بڑے دل والا

حسینہ کی شادی کی تقریب میں شریک گاؤں کے سارے لوگ ہکا بکا تھے - اس کے ماں باپ حیران بھی تھے اور سخت پریشان بھی- کچھ دیر پہلے ہونے والے نکاح کے بعد کھانے کے انتظامات ہو رہے تھے کہ اچانک کسی گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز آئ- جو لوگ گاڑی کے قریب تھے انہوں نے انجن کی آواز سن کر گاڑی کی طرف دیکھا- گاڑی میں دولہا سراج الدین بیٹھا نظر آیا- اس کے سر پر سہرا موجود نہیں تھا- اس نے نہایت عجلت میں گاڑی اسٹارٹ کی اور تیز رفتاری سے اس کو بھگاتا ہوا وہاں سے لے گیا-

سراج الدین کے ماں باپ اور ساتھ آئے ہوۓ باراتی وہیں رہ گئے تھے- کسی کو پتہ نہ تھا کہ کیا ہوا ہے اور دولہا کیوں اتنی جلدی میں وہاں سے چلا گیا ہے- سب لوگ فکرمند تھے- ان میں سے اکثریت کا یہ خیال تھا کہ کسی نے دولہا سے کوئی بدسلوکی کردی ہے، دولہا کو برا لگا اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وہاں سے ناراض ہو کر چلا گیا ہے- پنڈال میں جس جگہ دولہا کو بٹھایا گیا تھا، صوفے پر اس کا سہرا پڑا تھا اور اس کے قریب گاؤں کے جگت ماموں حیران پریشان صورت بنائے کھڑے تھے-

اس واقعہ کے بعد سراج الدین کے ماں باپ بھی بڑی بدحواسی میں وہاں سے روانہ ہوگئے- کیسی شادی کہاں کا کھانا- ان لوگوں کے ساتھ آئے ہوۓ باراتی بھی بسوں میں بیٹھ بیٹھ کر واپس جانے لگے- شادی والا گھر ایک دم سے بے رونق نظر آنے لگا، ہر چہرہ مرجھا گیا تھا اور سب لوگ خاموش ہوگئے تھے-
انھیں کچھ پتہ ہی نہ تھا کہ دولہا وہاں سے کیوں چلا گیا ہے، بات کرتے بھی تو کیا کرتے- بس سب سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے تھے- گاؤں کی مسجد کے امام صاحب جنہوں نے یہ نکاح پڑھایا تھا، نکاح نامہ ہاتھ میں لیے خود حیران کھڑے تھے-

اس عجیب و غریب طریقے سے شادی کی تقریب چھوڑ کر جانے والے سراج الدین کی عمر پینتالیس سال سے اوپر ہوگئی تھی- اس کی پہلی شادی چند ماہ پہلے ہی ہوئی تھی- یہ اس کی دوسری شادی تھی مگر وہ دلہن کو ساتھ لیے بغیر ہی چلا گیا تھا- لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات پیدا ہو رہے تھے مگر ان کا جواب کسی کے پاس نہ تھا-

اس سراج الدین کی پوری زندگی عیش و آرام میں گزری تھی- وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا- آٹھ جماعتوں کے بعد اس نے خود ہی فیصلہ کر کے پڑھائی کو خیر آباد کہہ دیا تھا- باپ ایک بڑا زمیندار تھا- اسے سراج الدین کی پڑھائی لکھائی کی یوں بھی کوئی فکر نہیں تھی- اس کا خیال تھا کہ کونسا اسے نوکری کرنا تھی- وہ ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا- باپ کی کافی زمینیں تھیں- گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل تھی- زمینوں کی آمدنی اتنی تھی کہ آدمی زندگی بھر بیٹھ کر بھی کھائے تو ختم نہ ہو-

