للو میاں بارش میں

پاکستان میں آجکل بارشوں کا بھی واری وٹہ شروع ہوگیا ہے۔ کبھی اس علاقے میں بارش تو کبھی اس علاقے میں بارش۔ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں کے لوگو ں سے اللہ پاک ایسے راضی ہوتے ہیں کہ سارا سال بارش۔ جبکہ کچھ علاقوں میں یہ ایسی عنقا ہوئی ہے کہ لوگ اسکا نام بھی ایسے بھولتے جارہے ہیں، جیسے ہمارے ہاں عوام سیاستدانوں کی برائیاں ہر الیکشن میں بھول جاتے ہیں ۔ اور اگر کبھی غلطی سے اس علاقے میں بارش ہو بھی جائے تو خوشی میں بارش میں ایسے رج کر نہاتے ہیں کہ بعض دفعہ کپڑے پہننا تک بھی بھول جاتے ہیں۔ 2010 میں تو اللہ پاک نے اتنی بارش سے نوازا کہ پورا پاکستان ہی جل تھل ہو کر سمندر اور دریا کا منظر پیش کر رہا تھا اور پاکستان بھر میں اربوں روپوں کا نقصان ہوا ۔ اللہ پاک اپنی رحمت دے مگر عافیت کے ساتھ۔ بہرحال ! ایک بارش کے دوران ہمارے للو میاں پر کیا گزری آئیے دیکھتے ہیں۔

دن بھر کے کام کا ج کی مار دھاڑ اور صاحب لوگوں کی ڈانٹ ڈپٹ کھانے کے بعد بیچارے للو میاں دفتر سے نکلے تو باہر خلاف توقع آسمان کچھ ابر آلود سا تھا ۔ ایسا لگتا تھا کہ بارش کسی وقت بھی برس سکتی ہے۔ ابھی للو میاں بیگم کے بتائے ہوئے دفتر سے واپسی کے کام مثلاً، کشیدہ کاری والے سے بیگم کی قمیض اٹھانی ہے، رنگساز سے دوپٹہ لینا ہے ، پیکو والے پاینچے بنوانے ، منے کی نیکر کی لاسٹک لینی ہے، بچوں کی ٹافیاں، پرچون کا سامان ، سرخی پوڈر وغیرہ وغیرہ کی لسٹ پڑھ ہی رہے تھے کہ اتنے میں تَڑ تَڑ زور دار بارش شروع ہو گئی۔ للو میاں نے جلدی جلدی سامان کی لسٹ ، اس سے پہلے کہ گیلی ہوتی جیب میں ڈالنے کی ناکام سی کوشش کی مگر ایک تیز ہوا کا جھونکا اسے کٹی پتنگ کی طرح اڑا کر رفو چکر ہو گیا۔ للو میاں نے لپک لپک کر شادی بیاہ میں پیسے لوٹنے کے سے انداز میں اسے پکڑنے کی بہت کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ اسی اثنا میں ایک تیز رفتار منی بس زگ زیگ کر تی ہوئی پاس سے گزری اور للو میاں کی شرٹ پر بارش اور گٹر کے پانی کے مکسچر کے مختلف نقش و نگار بناتی ہوئی گزر گئی۔ ابھی وہ اس ناگہانی آفت کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ انکی بس آگئی جس میں تل دھرنے کی جگہ تو نہ تھی البتہ گیٹ کے پاس پاﺅں رکھنے کی جگہ پاکر وہ بھی اس انسانی ڈربے میں سما ہی گئے۔ بس میں خاصا رش تھا، اور دھکم پیل بھی عروج پر تھی، اور کوئی بھی مسافر بیچارے للو میاں کو انکی شرٹ سے پھوٹنے والی پیاری سی سمیل کی وجہ سے اپنے قریب برداشت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ہر بندہ پاسا مار کر انہیں دوسرے کی طرف پارسل کر رہا تھا اور انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے بس میں موجود ہر آدمی بس انہیں ہی پریس کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ بس کے مسافروں کے ظلم و ستم سہہ کر للو میاں اپنے سٹاپ پر اترے تو کپڑوں کی اچھی خاصی لتڑ پتڑ ہو چکی تھی۔

