میں آج کالج جاتے ہوئے اپنی گھڑی گھر میں بھول گیا
۔ میں نے کافی سوچ بچار کے بعد ارادہ کیا کہ ایک گھڑی اور خرید لوں تا کہ
جب کبھی میں ایک گھڑی بھول جاؤں تو دوسری گھڑی تو مجھے یاد ہو ۔ لیکن پھر
خیال آیا کہ اگر دوسری گھڑی بھی بھول گیا تو اورزیادہ افسوس ہو گا اور پھر
دل کرے گا کہ تیسری گھڑی خرید لوں ۔ اس طرح گھڑیاں خریدنے کا سلسلہ طویل ہو
جائے گا لیکن بھولنے کی عادت بدستور قائم رہے گی۔ کیوں کہ بھول اور بھولنا
انسان کی سرشت میں ہے ؛ہر انسان کوئی نہ کوئی غلطی بھی کرتا ہے اور کوئی نہ
کوئی چیز بھولتا بھی ہے۔ انسانی ذہن ایک کمرے کی طرح تصور کیا جاتا ہے اور
یادیں اس کمرے میں رکھی ہوئی چیزوں کی طرح ہیں ۔ ہم اس کمرے میں جتنی زیادہ
چیزیں رکھیں گے، اتنا ہی کسی چیز کو تلاش کرنا مشکل ہو جائے گا ۔ اور یہ کہ
کسی چیز کو تلاش کرنے کے لئے اور زیادہ دیکھنے اور سوچنے کی ضرورت پڑے گی۔
جب کمرہ خالی خالی ہو گا تو اس میں رکھی یا پڑی ایک سوئی بھی نظر آ جائے
گی۔ یہی وجہ ہے کہ ان پڑھ لوگوں کا حافظہ پڑھے لکھے لوگوں کے حافظے سے
زیادہ مضبوط اور دیر پا ہوتا ہے۔ اکثر ان پڑھ بوڑھی عورتوں کو، جو کہ اب
نایاب سی ہوتی جا رہی ہیں، بچپن کے واقعات ، ماں باپ اور رشتے داروں کی
چھوٹی چھوٹی باتیں اور مکالمے از بر ہوتے ہیں، جب کہ پڑھے لکھے اپنا ذہن
کتابی مواد سے بھرتے بھرتے اپنا آپ یا اپنا ماضی اکثر بھول جاتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک نا معلوم پروفیسر صاحب کا لطیفہ یاد آ گیا جس نے بازار میں
اپنی بیوی کو دیکھا تو تعجب سے کہا:’ لگتا ہے آپ کو کہیں دیکھا ہے‘ ؟
پروفیسروں کو بھولنے کی عادت نہیں، کمزوری ہوتی ہے کیوں کہ وہ اپنا کمرۂ
دماغ کتابی ، فلسفیانہ اور علمی باتوں سے ایسے کھچا کھچ بھر لیتے ہیں جیسے
مرغی خانوں میں مرغیاں بھری ہوتی ہیں۔ اتنی بھیڑ میں کسی بات کا واضح طور
پر تحت الشعور کے گودام سے شعور کی سکرین پر آ جانا مشکل ہو جاتا ہے اور
پروفیسر صاحب ’ بھلکڑ‘ سمجھے جاتے ہیں۔ بعض لوگ ہر اس کام کو جسے وہ نہ
کرنا چاہتے ہوں جان کے’ بھول‘ کے کھاتے میں ڈال کر بریء الذمہ ہو جاتے ہیں
اور ہمارا خیال ہے کہ یہ ایک مہذب طریقہ ہے کیوں کہ اس سے نا صرف اپنی عزت
بچتی ہے بلکہ کام کا کہنے والے کو بھی شرمندگی نہیں اٹھانی پڑتی ۔ لیکن
مسئلہ یہ ہے کہ ہر بات پے جان کے بھول جانے سے لوگ جان جاتے ہیں کہ آدمی
جان کے بھولتا ہے اور پھر اعتبار ہوا ہو جاتا ہے۔
آج کل چھوٹے بچوں میں بھی زبان اچھی طرح بولنے کا رجحان فروغ پا رہا ہے ،جو
کہ اچھی بات ہے، اس کی چند وجوہات ہیں: جن میں سے ایک یہ ہے کہ آج کل بچے
اپنی پیدائش سے بہت پہلے ہی سے آوازیں سننا شروع کر دیتے ہیں۔ ہر طرف ڈیکوں
، موبائلوں ، سپیکروں ، اور ٹریفک کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ اگر یہ کہا
جائے کہ آج کا انسان ماضی کے انسانوں سے کئی گنا زیادہ آوازیں سن رہا ہے تو
غلط نہ ہو گا۔ ماضی میں اور خاص طور پر دیہاتوں میں بچے اتنی روانی اور
فصاحت سے بولنے میں کئی سال لگاتے تھے کیوں کہ ان کو آوازیں سننے کا موقع
کم ملتا تھا لیکن اب بچوں کو آوازیں سننے کا موقع بہت زیادہ میسر ہے۔ گھر
وں میں اکثر وقت ٹی وی چینلز اپنا آپ دیکھاتے رہتے ہیں اور خوش شکل ، خوش
الحان خواتین اپنی زلفیں جھٹک جھٹک کر ایسے گفتگو فرماتی ہیں کہ اس سے زبان
کا فروغ لازمی امر بن جاتا ہے کیوں کہ ہر عمر کے لوگ ان کو بہت غور سے د
یکھتے ہیں ۔زبان کا پہلا حصہ سننا اور دوسرا بولنا ہے ۔ جب انسان سن سن کر
بھر جاتا ہے تو وہ بولے بنا نہیں رہ سکتا کیوں کہ اس نے اپنا ما فی الضمیر
