ایک لڑکے کو ایک لڑکی سے محبت ہوگئی۔لیکن اس کے گھر والے
کسی صورت رشتہ دینے کیلئے آمادہ نہیں تھے۔اور لڑکی کا رشتہ کہیں اور طے کر
دیا۔آخر رخصتی کا دن آپہنچا۔بارات آگئی اور لڑکی کی رخصتی کی تیاری ہونے
لگی۔
ادھر لڑکی کے عاشق کی جان پر بن آئی۔اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا
کرے تھوڑی دیر بعد اس کی محبوبہ ہمیشہ کے لئے پرائی ہو جائے گی۔آخر دوڑتا
ہوا مسجد کے امام کے پاس چلاگیا اور اس سے تمام ماجرا کہہ ڈالا۔اور درخواست
کی کہ وہ کچھ کرے۔امام صاحب نے اسے سمجھایا کہ دیکھ میں ملا آدمی ہوں کوئی
شرع کا مسئلہ ہو تو بتا دو ان باتوں کے لئے کسی پیر فقیر کو ڈھونڈو۔
لیکن لڑکا مصر تھا کہ وقت کم ہے جو کرنا ہے تم نے ہی کرنا ہے۔آخر تنگ آکر
اس نے قلم اٹھایا اور تعویز لکھ کر اس کے حوالے کر دیا اور تاکید کی کہ اسے
شادی والے گھر کے صحن میں پھینک دے۔
اس نے جیسے ہی تعویز صحن میں پھینکا باراتیوں اور لڑکی والوں میں کسی بات
پر جھگڑا ہوگیا اور بارات لڑکی کے بغیر واپس چلی گئی۔لڑکی والے پریشان تھے
کہ دلہن تیار بیٹھی ہے اس طرح تو بڑی بد نامی ہوگی۔آخر اس بات پر اتفاق ہوا
کہ لڑکی کے پرانے عاشق کو دولہا بنا دیا جائے اور رخصتی کر دی جائے۔
لڑکے کو ہار پہنا کر دولہا بنا دیا گیا اور رخصتی ہوگئی۔لڑکا حیران تھا کہ
یا اللہ یہ کیسا تعویز تھا جس نے ناممکن بات کو ممکن بنا دیا۔
رات کو چپکے سے لڑکی کے گھر میں آیا اور تعویز تلاش کرنے لگا۔تعویز ملا اسے
کھول کر دیکھا تو لکھا ہوا تھا۔
"یا اللہ میں جانتا نہیں اور یہ مانتا نہیں اے اللہ تو جانے اور تیرا کام"
|