گروپ کے میدان میں اتر آنے کے بعد اس بات کے امکانات روشن ہو گئے کہ کرنل امام کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ رہا کر دیا جائے گا کیونکہ حقانی گروپ بھی کرنل امام کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس جرگے میں حقانی گروپ اور اغوا کاروں کے مابین شرائط کا تبادلہ بھی ہوا۔ اغوا کاروں نے ہوا کا رخ بدلتے دیکھ کر اپنے موقف میں لچک پیدا کی کیونکہ وہ دیکھ رہے تھے کہ ملا عمر کے حامی جہادی خالد خواجہ کے قتل اور کرنل امام کے اغوا پر بے چینی کا شکار تھے لہٰذا وہ کرنل امام کو تو حقانی گروپ کے حوالے کرنے پر رضامند ہو گئے لیکن برطانوی صحافی اسد قریشی کے بارے میں انہوں سخت موقف اختیار کرتے ہوئے یہ دلیل دی کہ اسد قریشی کا چونکہ جہادیوں پر کوئی احسان نہیں اور نہ ہی ان سے کوئی تعلق رہا ہے لہٰذا اس کے لیے ہمدردی دکھانے کی ضرورت نہیں اور اس کی قسمت کا فیصلہ ایشین ٹائیگرز خود کریں گے لہٰذا اسد قریشی کو یا اس کے چاہنے والوں کو اس کی رہائی کے لیے تاوان ادا کرنا ہو گا ورنہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اسد قریشی اور اس کے ڈرائیور کو بعد میں تاوان ادا کرنے پر چھوڑ دیا گیا ۔عین ممکن تھا کہ کرنل امام کو حقانی گروپ بچانے میں کامیاب ہو جاتا لیکن بعد میں کہانی نے ایک ایسا موڑ لیا جس نے سب کو چونکا دیا۔ حقانی گروپ سے معاہدہ کرنے والے کرنل امام سے بھی پہلے مار دیے گئے ۔ اور کرنل امام ایک اور گروپ کی قید میں چلے گئے ۔ اب بازی پلٹ چکی تھی۔حقانی گروپ اپنی منزل کے قریب پہنچ کر بازی ہار گیا اب انہیں نئے گروپ سے کوئی نیا معاہدہ کرنا تھا ۔ یہاں کرنل امام کے اغوا کی کہانی سنسنی خیز مراحل میں داخل ہو جاتی ہے ۔کرنل امام رہائی کے قریب پہنچ کر ایک مرتبہ پھر قید میں چلے گئے

کرنل امام کے قتل کی پراسرار کہانی؟

جب خالد خواجہ کو قتل کیا گیا تو میری ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع ہوئی ۔ میں نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ کا فوکس خالد خواجہ کو ہی رکھا اور کرنل امام کا ذکر مختصر طور پر کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کرنل امام شدت پسندوں کی قید میں تھے اور نہایت نازک مراحل سے گزر رہے تھے ۔ان کے ماضی اور شخصیت کے حوالے سے کوئی بھی بات ان کی زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی تھی ان دنوں کرنل امام کی رہائی کی امیدیں زندہ تھیں اور طالبان گروپوں میں ان کی رہائی کے لیے مذاکرات شروع ہو چکے تھے اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خالد خواجہ کسی حد تک” جہادی“ حلقوں میں متنازعہ ہو چکے تھے لیکن کرنل امام کا احترام برقرار تھا ، حقانی گروپ ان کی رہائی کے لیے میدان میں اتر چکا تھا جبکہ دوسری طرف طالبان کے امیر ملا عمر کی طرف سے بھی ایک ویڈیو پیغام آ گیا جس میں انہوں نے کرنل امام کو اغوا کرنے والوں سے درخواست کی تھی کہ وہ کرنل امام کو رہا کر دیں ایک رپورٹ کے مطابق اغوا کاروں نے کرنل امام کی ان کے گھر والوں سے بھی بات کروائی جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہیں کسی حد تک کچھ سہولتیں حاصل ہیں لہٰذا اس سارے پس منظر کو دیکھتے ہوئے ا ان کی رہائی کی امید کی جا رہی تھی اور ان دنوں کرنل امام کے حوالے سے کچھ لکھنا انہیں مشکلات سے دوچار کر سکتا تھا لیکن بالآخر اغوا کاروں نے کرنل اما م کو قتل کر دیا ۔

