سیلاب.... ایک عذاب.... ایک سخت
تنبیہ
”کیا ایمان والوں کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد سے ڈر
جائیں اور اس حق کے آگے جھک جائیں جو نازل ہو چکا ہے اور ان لوگوں کی طرح
نہ ہو جائیں جن کو اس سے پہلے کتاب دی گئی، پس ان پر طویل مدت گزر گئی،
بالآخر ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں بہت سے لوگ نافرمان ہیں۔“(الحدید۶۱)
قتل و غارت، چوری ڈکیتی، اغوا، مہنگائی، بے روزگاری، ظالمانہ ٹیکس، لاعلاج
نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں، بے سکونی، بدامنی، ظالم و جابر اور سفاک
حکمران آخر ہمارا مقدر کیوں؟
کہیں یہ سب ہمارا ہی کیا دھرا تو نہیں؟
”خشکی اور تری ہر جگہ لوگوں کے اعمال کے نتیجے میں فساد چھا گیا ہے، تا کہ
اللہ ان کے بعض کرتوتوں کا مزا چکھائے تا کہ یہ رجوع کریں۔“ (سورہ روم۔۱۴)
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی کون سی نعمت سے نہیں نوازا۔ دریا، پہاڑ، سرسبز
وشاداب خطے، لہلہاتے کھیت، قیمتی معدنی ذخائر، بہترین موسم اور سب سے بڑھ
کر ایمان واسلام کی نعمت.... مگر ہم نے ان نعمتوں کا کفران کیا۔ ہم نے یہ
خطہ اسلام کے نام پر حاصل کیا اور پھر نہ صرف اللہ سے کیے ہوئے وعدے کو پس
پشت ڈالا بلکہ اللہ سے بغاوت پر اتر آئے۔ شریعت کے نفاذ کے لیے اٹھنے والی
ہر آواز کو بزورِ طاقت دبایا۔ قدرت کی طرف سے ہمیں مہلت ملتی رہی مگر ہم
اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔
یاد کیجیے ہم میں اور اہل سبا میں کس قدر مماثلت ہے!
”اور اہل سبا کے لیے ان کے مسکن میں بہت بڑی نشانی موجود تھی۔ دائیں بائیں
دونوں جانب باغات کی دو قطاریں، اپنے رب کے بخشے ہوئے رزق سے متمتع ہوتے
رہو، اس کے شکر گزار رہو! زمین شاداب و زرخیز اور پروردگار بخشنے والا ہے،
تو انہوں نے( اللہ کے نازل کردہ احکام سے) اعراض کیا تو ہم نے ان پر بند کا
سیلاب بھیج دیا اور ان کے باغوں کو ایسے باغوں میں بدل دیا جن میں بدمزہ
پھل والے درخت اور جھاو اور بیری کی کچھ جھاڑیاں رہ گئیں، یہ ہم نے ان کی
ناشکری کا بدلہ دیا اور ہم ناشکروں کو برا بدلہ دیا ہی کرتے ہیں۔“ (سورہ
سبا: ۵۱،۶۱،۷۱)
ہمارے جرائم کی ایک ادنیٰ جھلک جن میں ہم مبتلا ہیں:
اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے بعض عمومی گناہ
شرک کرنا٬ فرض نماز ترک کرنا٬ روزہ نہ رکھنا٬ زکوٰة ادا نہ کرنا٬ فرض حج
ادا نہ کرنا٬ جان دار کی تصویر بنانا٬ کسی کی آبرو خراب کرنا٬ داڑھی
منڈوانا یا ایک مشت سے کم کتروانا٬ بلاکسی شرعی عذر کے میت کی میراث فوری
تقسیم نہ کرنا٬ شرعی پردہ نہ کرنا ، نہ اپنے گھر والوں کو توجہ دلانا٬ ناحق
قتل کرنا ٬ بدنظری کرنا٬ کافروں فاسقوں اور بے حیاؤں والا لباس پہننا٬ دینی
شعائر کی توہین کرنا٬زنا کرنا٬ غیبت کرنا یا سننا٬گھر میں ٹی وی اور کیبل
لگوانا٬ ثواب سمجھ کر ٹی وی پر نام نہاد اسلامی پروگرام دیکھنا٬ گناہوں کے
روکنے پر قدرت ہونے کے باوجود نہ روکنا٬ امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہ
کرنا٬ ماں باپ کی نافرمانی کرنا٬رشوت لین، جوا کھیلنا ، سٹہ لگان، سودی
کاروبار کرنا ،بینکوں کے ساتھ معاملات کرنا ،کافروں کے طور طریقے اور رسم
ورواج پسند کرن،اولیاءعلماءاور صالحین کو برا بھلا کہنا ، صحابہ کرام کو
گالی دینا ، غیر شرعی تقریبات میں شرکت کرنا ،مخلوط تعلیم حاصل کرن،مخلوط