سراج الدین بڑا ہوا تو اس نے اس آمدنی کو مستقل بنیادوں پر قائم رکھنے اور اس میں اضافے کے لیے اپنے چند دوستوں کے مشورے پر زمینوں کی خرید و فروخت کا کام شروع کردیا اور رفتہ رفتہ اس کاروبار کو کافی پھیلا لیا - اس کے اس کام میں شریک دوست اچھے نہ تھے- بے ضمیروں اور سفاک لوگوں کا ایک ٹولہ تھا جو اس کا مددگار بن گیا تھا- ان لوگوں کا ایک طریقہ تھا- وہ گاؤں کے ان لوگوں کی تلاش میں رہتے تھے جنہیں اچانک پیسوں کی اشد ضرورت پڑ جاتی تھی- یہ ضرورت عموماً بیٹیوں کی شادی یا دوسروں سے لیے گئے قرض کو اتارنے کے لیے پیش آتی تھی- اگر ایسے لوگوں کے پاس تھوڑی بہت زمین ہوتی تو اس کے بارے میں یہ لوگ پوری تفصیلات حاصل کر کے سراج الدین کو فراہم کرتے اور پھر وہ اسے اونے پونے داموں خرید لیتا اور کچھ عرصہ اپنے پاس رکھ کر مہنگے داموں بیچ دیا کرتا تھا-

ایسے لوگ جب اس طرح کے کام کرتے ہیں تو وہ پورا سیٹ اپ بنا لیتے ہیں- اس سیٹ اپ میں خونخوار قسم کے ملازم بھی رکھے جاتے ہیں- عام لوگوں کی بزدلی ان کے بہت کام آتی ہے- کوئی اگر ان سے الجھنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ لوگ پہلے تو تشدد اور پھر چاقو چھریوں اور گولیوں کا استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے – ان بے ضمیر لوگوں کے پاس دولت تو بہت جمع ہوجاتی ہے، مگر وہ ذہنی سکون اور معاشرے میں ایک باعزت مقام سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتے ہیں-

سراج الدین کا یہ شیطانی کاروبار چمک اٹھا تھا اور اسے بہت زیادہ آمدنی ہونے لگی تھی- اس کا ضمیر اس قدر مردہ ہوگیا تھا کہ اسے مجبور لوگوں کی بے بسی کا بھی احساس نہیں ہوتا تھا- اس کے کارندے مجبور لوگوں کی تلاش میں رہتے تھے اور سراج الدین ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے پیش پیش ہوتا تھا- جب مار پیٹ اور قتل و غارت گری کے بہت سے واقعات کے بعد علاقے میں سراج الدین اور اس کے ساتھیوں کی دھاک بیٹھ گئی تو پھر گاؤں کی بہو بیٹیوں کی عزتیں بھی خطرے میں پڑنے لگیں- گاؤں کی عورتیں جب کسی کام سے گھروں سے نکلتیں تو یہ لوگ ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے - گاؤں کے لوگوں میں ان کے خلاف سخت غصہ اور نفرت تھی، مگر وہ بے بس تھے- پیسے کے آگے ان کے گاؤں کی پولیس بھی خاموش تھی، ان کی شکایتوں پر کان نہیں دھرتی تھی-

اس ماحول میں رہتے رہتے سراج الدین کو کئی دوسرے شوق بھی لگ گئے تھے جو دیر یا بدیر تباہی کی طرف لے جاتے ہیں- اس کے یار دوست امیر تو نہ تھے مگر ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جن کی گزر بسر ہی امیروں کے آگے پیچھے گھومنے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے سے ہوتی ہے- ان کے پاس طرح طرح کے غیر اخلاقی آئیڈیاز ہوتے ہیں، ان آئیڈیاز کی تکمیل کا ذریعہ پیسہ ہوتا ہے اور پیسہ تو سراج الدین کے پاس بہت تھا- ناچ گانوں کا تو اسے شوق تھا ہی، بعد میں پینے پلانے کا بھی لگ گیا- وقت گزاری کے لیے اس نے جوا بھی کھیلنا شروع کردیا-

ماں باپ نے جب دیکھا کہ بیٹا دوسری جانب نکل رہا ہے تو انہوں نے اس کی شادی کا سوچا اور کسی اچھی سی لڑکی کی تلاش شروع کردی- اچھی سی کا تو پتہ نہیں مگر انھیں ایک لڑکی مل ہی گئی- وہ قریب کے کسی گاؤں کے ایک بڑے زمیندار کی بیٹی تھی-