بھی تو نکالنا ہوتا ہے:
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
گرمی کی شدت آہستہ آہستہ زور پکڑ تی جا رہی ہے اور گلیوں میں گولے، قلفیاں
اور مشروبات بیچنے والوں کا تانتا بندھتا جارہا ہے۔ اس طرح گلیوں کی رونقیں
بحال ہو جاتی ہیں۔ دوپہر کو بھی کوئی نہ کوئی پھیری والا گلیوں میں ’ سُر‘
بکھیرتا چلا جاتا ہے۔ آج کل ردی مال لینے والوں کا بھی کافی رش رہتا ہے ان
کا پیشہ زیادہ ’سدا بہار‘ ہے۔ اور گرمی یا سردی سے متاثر بھی نہیں ہوتا
جیسا کہ قلفیاں اور برف کے گولے بیچنے والوں کا ہوتا ہے۔ کاغذ، پلاسٹک اور
لوہے کا ردی مال ہر گھر سے مل جاتا ہے اور سائیکلوں پر یہ مال لادنے والے
سائیکلوں سے بڑے بڑے ٹرکوں کا کام لیتے نظر آتے ہیں۔
آج کل تو زلفوں کو بھی ’ردی مال ‘ کے زمرے میں شامل کر لیا گیا ہے جو کہ
زلفوں اور زلف والوں کی سراسر توہین ہے۔ ایک زمانہ تھا زلفوں کی توقیر ہوا
کرتی تھی اور زلفوں کے ایک ایک کنڈل پر ہزاروں کے دل قربان ہوتے تھے اور
عشق پیشہ لوگوں کے دل تو بندھے ہی زلفوں کے ساتھ ہوتے تھے ،اور ایک یہ دورِ
بے فیض ہے کہ ایک چھٹانک زلفیں صرف پانچ سو روپے میں فروخت ہو رہی ہیں۔
ایسے ناہنجار دور میں مجنوں یا فرہاد جیسے عاشق کیا خاک جنم لیں گے۔ یہ فیس
بکی دوستیوں اور وٹس اپ محبتوں کا زمانہ ہے اس میں دیدار ِ یار گیسوئے یار
کی پہلے جیسی قدر باقی نہیں۔
تاریخ کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ زلفوں کی’ قدر‘ بہت عرصہ پہلے ہی یورپ میں
ختم ہو گئی تھی۔ اس لئے وہاں کے دانش ور تیزی سے گنجے ہو گئے اور پھر جہاں
جہاں دنیا میں’ دانش ِ یورپ ‘گھومی پھری ، وہاں وہاں گنجا پن بھی حکمرانی
کے مزے لوٹتا رہا۔ اسلامی اندازِ لباس وقبا میں گنجا پن ظاہر ہی نہیں ہوتا
کیوں کہ جب ہر وقت سر پر ٹوپی یا پگڑی پہنی جانی ہو تو بندہ گنجا ہو کر بھی
گنجا نہیں لگتا یہ بھی حیا داری کا ایک انداز ہے۔ یہ شرف بھی یورپ کو حاصل
ہے کہ اس نے زلفوں کی ’قدر‘ گھٹانے میں وہی کردار ادا کیا ہے جو اس نے دنیا
کے دوسرے ملکوں کی کرنسی کی تنزیل کرنے میں کیا ہے۔
’قدر ‘کی بات بار بار کرتے ہوئے روپے کی قدر خود بخود یاد آ جاتی ہے۔ ہمارے
بچپن میں روپے اور ڈالر کے مابین لڑائی نہیں ہوا کرتی تھی لیکن آج کا زمانہ
ہے کہ ڈالر ہر روز روپے کو لتاڑ تا بلکہ روندتا ہے ۔ روپیہ بیچارہ اتنا برا
قابو آ چکا ہے کہ ڈر لگتا کہ ڈالر کہیں روپے کی گردن ہی نہ مروڑ دے ، اگر
چہ سارا جسم تو اس نے پہلے ہی قابو کیا ہوا ہے۔ اب روپے کو بچانے کی کوئی
تدبیر بھی نظر نہیں آ رہی اس لئے اب روپے کی جان بخشی کی بار بار دل سے دعا
نکلتی ہے۔ اﷲ کرے ڈالر کے ہاتھوں روپے کی جان بخشی ہو جائے ورنہ ڈالر بہت
غصے میں ہے اور روپے پر بڑے زور کے گھونسے رسید کر رہا ہے۔
جس طرح یہ ایک مستحکم نظریہ ہے کہ کچھ لوگ قدرتی طور پر میزبان اور کچھ لوگ
قدرتی طور پر مہمان ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے یہ بات بھی واضح ہو رہی ہے کہ کچھ
سیاست دان قدرتی طور پر اپوزیشن کے لئے اور کچھ سیاست دان قدرتی طور پر
حکومت کے لئے بنے ہوتے ہیں۔ اپوزیشن کے لئے پیدا ہونے والے سیاست دانوں سے
حکومت اچھی نہیں ہوتی اور حکومت کے لئے پیدا ہونے والے سیاست دانوں سے
اپوزیشن اچھی نہیں ہوتی۔ اس لئے ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لئے بہتر ہوگا
کہ جو اچھی اپوزیش کرے اسے ہمیشہ اپوزیشن میں رہنے دیا جائے اور جواچھی
حکومت کرے اسے ہمیشہ حکومت میں رہنے دیا جائے۔ اس سے ملک دن دوگنی اور رات
چار گنی ترقی چاہے نہ کرے لیکن ملک کی تباہ حال معیشت میں کچھ استحکام تو
آئے ! |