کرنل امام کا تعلق سپیشل سروسسز گروپ کمانڈوز سے تھا 1979 میں جب افغانستان میں سویت فوجیں داخل ہوئیں تو کرنل امام آئی ایس آئی کے ان پہلے افسروں میں سے تھے جنہیں سویت فوجوں کے خلاف گوریلا جنگ کی تربیت دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔کرنل امام ملٹری انٹیلی جنس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل بھی رہے انہوں نے امریکہ میں نارتھ کیرولینا میں فوجی تربیت کے ادارے فورٹ براگ میں گوریلا جنگ کی تربیت حاصل کی تھی اور ”گرین بیرٹ“ بھی حاصل کی ، کرنل امام کبھی امریکہ کی آنکھ کا تارہ ہوا کرتے تھے ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سویت فوجوں کی افغانستان میں شکست کے بعد انہیں وائٹ ہاﺅس میں دعوت دی گئی اور امریکی صدر جارج بش سینئر نے انہیں دیوار برلن کا ایک ٹکڑا دیا جس پر تحریر تھا”اس شخص کے لیے جس نے سویت یونین کو پہلا دھچکا لگایا“ دیوار برلن کا یہ ٹکڑا کرنل امام کے ڈرائینگ روم میں موجود ہے لیکن ستمبر 2001 میں افغانستان میں امریکی حملے کے بعد کرنل امام امریکہ کے سخت مخالف ہو گئے ۔طالبان کرنل امام کو اپنا استاد مانتے ہیں آپس کی لڑائیوں اور اختلافات کے باوجود افغان جہادیوں کا ہر دھڑا کرنل امام کی عزت اور احترام کرتا تھا ان میں طالبان اور شمالی اتحاد دونوں شامل تھے ۔کرنل امام کو جو ٹاسک دیا گیا انہوں نے اسے پورا کیا ۔وہ پاک آرمی کے ایک بہادر آفیسر تھے جنہوں نے اپنا مشن پورا کرنے کے لیے کئی مرتبہ جان کی بازی لگا دی ۔کرنل امام کو ان کی عسکری خدمات کے اعتراف میں ستارہ جرات ، تمغہ بسالت، اور ستارہ امتیاز ملٹری دیا گیا ۔

قارئین! یہ بات بالکل واضح ہے کہ خالد خواجہ کے قتل کے بعد کرنل امام کے حوالے سے جہادی حلقوں میں بے چینی نظر آنے لگی ۔مبینہ طور پر کرنل اما م کی زندگی کی ضمانت اہم طالبان نے لے رکھی تھی یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ بعض طالبان گروپ کرنل امام کے اہل خانہ سے بھی رابطے میں تھے اور انہوں نے یقین دہانی کرا رکھی تھی کہ کرنل امام کو قتل نہیں کیا جائے گا ۔ کرنل امام طالبان کے استاد سمجھے جاتے تھے اس لیے خالد خواجہ کے قتل کے بعد سے ہی یہ بات کہہ دی گئی تھی کہ اگر کرنل امام کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا تو اس کا مطلب ہو گا کہ قبائلی علاقہ جات میں آج بھی پاکستانائزیشن اور طالبانائزیشن کے مقابلے میں انڈیانائزیشن زیادہ مضبوط ہے ۔ قبائلی علاقوں میں یہ شاید تلخ حقیقت ہو لیکن اس بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ وہاں ”را“ نے کافی منظم انداز میں کام شروع کر رکھا ہے ۔ قبائلی ذمہ دار یہاں تک کہتے پائے گئے ہیں کہ بعض قبائلی ہندوستان نوازی اس انداز سے کر رہے ہیں کہ اب انہیں یہ احساس نہیں کہ وہ غلط کر رہے ہیں یا درست ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگلی نسل مرنے والوں کے ”مشن“ کو آگے لے کر چل رہی ہے ۔کرنل امام کے قتل نے یہ بات بھی ثابت کر دی کہ فاٹا میں حکومتی گرفت کمزور ہے ۔