ماں باپ کو اس بات کی توقع تھی کہ شادی کے بعد ان کا بیٹا گھر پر بھی توجہ دے گا اور اس کے غیر اخلاقی شوق بھی ختم ہوجائیں گے مگر شادی کے بعد تو وہ مزید گھر سے باہر رہنے لگا- یہ بات نہیں تھی کہ اسے بیوی پسند نہیں تھی- بیوی تو اسے پسند تھی مگر اتنی نہیں کہ وہ باہر کی مصروفیات چھوڑ دیتا-
اس کی بیوی جس ماحول سے آئ تھی، وہاں کے مرد بھی کچھ ایسے ہی تھے- اس لیے اسے کچھ عجیب سا نہ لگا- وہ دن بھر نئے نئے کپڑے پہن کر، زیورات سے لدی پھندی، بڑے اسکرین کے ٹی وی پر ڈرامے دیکھتی رہتی، کھاتی پیتی رہتی اور سوتی رہتی- گھر میں روایتی بہوؤں کی طرح کرنے کو اس کے پاس کوئی کام بھی نہیں تھا- سارے کام نوکر چاکر کرتے تھے-

زندگی یوں ہی ایک ڈگر پر رواں دواں تھی کہ ایک روز اچانک سراج الدین کو اپنی کمر کے دونوں طرف پسلیوں کے نیچے ہلکی سی دکھن کا احساس ہوا- اس نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی- مگر دو ایک روز بعد جب یہ دکھن درد میں تبدیل ہوگئی تو اس نے گاؤں کے حکیم کو بلوا لیا-

وہ حکیم انسانوں کا بھی علاج کرتا تھا اور جانوروں کا بھی- کچھ روز اس سے علاج کروایا اور مختلف چورنوں کی پھنکیاں پھانکتا رہا اور خوش ذائقہ شربت پیتا رہا- جب کچھ افاقہ نہ ہوا تو سراج الدین مایوس ہو کر شہر بھاگا کیوں کہ تکلیف بہت بڑھ گئی تھی- اس کے چہرے اور پاووں پر سوجن بھی آگئی تھی- یہ سوجن اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ سراج الدین تو نہیں، سراج الدین جیسا دکھائی دیتا تھا- اس کے چند دوست اس کو لے کر شہر کے ایک بڑے ہسپتال میں پہنچے-

شہر کے ڈاکٹروں کی فیس تو بہت زیادہ تھی مگر علاج جدید اور اچھا تھا- اس کے بہت سے ٹیسٹ ہوۓ اور آخر کار فائنل رپورٹ سامنے آگئی- اس کے دونوں گردوں کا بڑا حصہ ناکارہ ہوگیا تھا- اس کی زندگی کا دارومدار اب اسی بات پر تھا کہ جتنی جلدی ہوسکے اس کے ایک گردے کی پیوند کاری ہو جائے-

پیسے کا زعم تھا اس نے ڈاکٹر سے کہا کہ وہ اس کا گردہ بدل دے- کتنے پیسے لگیں گے وہ اس بات کی فکر نہ کرے-

اس کی بات سن کر ڈاکٹر مسکرانے لگا اور بولا- "یہ پہلے تو کبھی ہوتا تھا- اب تو گردوں اور انسانوں کے دوسرے اعضا کی خرید و فروخت پر حکومت کی جانب سے بہت سختی سے پابندی لگا دی گئی ہے- اس دھندے میں جو لوگ پکڑے جاتے ہیں ان پر بڑے بڑے جرمانے اور لمبی لمبی سزائیں ہوتی ہیں- اس کا گردہ اسی حالت میں تبدیل ہوسکتا ہے کہ اس کا کوئی عزیز رشتے دار اپنی مرضی سے ایک گردہ عطیہ کردے-
ان تبدیلیوں پر جتنا خرچہ آنا تھا، وہ ڈاکٹر نے بتا دیا تھا- ڈاکٹر نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اس کام میں دیر نہ کی جائے-

اس خبر نے سراج الدین کو سخت ذہنی اذیت سے دوچار کردیا تھا- اس کو اپنے خاندان میں کئی رشتے داروں سے امید تھی کہ وہ اس مصیبت کی گھڑی میں اس کے کام آئیں گے- مگر تھوڑے ہی عرصے میں اس کی یہ امید دم توڑ گئی- کوئی بھی اس کام پر راضی نہ ہوا- لے دے کے ایک بیوی ہی رہ گئی تھی، اسے پکا یقین تھا کہ وہ اس کھٹن وقت میں اس کے کام آئے گی-