تقریبات میں شریک ہونا ،ایسی مجالس میں شرکت کرنا جہاں اللہ کی کھلی
نافرمانی ہورہی ہو مثلاً ویڈیو اور تصویر سازی وغیرہ،بینک میں ملازمت کرنا
،انشورنس/تکافل کروانا ،فلموں، تھیٹر اور سینما وغیرہ میں کام کرنا ،کسی
گناہ کو گناہ نہ سمجھنا ،مجاہدین کو برا بھلا کہنا ،حکومتی ظلم کا شکار
مجاہدین کو پناہ نہ دینا ،مجاہدین کی جاسوسی کرنا ،جہاد کو دہشت گردی
کہن،اللہ کے غیر سے مانگنا ،قانون شرعی کے خلاف فیصلے کرنا ،ڈاکہ مارنا ،ٹیکس
لگانا ،ملازمین سے زائد از وقت کام لینا اور اجرت نہ دین،جمہوریت کو درست
سمجھنا اور وو ٹ لینا یا دینا ،گانے سننا ، ظالم حکمرانوں کی حمایت کرنا ،علماء
کا حکمرانوں سے میل جول رکھنا ،علماءکا کتمان حق کرنا ،وقتی مصلحتوں کی
خاطر شریعت کو بدلنا ،بے دین سیاسی جماعتوں میں شامل ہونا ،لسانیت صوبائیت
اور فرقہ واریت کے بدبو دار نعروں پر جمع ہونا ،دنیا کمانے کے لیے علم دین
حاصل کرنا ،اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا ،میڈیا کی پھیلائی من گھڑت باتوں پر
یقین کرنا ، عالم یا عالمہ کا اپنے علم پر عمل نہ کرنا۔
عذاب ِ الٰہی سے بچنے کا نسخہ
اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے مجرم ہونے کا اقرار۔
ایسی توبہ جس کے بعد تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے بچنے کا سچا وعدہ شامل ہو۔
نماز باجماعت کا اہتمام اور ہر دعا میں گناہوں سے بچنے کی توفیق مانگنا۔
علماءمشایخ اور صلحاءامت کی مجالس میں شرکت کا اہتمام۔
قرآنی احکام سیکھنے پر توجہ اور ان پر عمل کرنے کا عزم۔
کامل توبہ کی ایک نشانی یہ ہے کہ فوری طور پر اپنے گھر کو ٹی وی کی نجاست
سے پاک کرنے کا اہتمام کریں ۔
یاد رکھیں! جب تک آپ کے گھر میں ٹی وی ہے محض توبہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو
ٹال نہیں سکتی۔
دعوت فکر!
اس وقت ہم جس نظام کے تحت اپنی زندگی گزار رہے ہیں ہرگز اسلامی نہیں بلکہ
اس وقت کافرانہ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام زندگی رائج ہے۔ شریعت عملی
طور پر منسوخ ہے اور عدالتوں میں کفریہ قوانین کے مطابق فیصلے کیے جاتے ہیں۔
تمام تر ریاستی ڈھانچہ کافرانہ انداز و اطوار رکھتا ہے۔ حکمران ظالم سفاک
اور لٹیرے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری عام ہے۔ آئے روز ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔
بینکوں میں شرح سود میں اضافہ ہو رہا ہے حالاں کہ سود کے بارے میں اللہ
تعالیٰ نے واضح طور پر اپنا اعلان جنگ فرمایا ہے۔ ان حالات میں ہمارا فریضہ
بنتا ہے کہ مشرکانہ جمہوری نظام میں پناہ ڈھونڈنے کی بجائے اللہ کی نازل
کردہ شریعت میں اپنے لیے جائے پناہ ڈھونڈیں۔ ہماری تمام پریشانیوں کا حل
شرعی احکام کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے اور حضور نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے۔آج ہمیں اس بات کا ادراک کر لینا
چاہیے کہ کفریہ نظاموں کے تحت زندگی گزارنے کے کتنے بھیانک نتائج نکلتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کافرانہ نظاموں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کمر
ہمت کس لیں اور نفاذِ اسلام کے لیے اپنی جان ومال تک کی قربانی سے دریغ نہ
کریں۔
آئیے عہد کریں کہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے اپنا تن من دھن لٹا دیں گے
ان شاءاللّٰہ! |