کرنل امام کے اغوا کے بعد ایک اہم سوال یہ بھی تھا کہ کرنل امام کو اغوا کیوں کیا گیا ؟اغوا کاروں نے کرنل امام کو خالد خواجہ کی طرح فوری طور پر قتل نہیں کیا بلکہ کرنل امام تقریباً ایک سال کے لگ بھگ اغوا کاروں کی تحویل میں رہے ۔ان کا ماضی اور کارنامے اس سوال کی اہمیت میں مزید اضافہ کر دیتا ہے کرنل امام کے اغوا کے حوالے سے جو منظرنامہ سامنے آتا ہے اسے دیکھ کر بظاہر یوں لگتا ہے جیسے ابتدا میں کرنل امام براہ راست شدت پسندوں کا ٹارگٹ نہیں تھے بلکہ ان کا اصل ٹارگٹ خالد خواجہ تھے جنہیں اغوا کے چند روز بعد ہی گولیاں مار کر سڑک کے کنارے پھینک دیا گیا ۔اصل جال بھی خالد خواجہ کے گرد بنا گیا عثمان پنجابی ان سے مسلسل رابطہ میں تھا اور وزیرستان خوش آمدید کہہ رہا تھا ۔ کرنل امام آئی ایس آئی کے اپنے پرانے ساتھی خالد خواجہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے چھاپ لیے گئے شاید یہی وجہ تھی کہ امام کو خالد خواجہ کے ساتھ قتل کرنے کی بجائے ایک لمبا عرصہ قید میں رکھا گیا کیوں کہ وہ بہرحال اغوا کاروں کا براہ راست ٹارگٹ نہ ہوں تب بھی انہیں اغوا کرنے والے ان کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔

خالد خواجہ شاید کرنل امام کو اپنی سیفٹی کے لیے ساتھ لے جانا چاہتے تھے کیوں کہ ”جہادیوں “ میں کرنل امام استاد کا درجہ رکھتے تھے لیکن خالد خواجہ اور کرنل امام کی بدقسمتی یہ ہوئی کہ انہیں جس گروپ نے اغوا کیا وہ کرنل امام کا حمایت یافتہ نہیں تھا اور ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے والا اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھا ۔کرنل امام کئی مرتبہ ان لوگوں کے خلاف بول چکے تھے جو ملک میں دہشت گردی پھیلا رہے تھے وہ ہمیشہ یہ بات کہا کرتے تھے کہ اصل طالبان حقانی گروپ سے ہیں جبکہ تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے ان کا رویہ جارحانہ ہوتا تھا یہی وجہ تھی کہ کرنل امام کی ذات خالد خواجہ کی زندگی کی ضمانت نہ بن سکی کیوں کہ ان کو اغوا کرنے والے عثمان پنجابی کا کہنا تھا کہ کرنل امام ہمیشہ افغان مجاہدین کے گروپوں کی حمایت تو کرتا ہے لیکن ان کی حمایت نہیں کرتا ۔عثمان پنجابی کو کرنل امام کی یہ بات پسند نہ تھی لہذاخالد خواجہ کے اغوا اور قتل کے باوجود کرنل امام رہا ئی نہ پا سکے اور اغوا کاروں نے ان کی ذات اپنے مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔

کرنل امام کے اغوا کی اس کہانی نے اس وقت ایک اہم موڑ لیا جب انہیں اغوا کرنے والے عثمان پنجابی نامی شدت پسند کو اس کے ساتھی نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا ۔ہوا کچھ یوں کہ خالد خواجہ کے قتل کے بعد برطانوی صحافی اسد قریشی اور ان کے ڈرائیور رستم خان کو تاوان دے کر رہا کروا لیا گیا لیکن تاوان کی اس رقم کی وجہ سے اغوا کاروں میں پھوٹ پڑ گئی ۔ عثمان پنجابی نے کرنل امام ، خالد خواجہ، اسد قریشی اور رستم خان پر مشتمل اس ٹیم کو اغوا کرنے کے لیے اپنے مقامی ساتھی صابر محسود نامی جنگجو کی مدد لی تھی ۔پہلے تو حالات ٹھیک رہے لیکن بعد میں اسد قریشی اور رستم خان کے بدلے ملنے والی رقم کی تقسیم کے تنازعے کی وجہ سے عثمان پنجابی کی اپنے اسی مقامی ساتھی سے جھڑپ ہو گئی اور صابر محسود نے درپہ خیل میں عثمان پنجابی کو اس کے پانچ ساتھیوں سمیت مار ڈالا ۔