اس سے بات کی تو وہ گھبرا کر بولی" میں تو ڈاکٹر سے سوئی تک لگوانے سے ڈرتی ہوں، اتنا بڑا آپریشن نہیں کروا سکتی"-

پھر اس بات کے اگلے روز اچانک اس کی ماں آئ اور اس کی بیوی کو اپنے ساتھ لے گئی- اس کے بال بچہ ہونے والا تھا- جاتے ہوۓ اس کی ساس نے کہہ دیا تھا کہ اب اس کی بیٹی بچے کی پیدائش کے بعد ہی سسرال واپس آئے گی-

سراج الدین کو بیوی کی طرف سے مایوسی ہوئی تو اسے اپنے دوستوں کی شکل میں امید کی کرن نظر آئ- یہ وہ دوست تھے جن کے ساتھ اس کا چوبیس گھنٹوں اٹھنا بیٹھنا تھا- ان لوگوں نے چاقو چھریوں سے اس کی خاطر کئی لوگوں کے پیٹوں کو چیرا پھاڑا تھا، مگر جب سراج الدین کو ان کی ضرورت پڑی تو وہ یہ سوچ کر ڈر گئے کہ ان کے پیٹ کو چیر کر ان کا گردہ نکالا جائے گا- وہ لوگ ادھر ادھر ہوگئے-
انہوں نے سراج الدین سے ملنا جلنا ہی ختم کردیا تھا- انھیں پتہ تھا کہ وہ ہر کسی سے گردہ دینے کی آس لگائے رکھتا ہے-

اس کی صحت دن بہ دن گرتی ہی جا رہی تھی- اس مرض کی وجہ سے جن جن تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ گزر رہا تھا- آخر اس کی ماں اور اس کے باپ سے اس کی تکلیف نہ دیکھی گئی- انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے بیٹے کو وہ گردہ عطیہ کریں گے-

سراج الدین کو زندگی بہت عزیز تھی- وہ اس پر بھی راضی ہوگیا کہ اس کے بوڑھے ماں باپ میں سے اسے کوئی ایک گردہ دے دے- مگر جب وہ ڈاکٹر سے ملے تو ان کی عمر اور صحت دیکھتے ہوۓ ڈاکٹروں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا- یہ آپریشن ان کی زندگیوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا تھا-

اس کی دوائیں چل رہی تھیں مگر وہ سب طرف سے نا امید ہوگیا تھا- وہ جب بستر پر پڑا درد سے کراہ رہا ہوتا تھا تو اسے رہ رہ کر اپنی وہ زیادتیاں اور ظلم یاد آتے جو اس نے اور اس کے ساتھیوں نے گاؤں کے معصوم اور بے گناہ لوگوں پر کیے تھے اور ان کی بدعائیں لی تھیں- اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے اس کے ملازموں نے کتنے ہی بے گناہ انسانوں کا خون بھی بہایا تھا اس کے باوجود وہ آزاد پھر رہے تھے کیونکہ ان کی پشت پر سراج الدین ہوا کرتا تھا-

پیسے میں طاقت تو ہوتی ہے مگر یہ طاقت ہر معاملے میں کام نہیں آتی- سراج الدین کے پاس بھی بہت پیسہ تھا جو اس نے زور زبردستی، بدمعاشی اور لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر حاصل کیا تھا-
لیکن یہ ہی پیسہ اب اس کے کسی کام کا نہیں تھا- وہ زندگی بچانے کے لیے اپنی ساری دولت دینے کو تیار تھا مگر اسے کامیابی نہیں ہو رہی تھی-

اسے حکومت وقت پر بھی غصہ آ رہا تھا- کیا حرج تھا کہ غریب لوگ اپنے اعضا فروخت کر کے اپنی زندگیوں کو آسان کرلیتے تھے- دوسروں کا بھی بھلا ہوجاتا تھا-