اپنے محلے میں پہنچے تو اپنی گلی ہی نہ پہچان سکے کہ تمام گلیاں اٹلی کے شہر وینس کی گلیوں کا نقشہ پیش کر رہی تھیں جہاں کہ پورا شہر ہی ہر وقت پانی میں ڈوبا رہتا ہے،ہر گلی میں تین تین فٹ پانی کھڑا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے 2011 کا سیلاب آگیا ہو۔ اب اسکے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ پانی میں سے تیر کر ہی گزرا جائے۔ کچھ سوچ و بچار کے بعد للو میاں نے جوتے اور جرابیں اتار کر ہاتھ میں پکڑے، پینٹ کو گھٹنوں تک ٹونگا اسی سیلابی پانی میں سے گھر کی جانب رواں دواں ہوئے۔ ابھی تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ ایک صاحب بڑی تیزی سے پانی میں اسکیٹنگ کرتے ہوئے موٹر سائیکل پر قریب سے گزرے ،للو میاں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح انکی بچت ہوجائے، مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ہوش بحال ہوئے تو وہ سر تا پاﺅں گٹر اور بارش کے پانی کے مکسچر میں نہا چکے تھے۔ موٹر سائیکل والے کو اسکے چلے جانے کے بعد چند صلواتیں سناتے ہوئے تھوڑا سا آگے گئے تو وہاں نالی تھی جو کہ ظاہر ہے پانی کی وجہ سے نظر نہیں آئی اور پاﺅں سیدھا نالی کے اندر گھڑپ۔ اب مسئلہ یہ کہ پاﺅں کیسے نکالیں کہ ایک ہاتھ میں جوتے اور دوسرے میں ہینڈ بیگ۔ ابھی للو میں بیچارے یہ سوچ و بچار کر ہی رہے تھے کہ انکی یہ مشکل ایک اور موٹرسائیکل سوار نے اسطر ح آسان کی کہ انکا دستی بیگ چھینا اور تیزی سے نا معلوم سمت میں رفو چکر ہو گیا، اور للو میاں ہکا بکا دیکھتے رہ گئے۔ للو میاں نے بڑی آہ و زاری اور چیخ و پکار کی کہ شاید کوئی انکی مدد کو آئے مگر ایسا لگتا تھا کہ سب لوگ گھروں میں پکوڑے اور گلگلے کھانے میں مصروف ہیں، لہٰذا کوئی انکی مدد کو باہر نہ آیا۔بہرحال! اسطرح انکا ایک ہاتھ تو خالی ہوگیا مگر پھر وہ اس سوچ میں پڑ گئے کہ بیگ میں موجود بیگم کے سودا سلف کے لیے دیے گئے پیسوں کا کیا بنے گا؟ خیر! جیسے ہی وہ اپنا نالی میں پھنسے پاﺅں نکالنے کے لیے تھوڑا سے نیچے جھکے تو جیب میں موجود کرایہ کے بچے پیسے اور دیگر کاغدات باہر نکل کر پانی میں یوں تیرنے لگے جیسے کاغذ کی کشتیاں پانی میں تیر رہی ہوں۔ابھی وہ ان پیسوں کو پکڑنے کا پروگرام بنا ہی رہے تھے کہ گلی کے چند شرارتی بچے پیسے پیسے کرتے اچانک گھروں سے نمودار ہوئے اور پل بھر میں بہتے روپے لوٹ کر یہ جا وہ جا۔للو میاں پھر بیچارے حیرت سے ان کا منہ ہی دیکھتے رہ گئے۔ بچوں کے روپوں کی اس چھینا جھپنٹی کے دوران انکا گندے پانی کا ادھورا غسل بھی مکمل ہو چکا تھا۔ تھوڑا سا آگے چلے تو اگلی گلی میں لوگوں کی کچھ آمد و رفت نظر آئی ۔ تاہم بارش کے پانی اور کیچڑ سے بنی مخدوش حالت دیکھ کر لوگوں نے آوازیں کسنا شروع کر دیں۔ کوئی کہتا کہ پاگل ہے ، کوئی کہتا کہ تیرنا سیکھ رہا ہے ، کسی نے کہا کہ انہیں گھر سے مار کوٹ کر نکال دیا گیا ہے، کسی نے بھپتی کسی کہ یہ وہی ہے جو رات کو محلے میں روٹیاں مانگتا ہے، کسی نے آواز لگائی کہ یار دیکھنا کہیں کوئی جاسوس یا خود کش بمبار نہ ہو! وغیرہ وغیرہ۔ پر للو میاں نے سب کی سنی ان سنی کر دی کہ انہیں صرف جلد از جلد گھر پہنچنے کی جلدی تھی۔