عثمان پنجابی تحریک طالبان کے پنجاب چیپٹر کا اہم ذمہ دار کمانڈر تھااور پنجاب میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں ، بم دھماکوں اور سکیورٹی اداروں پر ہونے والے حملوں میں ملوث تھا ۔تحریک طالبان میں اسے خاصی اہمیت حاصل تھی ، اس کے قتل سے تحریک طالبان کو جو نقصان پہنچا اس نے تحریک طالبان پاکستان کے امیر اور بیت اللہ محسود کے جانشین حکیم اللہ محسود کو سیخ پا کر دیا ۔حکیم اللہ محسود نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے صابر محسود کا اس کے ٹھکانے سے اغوا کر لیا ۔اسی شام صابر کی گولیوں سے چھلنی لاش میران شاہ کے قریب پڑی ملی ۔

قارئین ! یہاں پر کرنل امام کے ایک اغوا کی کہانی مکمل ہو جاتی ہے ۔کرنل امام کو اغوا کرنے والے آپس کی لڑائیوں میں مارے جا چکے تھے لالچ اور بدلے کی اس لڑائی میں ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا اور انہیں جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہاں سے کرنل اما م کے اغوا کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے ۔حکیم اللہ محسود صابر شاہ کے ٹھکانے سے کرنل امام کو بھی اٹھوا کر اپنے ساتھ لے آیا ۔28 اگست 2010 کے بعد کرنل امام براہ راست حکیم اللہ محسود کی قید میں چلے گئے یہ قید ان کی موت پر ختم ہوئی۔

حکیم اللہ محسود کا صابر شاہ کے ٹھکانے پر جانا اور کرنل امام کو اٹھو ا لانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس اغوا کے پیچھے کہیں نہ کہیں اس کا ہاتھ تھا ۔حکیم اللہ محسود کو علم تھا کہ کرنل امام کس کے پاس اور کس جگہ پر ہیں۔ اس کے علاوہ عثمان پنجابی جس نے کرنل امام کو اغوا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا وہ حکیم اللہ محسود کا اتنا اہم کمانڈر تھا کہ اس کے قتل کا بدلہ حکیم اللہ محسود نے خود لیا اور اس کے ساتھی کو جو کہ اس کی اپنی ہی تنظیم کا رکن تھا اغوا کر کے گولیاں مار دیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے اس اغوا کے ڈانڈے حکیم اللہ محسود سے ملتے ہیں البتہ جنہیں اغوا کیا گیا انہیں طالبان کے طاقتور گروپوں کی حمایت حاصل تھی غالباً اسی لیے شروع میں ایشین ٹائیگر کا نام استعمال کیا گیا جو کہ جہادی حلقوں کے لیے بھی ایک نیا نام تھا ۔

کرنل امام کے بدلے اغوا کار کیا چاہتے تھے؟

کرنل اما م کے اغوا کی اس کہانی کا ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اغوا کار کرنل امام کے بدلے کیا چاہتے تھے؟ اور انہوں نے امام کی رہائی کے بدلے کیا مطالبات پیش کیے اور یہ کہ وہ اپنے کن مطالبات اور مفادات کے حصول کے لیے کرنل امام کو قید رکھے ہوئے تھے ؟ اس حوالے سے جب تحقیقات کی گئیں تو مختلف مطالبات سامنے آئے اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ کرنل امام دو مختلف افراد یا گروپ کی قید میں رہے دوسرے الفاظ میں انہیں دو مرتبہ اغوا کیا گیا پہلی مرتبہ عثمان پنجابی اور صابر محسود نے کرنل امام کو اغوا کیا جبکہ دوسری مرتبہ حکیم اللہ محسود نے صابر محسود کو قتل کر کے امام کو اپنے قبضے میں کر لیا بظاہر کرنل امام کی رہائی کے لیے بھاری رقم کا مطالبہ کیا گیا لیکن یہ کلی طور پر ضمنی معاملہ ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں تھی کیوں کہ اگر تاوان کے بدلے کرنل امام کی رہائی ممکن ہوتی تو اسد قریشی اور رستم خان سے بھی پہلے کرنل امام کو رہا کروا لیا جاتا اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ قومی تحفظ اور سکیورٹی کے ادارے اس بات سے آگاہ تھے کہ کرنل امام کو اغوا کرنے والے ملک دشمن اداروں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ کرنل امام اہم ملکی رازوں کے امین تھےاس کے علاوہ کرنل امام کا احترام کرنے والے طالبان اور جہادی خاص طور پر افغان طالبان کے امیر ملا عمر اور پاکستان کے جلال الدین حقانی اس قابل ضرور تھے کہ اغواکاروں کی مطلوبہ رقم سے کئی گنا زیادہ رقم ادا کر کے کرنل امام کو رہا کر وا لیتے۔ذرائع کے مطابق کرنل امام کی رہائی صرف اس صورت ممکن تھی کہ اگر حکومت جی ایچ کیو اور پریڈ لین کے حملوں میں پکڑے جانے والے انتہائی اہم اور خطرناک دہشت گردوں کو رہا کر دیتی کیوں کہ اغوا کار کرنل امام کے بدلے جی ۔ایچ ۔کیو اور پریڈ لین کے حملوں میں پکڑے جانے والے دہشت گردوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے ۔اغوا کاروں کے اس مطالبے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان ”جہادیوں “ کا تعلق کس کیمپ سے ہے۔