ایک دن وہ سخت مایوسی کے عالم میں درد سے کراہ رہا تھا کہ اس کے ذہن میں ایک بات آئ- اس نے سوچا کہ وہ کسی غریب اور بے کس لڑکی سے دوسری شادی کر لے- اس پر سچ مچ کی دولت اور جھوٹ موٹ کا پیار اس قدر نچھاور کرے کہ وہ اس سے متاثر ہو جائے- پھر اس کے بعد جب وہ اس سے مطالبہ کرے گا کہ وہ اسے اپنا ایک گردہ دے دے تو وہ وہ یقیناً انکار نہیں کرے گی- مشرقی بیویاں تو یوں بھی بہت وفادار اور شوہروں پر جان نچھاور کرنے والی ہوتی ہیں، پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ اس مشرقی بیوی کا تعلق گاؤں دیہات سے ہو-

اپنی اس بات کا تذکرہ اس نے اپنی ماں سے بھی کیا- وہ تو چاہتی ہی یہ تھی کہ کسی طرح اس کے بیٹے کی زندگی بچ جائے- اس نے فوراً ہی ایک رشتے لگانے والی عورت کو اس کام پر لگا دیا- سراج الدین کے کہنے پر اس نے اس عورت کو یہ یہ بھی ہدایت کردی کہ بات پکی کرنے سے پہلے وہ اس لڑکی کا کسی بہانے سے خون بھی ٹیسٹ کروالے- اس کے خون کے گروپ کو دیکھ کر ہی بات پکی ہونا تھی-

گاؤں کے لوگ ہوتے تو سیدھے سادھے ہیں مگر سب سمجھ گئے تھے کہ سراج الدین کی دوسری شادی کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑا مقصد پوشیدہ ہے- ویسے بھی اپنے کردار اور ظلم و ستم کی وجہ سے وہ لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے تھے، اس سے نفرت کرتے تھے اور اسے بددعائیں دیتے تھے- اس رشتے لگانے والی عورت کو اپنے گاؤں میں کامیابی نہیں ہوئی-

سراج الدین کی ماں نے اس ناکامی کی خبر کو سن کر اس رقم میں بھی اضافہ کردیا جو اس عورت کو رشتہ لگانے کی صورت میں ملتی اور اسے تاکید کی کہ وہ کسی دوسرے گاؤں میں لڑکی ڈھونڈنے کی کوشش کرے- یہ ایک بڑی رقم تھی- اس عورت نے اپنے گاؤں سے نکل کر دوسرے گاؤں کا رخ کیا اور پھر اسے کامیابی ہو ہی گئی-

وہ حسینہ نام کی ایک پختہ عمر اور پختہ رنگ کی ایک لڑکی تھی- اس کا ڈیل ڈول بھی اچھا تھا-
اس کا باپ ایک غریب ہاری تھا- حسینہ دو بہنیں تھیں- ایک کی شادی ہو گئی تھی مگر یہ ابھی تک گھر بیٹھی ہوئی تھی- کسی زمانے میں اس کے رشتے بھی آئے تھے مگر اس کے باپ کے پاس شادی کرنے کے لیے پیسے ہی نہیں تھے- پہلی ہی لڑکی کی شادی کا قرض نہیں اترا تھا وہ غریب اپنی اس بیٹی کی شادی کہاں سے کرتا-

رشتہ لگانے والی نے حسینہ کے ماں باپ کو بہت سارے سبز باغ دکھائے- یہ بھی بتا دیا کہ لڑکا شادی شدہ ہے مگر بیوی گھر بیٹھ گئی ہے- وہ لڑکی کو بہت خوش رکھے گا- شادی کے لیے لڑکی والوں کی جو شرائط ہوں اسے منظور ہونگی- اس کی اپنی کوئی شرط نہیں ہوگی- اسے تو بس ایک خدمت کرنے والی اور دل سے پیار کرنے والی بیوی کی ضرورت ہے-

حسینہ تو تھی ہی خدمت کرنے والی- بچپن سے لے کر اب تک اس نے خدمت ہی خدمت کی تھی اور محبّت کا کیا ہے وہ تو ایک ساتھ رہنے سے ہو ہی جاتی ہے- اتنی آسان شرط سن کر اس کے ماں باپ خوش ہوگئے اور رشتے کے لیے حامی بھر لی-

رشتہ لگانے والی عورت نے ٹی وی کی خبروں کا حوالہ دے کر کہا کہ اب شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے خون کا ٹیسٹ کروانا ضروری ہوگیا ہے- اس سے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ انھیں کوئی بیماری تو نہیں- لڑکی کے گھر والوں نے اس کے مطالبے پر شہر جا کر لڑکی کے خون کا ٹیسٹ بھی کروا لیا اور رپورٹ اس عورت کے حوالے کردی-

