برادرم عبدالخالق ہمدرد کیساتھ اسلام أباد چاٸے خانہ کا
لطف ابھی بھولا نہیں۔ وہی سے ہمیں علامہ سلاجیتی کا لقب ملا تھا۔ کیونکہ ہم
نے منیجر کو سلاجیت کی لالچ دے کر ٹیبل ریزرو کروانے میں کامیابی حاصل کی
تھی ورنا وہاں کثرت ازدحام کی وجہ سے جگہ ملنا دشوار ہوتا۔اسی چاٸے خانہ
میں دوسری دفعہ برادرم اسرار مدنی کی معیت میں جانے کا اتفاق ہوا تھا۔چاٸے
خانہ اسلام أباد میں داخل ہوتے ہی ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے ۔ہلکے Songs
کیساتھ دھیمی روشنی میں ماحول خالص *فریبانہ* سا ہوجاتا ہے۔ ایسے میں مجھ
جیسے لوگوں کی *عقد ثانی* کی خواہش دو أتشہ بلکہ برأنگیختہ ہوجاتی ہے۔پھر
احباب کی معیت کے باجود خوابوں میں کھو جانا پڑتا ہے۔
أج *چاٸے خانہ گلگت* واقع غزنوی چوک میں چاٸے نوشی کا موقع ملا۔چاٸے خانہ
گلگت سے ہمیں برادرم فضل کریم ڈپٹی ڈاٸریکٹر ایجوکیشن نے متعارف کرایا تھا۔
ہم خود ذوق کی تسکین کے لیے وہاں پہنچے تھے لیکن اتفاق سے وہ بھی وہاں أ
دھمکے۔۔بڑی دیر تک گفتگو رہی۔ ماحول بہت ہی دلفریب تھا۔ اشتیاق یاد کی زبان
میں مکمل *عاشقانہ* ماحول جبکہ ہمارے دوست احمد سلیم سلیمی کی دنیا میں *أشفتہ*
ماحول تھا۔ لیکن ان دونوں أشفتہ سروں نے اب تک چاٸے خانے کا مزہ نہ لیا
ہوگا۔وہ اگر ہمیں باقاعدہ مدعو کریں تو ایک شام انکے نام کرنے کو تیار
ہیں۔دھیمی روشنی کیساتھ تلے أسمان نشتیں بناٸی گٸی ہیں اور لال ٹینوں سے
خاص سماں باندھنے کی کوشش کی گٸی ہے۔پروپراٸیٹر باذوق لگتا ہے۔مزید بہتری
کی کوشش کی گٸی تو جلد یہ *چاٸے کارنر* اپنی جگہ بنالے گا۔اور شاید رمضان
کے احترام میں سونگ کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے۔ رات گٸے تک بڑا رش ہوتا
ہے۔فضل کریم صاحب کا شکریہ کہ ایک اچھی جگہ سے متعارف کروایا اور چاٸے بھی
پلایا اور ثواب کی نیت سے عکس بندی کا اہتمام بھی کیا۔تو
احباب کیا کہتے ہیں۔؟
|