ذرائع کے مطابق اگر معاملہ صرف تاوان کی رقم ادا کرنے سے حل ہو سکتا تو پھر خالد خواجہ بھی قتل نہ ہوتے ۔کرنل امام کے قتل کی اطلاعات کے ساتھ ہی ایک ایسی اطلاع بھی سامنے آئی جس نے جہادی امور پر گہری نظر رکھنے والوں کو چونکا دیا ۔اس خبر کے مطابق کرنل امام کو قتل کرنے والوں نے ان کی لاش کے بدلے 3 کروڑ مانگ لیے ۔جہادی امور کے ماہرین اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ طالبان لاش کے بدلے رقم کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ طالبان کے ہاں لاش پیغام کا کام کرتی ہے ۔جہادی عموماً لاش کو کسی سڑک کے کنارے پھینک دیتے ہیں یا پھر لاش کے ساتھ کوئی چٹ لگا دیتے ہیں جس پر اس حوالے سے کوئی پیغام درج ہوتا ہے ۔

آخری لمحات۔ ۔ ۔ کرنل امام کے ساتھ کیا ہوا؟

کرنل امام کے قتل سے پہلے یہ خبر پھیلائی گئی کہ امام کو قتل کر دیا گیا ہے ، اس کے ساتھ ہی یہ افواہ بھی پھیل گئی کہ کرنل امام کو کسی جہادی نے قتل نہیں کیا گیا بلکہ انہیں دل کا دورہ پڑا تھا جس سے وہ فوت ہو گئے ۔ان دنوں ان خبروں کی تصدیق نہ ہوسکی اور حکومتی سطح پر بھی اس کی تصدیق یا تردید نہ کی جاسکی ۔کرنل امام کے اہل خانہ کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان کے جس گروپ سے روابط ہیں انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ کرنل امام کو قتل نہیں کیا گیا اور نہ ہی وہ دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوئے ہیں بلکہ زندہ ہیں ان افواہوں کے کچھ دن بعد طالبان ترجمان احسان اللہ احسان کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کر دی گئی یہ ویڈیو میڈیا قوانین اور اصولوں کی وجہ سے کوئی بھی چینل مکمل اور واضح طور پر نہ دکھا سکا لہٰذا میرے لیے ضروری تھا کہ میں اپنے قارئین کو کرنل امام کے آخری لمحات سے آگاہ کروں ۔میں نے یہ ویڈیو کئی مرتبہ دیکھی اور ہر مرتبہ ایک نئے احساس سے دوچار ہونا پڑا ۔کرنل امام کا جہادیوں کے ہاتھوں اس انجام تک پہنچنا متوقع نہ تھا ۔

