جمعرات کی دوپہر،مایوں کا زرد
اور سبز ٹینٹ،گیندے کے پھولوں کی سجاوٹ(یہ کسی غیر مذہب کے نہیں مسلمان گھر
کے باہر لگے ٹینٹ کا نقشہ ہے کیونکہ ٹینٹ پر نعلین مبارک نصب تھی) اندر
سفید چاندنی پر بیٹھی قرآن خوانی میں شریک ہل ہل کر سپارے پڑھتی خواتین۔ ۔
۔ کہ اچانک خاتون خانہ آکر بولیں“ سپارے پڑھنے والی خواتین الگ جاکر بیٹھ
جائیں کیونکہ میلاد والی آنے والی ہیں پھر میلاد شروع ہوگا“ اتنا سننا تھا
کہ سب نے پڑھنے کی رفتار تیز کردی کہ“غیر مصدقہ“تاریخ کا میلاد بھی تو سننا
تھا نا ۔ ۔ ۔
خیر جناب پڑھنے والیاں آئیں تو انہیں بہت عزت و احترام سے اسٹیج پر لے جایا
گیا ان کے پیچھے“جشن ولادت صلی اللہ علیہ وسلم مبارک“کا بڑا سا سبز بینر
لگا تھا۔سامنے رکھے گئے گاؤ تکیوں پر کتابیں اور ڈائریاں رکھی گئیں۔گلاب
پاش ساتھ ہی رکھے تھے۔ سب نیچے بیٹھی خواتین سرک سرک کے اسٹیج کے قریب
ہوگئیں کہ ذرا دھیان سے سنا جا سکے۔ میلاد شروع ہوا تو درمیان میں گلاب کے
پھولوں سے بنے ہار پڑھنے والیوں کے گلے میں ڈالے گئے جو کافی خوبصورت
لڑکیاں اور خواتین تھیں اتنی کہ حاضرین محفل خواتین و حضرات کی نظریں بار
بار ان ہی پر جاتی تھیں اور جم سی جاتی تھیں۔ جب جب پیارے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کا نام مبارک آتا تو نہایت عقیدت سے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے چوم
کر پرنم آنکھوں سے لگائے جاتے کہ آخر عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضہ
تھا۔ اختتام پر قبلہ رخ کھڑے ہوکر سلام پڑھا گیا۔ سب پر گلاب پاش سے عطر
چھڑکا گیا پھر ڈھیر سارے مزے دار ناشتے سے بھرپور انصاف کے بعد سب ٹولیوں
میں بٹ کر خوش گپیاں کرنے+بخیے ادھیڑنے میں مصروف ہوگئیں۔
شام میں دلہن کو مایوں بٹھانے کے لئے ٹینٹ میں لایا گیا۔ پیلے جوڑے اور
گیندے کے پھولوں سے بنے گہنوں میں دلہن پر بہت روپ چڑھا تھا۔(سنا ہے دیکھا
نہیں)رات کو بہت سجی بنی مہندی آئی۔پہلے گانے گائے گئے پھر رسم ہوئی اور اس
کے بعد تیز موسیقی نے اہل محلہ(بشمول ہم)کو اچھی طرح بتا دیا کہ آج
مہندی+مایوں ہے۔ خیر جناب اس سب سے فارغ ہو کر کھانے کی طرف توجہ دی گئی۔یہ
مرحلہ بھی بڑے خوشگوار ماحول میں نمٹ گیا۔
لیجئے جناب! اصل رونق تو رات بارہ بجے کے بعد شروع ہوئی جب کہ میوزیکل
فنکشن کے لئے بلائے گئے زبردست فنکاروں کی آمد ہوئی۔ پہلے ڈیک پر لگائے گئے
تیز انگلش میوزک سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی کہ اسٹیج کے چہار جانب
لاؤڈ اسپیکر جو نصب تھے پھر گلوکاروں نے ایک ایک کر کے خوب اونچے سروں اور
نایت جوش و ولولے کے ساتھ انڈین گانے گائے۔
کچھ بزرگوں اور ذرا پرانے خیالات کے مالک لوگوں کی فرمائش پر پرانے انڈین
گانے بھی گائے گئے۔ایک کے بعد ایک گلوکار آتا اپنے فن کا جادو جگاتا اور جب
گلوکار ذرا دیر آرام کے لئے رکتا تو اس وقفے میں ڈیک پر فل والیوم میں“منی
بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے“ لگا دیا جاتا۔
جس جس گھر آواز جارہی تھی رہائشی نیند کو بھول کر گانے سننے پر مجبور
تھے(ان میں ہمارا گھرانہ بھی گلی میں ہونے کی وجہ سے شامل تھا)۔
اب جناب!“منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے“ پر والہانہ رقص کے بعد دوبارہ
گلوکاروں کی فنکاری شروع ہوئی لیکن یہ کیا ۔ ۔ ؟؟؟
منچلی خواتین، لڑکیوں، بچیوں اور شوخ و چنچل مرد، لڑکوں اور بچوں نے شور
مچا دیا کہ آپ“منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے“ گا کر سنائیں۔
لیجئے! ابھی تو سنا،سر دھنا اور رقص کیا گیا تھا لیکن کیا کریں جی!!!پر زور
فرمائش کو کیسے رد کیا جاتا۔ ۔ ۔؟؟؟ کہ آخر پیسے تو اسی کام کے دئیے اور
لیئے جارہے تھے اور سب سے بڑی بات خوشی کا موقع تھا سو،اب کسی شوخ گلوکار
نے نہایت اونچے سروں میں“منی بدنام ہوئی ڈارلنگ تیرے لئے“گایا۔ہم نے بھی
پہلی بار پورا سنا کیونکہ بھئی! نہ اس سے پہلے دھیان سے سنا نہ دیکھا۔
صبح کے چار بجے تک رونق میلہ لگا رہا اور اذان فجر سے کچھ دیر پہلے“ بھریا
میلہ“ سمٹا۔ سب لمبی تان کے،گھوڑے بیچ کے سو گئے اور رات بھر کے نیند کو
ترسے ہم بے چارے بھی نماز فجر ادا کرنے کے لئے اذان فجر کے انتظار کی تاب
نہ لاتے ہوئے غفلت کی نیند کی آغوش میں غڑاپ سے جا گرے۔
ہم نے تو بہت کچھ سوچا اور سمجھا نہ جانے آپ نے اس احوال سے کیا سوچا اور
سمجھا۔ ۔ ۔؟ |