مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ
اللہ کی طلبہ کے سامنے کی گئی تقریروں سے چند مفید اور فکر انگیز اقتباسات۔
پہلی بات یہ ہے کہ انسان جو کچھ بچپن میں سوچتا ہے بعینہ ان چیزوں کو اللہ
تعالیٰ کسی نہ کسی موقع پر پورا کردیتا ہے، لہٰذا جو خیال کرو، جو آرزو و
تمنا کرو بہت سوچ سمجھ کر کرو، ایسا نہ ہو کہ بعد میں تمہیں افسوس کرنا پڑے۔
یہ بڑے تجربے کی بات ہے بچپن کا خیال حقیقت بن کر سامنے آتا ہے۔ ابھی سے تم
یہ ارادہ کرو کہ اسلام کا نام روشن کرو گے، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاﺅ گے،
اسلام کے سچے اور مخلص داعی بنو گے، ایسا نہ سوچو جیسے بعض بچے سوچتے ہیں
کہ ہم ٹی ٹی آئی بنیں گے اور مفت سفر کیا کریں گے یا تھانیدار یا اسی طرح
کی اور بہت سی باتیں، یہ باتیں بری نہیں ہیں بلکہ تم کو اس سے بھی اونچا
سوچنا چاہیے....
اللہ تعالیٰ کو بچپن کی کچھ معصومیت اتنی پسند ہے کہ اس وقت بچہ جو سوچتا
ہے اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرتا ہے، تم اونچے سے اونچا ارادہ کرو اور اچھی
سے اچھی آرزو کرو اور تم یہ آرزو کرو کہ اللہ نے جو پیغمبروں سے کام لیا وہ
ہم کریں گے، اللہ کے ولی اور دوست بنیں گے، ہم بہت بڑے عالم و فاضل بنیں گے
اور اللہ کے بندوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچائیں گے۔
دیکھو! انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ سب کچھ بن
سکتا ہے، فرشتہ بلکہ فرشتہ سے بھی بڑھ سکتا ہے اس لیے کہ انسان کے اندر بہت
سی وہ صلاحیتیں ہیں جو فرشتوں میں نہیں ہیں، جب معاملہ یہ ہے کہ آدمی بہت
کچھ بن سکتا ہے اور بہت بڑا بن سکتا ہے تو تم چھوٹی اور گری پڑی آرزوئیں
کیوں کرو، تم ہمیشہ یہ آرزو کرو کہ اللہ ہمیں اپنے دین کی خدمت کرنے کی
توفیق عطا فرمائے اور تم سے وہ کام لے جس کی زمانہ کو ضرورت ہے، ہماری آرزو
تم سے یہی ہے اور خواہش اور تمنا بھی یہی ہے۔ آمین
(بحوالہ پاجا سراغ زندگی، ص 38)
ایک موقع پر فرمایا! آج کتنے بڑے بڑے فتنے ہیں جو اس وقت جہنم کے شعلوں کی
مانند بھڑ ک رہے ہیں اور پورے پورے اسلامی ملکوں کو جلاکر خاکستر کردینا
چاہتے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی امیدوں پر پانی پھیر دینا چاہتے
ہیں۔
آج قسم قسم اسلام سوز، ایمان سوز، اخلاق سوز، انسانیت سوز فتنے ابھر رہے
ہیں، مصر کی ناصریت، شام کی اشتمالیت اور اس کا کمیونزم ساری عرب دنیا کو
اپنی آغوش میں لے لینے کے لیے بے چین ہے، مادیت، الحاد، قومی پرستی، نبوت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے آنکھیں ملانے کے لیے تیار ہے، آج مسیلمہ کذّاب
نئے نئے روپ میں آرہا ہے اور نبوت محمدی کو چیلنج کر رہا ہے۔
آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمایہ پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے، آپ کے
قلعہ میں شگاف پیدا کیے جارہے ہیں....
خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہو، آج تمہارے لیے الحاد سے پنجہ آزمائی کا موقع
ہے، تمہارے لیے دہریت اور مادیت سے آنکھ ملانے کا موقع ہے۔
ایک جگہ فرمایا: عزیز دوستوں! اس وقت کہنے کی باتیں بہت ہیں اور سب کو
تفصیل سے بیان کرنا ممکن نہیں، لہٰذا ایک بات سنئے! اور کان کھول کر نہیں
بلکہ دل کھول کر سنئے! اس لیے کہ اس میں آپ ہی کا فائدہ ہے، وہ بات یہ ہے
آپ یہاں آئے ہیں تو اچھا بننے کی کوشش کیجیے، اگر کہے بغیر کام چل سکتا تو
میں اپنا دل نکال کر آپ کے سامنے رکھ دیتا، لیکن خدا نے الفاظ کا محتاج
بنایا ہے خود کلامِ الٰہی اس کی بیّن دلیل ہے۔ بہرحال میں یہی کہوں گا کہ
قیمتی سے قیمتی بننے کی کوشش کیجیے اور یہی انسان کی فطرت ہے۔ اگر یہ جذبہ
انسان کے اندر نہیں تو وہ حیوان ہے۔ اسی جذبے کے تحت انسان وہاں تک پہنچ
گیا جہاں تک فرشتے نہیں پہنچ سکے۔
عزیزوں! ایک شخص کو کوئی چیز دفینہ ملی وہ اس کو لے کر جوہر شناس کے پاس
آیا، جوہر شناس نے کہا یہ ہیرا ہے اور بہت قیمتی ہے لیکن اس کی تین شرطیں
ہیں۔
(1) جب تک اس کو چمکایا نہیں جائے گا اور اس کے کونے برابر نہیں کیے جائیں
گے اس وقت تک وہ بے قیمت پتھر ہے۔
(2) یہ بہت نازک ہے اگر کہیں سے چٹخ گیا تو بیکار ہوجائے گا۔
(3) اگر یہ چٹخ گیا تو پھر یہ درست نہیں ہوسکتا....
میرے عزیزوں! میں خانہ خدا میں منبرِ مسجد کے پاس خدا کی قسم کھا کر کہتا
ہوں کہ وہ ہیرا تمہارے پاس موجود ہے اور تم میں سے ہر شخص اس کا مالک ہے۔
وہ ہیرا تمہاری زندگی کی صلاحیت ہے، پڑھنے کی صلاحیت، فرمانبرداری کی
صلاحیت اور بہتر بننے کی صلاحیت ہے، یہ وہ صلاحیتیں ہیں جن پر ملائکہ کو
رشک آتا ہے....
میں تم سے پوچھتا ہوں وہ کون بدنصیب ہوگا جو کامیاب بننا نہ چاہے، پتھر بھی
ترقی سے انکار نہیں کرتا، کائنات کا ذرّہ ذرّہ عروج و ترقی کا متمنی ہوتا
ہے، ایک تخم کو دیکھو وہ ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا ایک درخت بن جاتا ہے
اور ترقی کے آخری اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے، لیکن تمہارا سفر ارتقاء کی منزلیں
طے کرتا ہوا موت کے بعد تک جاری رہے گا اور تم ترقی کے مدارج طے کرو گے،
حتیٰ کہ تمہاری آسودگی دیدارِ الٰہی سے ہوگی اور یہ تمہاری آخری اور ابدی
منزل ہے۔ تمہارا اولین فرض یہ ہے کہ تم دلوں میں عزم و ارادہ پیدا کرو، اس
لیے کہ تم کو بہتر سے بہتر بننا ہے
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
(از پاجا سراغِ زندگی ص 59) |