گرتے پڑتے بلآ خر گھر کے دروازے پر پہنچ ہی گئے۔بچوں نے للوں میاں کی شکل دیکھتے ہی ابا آگئے، ابا آگئے کا سونگ محلے والوں کو سنانا شروع کر دیا۔ للو میاں نے دیکھا کہ گھر کے تمام افراد خانہ ہاتھوں میں بالٹی ، لوٹا، گھی کے خالی ڈبے ، اور ڈونگہ وغیرہ لیے بارش کا پانی گھر سے نکالنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔ کیونکہ پانی گھر کے لیول کو کراس کر چکا تھا اور گھوم پر کر دوبارہ گھر میں داخل ہو جاتا تھا۔کمروں کی چھتیں جگہ جگہ سے ٹپک کر نیچے رکھے گئے برتنوں میں گر کر راگ بھیروی، راگ درباری اور دیگر تمام ممنوعہ راگ سنارہی تھیں۔ کچن کا آدھا سامان مثلاً دیگچی ، جگ، گلاس ، دودھ کی بالٹی، پتیلہ وغیرہ سب کمروں میں جگہ جگہ چھت سے ٹپکتے پانی کو جمع کرنے کے لیے ایسے سجے ہوئے تھے جیسے کہ گھر میں برتنوں کا جمعہ بازار لگا ہو۔ تمام چارپائیاں اور بیڈ گھٹنوں تک گیلی ہو چکی تھیں۔ فرنیچر وغیرہ بھی خرچہ بڑھوانے کا کام کر چکے تھے اور کپڑوں کے ٹرنک (بیگم کے ابا کی آخری اور واحد نشانی) بھی آدے آدھے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ للو میاں نے گھر کی حالت دیکھی تو ان پر سکتہ سا طاری ہوگیا۔ بیگم جو کہ بچوں کے ہمراہ بارش کا پانی نکال نکال کر بد حال ہو چکی تھیں، گھر میں داخل ہوتے ہی انکی کی خونخوار نظریں للو میاں کے جسم کے آرپار ہو رہی تھیں۔

اس سے پہلے کہ للو میاں بیگم کا سامنا کرتے، تمام بچے بھاگ کر للو میاں سے ایسے چپک گئے جیسے شہد کی مکھیاں چھتے پریا جیسے ریوڑیاں تقسیم کرنے والے کو لوگ چپک جاتے ہیں ۔ کسی کا ہاتھ پینٹ کی جیب میں تھا تو کسی کا شرٹ کی جیب میں، جو کہ اپنی اپنی فرمائش کردہ چیزیں مثلاً چپس، چیونگم، سلانٹی، ٹافیاں اور چاکلیٹ وغیرہ کی تلاش میں کوشاں تھے۔ شرٹ اور پینٹ جو کہ پہلے ہی بارش کے پانی کے مختلف ادوار سے گزر کر بودی ہو چکی تھی، بچوں کی تلاش اشیاء کی وجہ سے آخرکار تار تار ہوگئی، لیکن بچوں بیچاروں کو اپنا گوہرِ مراد یعنی کھانے کی کوئی بھی شے نہ مل سکی۔ بیگم جنکا غصہ ، اپنی دی گئی لسٹ کے مطابق اشیاء نہ آنے ، کپڑوں کا نقصان کر نے، دستی بیگ ، اور پیسے گم ہو جانے پر سدرتہ المنتہی پر تھا، بجائے اسکے کہ تھکے ترٹے میاں کا حال چال پوچھتیں، چائے پانی دیتیں، یا پکوڑے، گلکلے بنا کر کھلاتیں، انہوں نے ڈانٹ کھلانی اور پلانی شروع کردی اور تمام سوالات مثلاً : پینٹ ، شرٹ کہاں خراب ہوئی، جیب کہاں کٹی، دستی بیگ کہاں کھسوایا، رنگساز سے جو میرا دوپٹہ لانا تھا اسکا کیا بنا، وغیرہ وغیرہ ، ایک ساتھ ہی داغ دیے۔ مگر للو میاں بیچارے کے پاس کوئی جواب ہوتا تو دیتے نہ۔ چپکے سے کان دبا کر بارش سے بچے ایک کونے میں گئے ، چادر اوڑھی اور لمبی تان کر سو گئے۔۔۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 234785 views self motivated, self made persons.. View More