اس ویڈیو میں حکیم اللہ محسود اور کرنل امام کے علاوہ تقریباً باقی سب لوگ نقاب پوش ہیں اور جو نقاب پوش نہیں ہیں ان کا چہرہ چھپا لیا گیا یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے ارد گرد چند نقاب پوش اسلحہ تھامے کھڑے ہیں ایک لمحہ کے لیے کچھ دور ایک سفید کار بھی کھڑی نظر آتی ہے جس پر سے کیمرہ ہٹا لیا جاتا ہے کار کچھ اس رخ پہ کھڑی ہے کہ اس کی نمبر پلیٹ نظر نہیں آرہی۔ ویڈیو میں کرنل امام کو حکیم اللہ محسود کے سامنے پاﺅں کے بل بٹھایا گیا ہے اور حکیم اللہ محسود پشتو میں اپنا پیغام ریکارڈ کروا تے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے مل کر مسلمانوں سے لڑ رہے ہیں ان کا انجام موت ہے ، امریکہ کی شکست تک پاکستان اور افغانستان کے طالبان مل کر جنگ جاری رکھیں گے۔ویڈیو میں قتل سے قبل کرنل امام کو کھڑا کیا جاتا ہے ایک نقاب پوش ہاتھوں میں پسٹل تھامے کرنل امام کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے ۔اس وقت کرنل امام کی آستین اوپر تھیں وہ آستین ٹھیک کرتے ہیں اور سینہ تانے خاموشی سے اپنے قاتل کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ابھی کچھ دیر میں انہیں قتل کر دیا جائے گا اور ان کے سامنے کھڑا شخص ہی ان کا قاتل ہے لیکن وہ اضطراب کا شکار نظر نہیں آتے اور خاموشی سے کھڑے رہتے ہیں ۔قاتل بہت قریب سے کرنل امام پر گولیاں برساتا ہے ۔گولی لگنے سے وہ نیچے گر جاتے ہیں ،قاتل ان پر گولیاں برساتا چلا جاتا ہے گولیاں لگنے سے کرنل امام کے جسم کو جھٹکے لگتے ہیں اس کے بعد ان کی لاش کی تذلیل اس طرح کی جاتی ہے کہ ایک نقاب پوش ان کے چہرے کے قریب پاﺅں سے ٹھوکر لگاتا ہے اور اس طرح اس بات کی تصدیق کی جاتی ہے کہ ان کی زندگی میں رمق باقی نہیں ہے کرنل امام کی ہلاکت کے بعد شدت پسند ہاتھ اٹھا کر نعرہ لگاتے ہیں اس ویڈیو میں حکیم اللہ محسود کے لیے امیر المومینین تحریک طالبان پاکستان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔

کرنل امام کے اس انجام نے بہت سے لوگوں کو چونکنے پر مجبور کر دیا اپنے زمانے کے ایک اہم انٹیلی جنس آفیسر اور طالبان کو اپنا سٹوڈنٹ کہنے والے کرنل امام بالآخر انہی ”سٹوڈنٹس“ کے ہاتھوں اغوا کے بعد قتل ہو گئے ۔عمر بھر جہادیوں کی آنکھ کا تارہ بنے رہنے والے آئی ایس آئی کے سابق آفیسر کرنل امیر سلطان اور جہادیوں کے کرنل امام کی کہانی ”جہادیوں “ کے ہاتھوں 2011 کے آغاز میں ختم ہو گئی لیکن ایک نئی کہانی کا آغاز ہونے جا رہا ہے کیوں کہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اب کرنل امام کے حمایتی گروپوں اور ان کے قاتل گروپ کے درمیان حالات مزید کشیدہ ہو جائیں گے اور شاید حکیم اللہ محسود کو پہلے سے زیادہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا خانہ جنگی کی سی یہ صورت حال جتنی خطرناک ہو سکتی ہے اس کا اندازہ افغانستان کے حالات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جہاں روس کی شکست کے بعد جہادی آپس میں لڑ پڑے اور آج تک افغانستان کے حالات ٹھیک نہ ہو سکے کیونکہ ایسی لڑائیاں نسل در نسل لڑی جاتی ہیں اس کہانی کا ایک اہم رخ یہ بھی ہے کہ کرنل امام کی اس طرح ہلاکت کے بعد اب امریکہ بھی پاکستان پر یہ دباﺅ بڑھا سکے گا کہ کرنل امام کی موت اس بات کی متقاضی ہے کہ پاکستان شمالی وزیرستان میں فوری طور پر آپریشن کرے۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو اس قتل کے پیچھے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ امریکی ہاتھ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ (اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو آمین)
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 49740 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.