سراج الدین کو یہ سن کر بہت اطمینان ہوا تھا کہ اس کا اور حسینہ کے خون کا گروپ ایک ہی تھا- اسے اس بات کی بھی بہت خوشی تھی کہ حسینہ کا ڈیل ڈول بہت اچھا ہے- اچھے ڈیل ڈول والی کا گردہ بھی اچھا اور بڑا ہی ہوگا- وہ یہ بات سوچ کر خوشی سے مسکرانے لگا-

اس کامیابی سے سراج الدین اتنا خوش ہوا کہ بستر سے اٹھ کر بیٹھ گیا- اس کے پاس وقت کم تھا- اس نے اگلے روز ہی بات پکّی کرنے اور شادی کی تاریخ طے کرنے کے لیے اپنے ماں باپ کو لڑکی والوں کے گھر بھیج دیا- اس کی ماں اپنے ساتھ مٹھائیوں کے ٹوکرے، بہت سارے کپڑوں کے جوڑے، سونے کے زیورات اور دو لاکھ روپے نقد لڑکی والوں کو دینے کے لیے لے گئی تھی تاکہ وہ لوگ جلد سے جلد شادی کا انتظام کر سکیں-

حسینہ کے ماں باپ سمجھ تو گئے تھے کہ ان نوازشات کے پیچھے کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے مگر مجبوریاں زبان بند کر دیتی ہیں- انہوں نے بھی خاموشی اختیار کی اور سب کچھ تقدیر پر چھوڑ دیا-

دو روز بعد دوپہر کو بارات آگئی- دولہا گھوڑے پر نہیں گاڑی میں آیا تھا- اپنی بیماری کی وجہ سے وہ گھوڑے پر بیٹھ ہی نہیں سکتا تھا- گاؤں کی مسجد کے امام صاحب نے نکاح پڑھایا، نکاح نامے پر دولہا دلہن اور گواہان کے انگوٹھے بھی لگ گئے تھے-

سراج الدین نے لڑکی والوں پر اپنے پیار محبّت کی دھاک بٹھانے کے لیے ایک کام یہ بھی کیا کہ دس لاکھ روپے کا مہر اور گاؤں میں دو کنال کا گھر بھی اپنی بیوی حسینہ کے نام کردیا- علیحدگی کی صورت میں وہ پانچ ہزار روپے ماہانہ بھی دینے پر راضی ہو گیا تھا اور اس نے ان تمام باتوں کا اندراج اسی وقت نکاح نامے میں بھی کروا دیا-

مہمانوں میں سے جس نے بھی سنا اس نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں- ایسا بڑے دل والا دولہا انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا- سب لڑکی کی قسمت پر عش عش کررہے تھے- لڑکی کا باپ تو بچھا بچھا جا رہا تھا- ماں الگ خوش خوش پھر رہی تھی- ان کی یہ کوشش تھی کہ دولہا کے ساتھ آئے ہوۓ مہمانوں کی عزت افزائی میں ذرا سی بھی کسر نہ رہ جائے- کھانا کھلنے میں کچھ دیر تھی-

لڑکی کے گاؤں کے ایک شخص جو جگت ماموں تھے، وہ بھی اس شادی سے بہت خوش تھے- انھیں تو حسینہ کی شادی کی طرف سے بالکل ہی نا امیدی ہوگئی تھی- اب اچانک جو ساری باتیں طے ہوئیں اور انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے دولہا کا حسن سلوک اور اس کی دریا دلی دیکھی تو اس سیدھے سادھے شخص کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانا نہ رہا- شادی کے سارے انتظامات ان ہی کے ہاتھ میں تھے- کاموں سے جب انھیں کچھ فرصت ملی تو وہ دولہا کے پاس آکر بیٹھ گئے- سراج الدین کی تکلیف پھر سے شروع ہوگئی تھی مگر وہ بڑی مشکل سے ضبط کیے بیٹھا تھا- ان جگت ماموں کو دیکھ کر یوں مسکرایا کہ کوئی سمجھدار ہوتا تو سمجھ جاتا کہ وہ مجبوراً مسکرا رہا ہے-

جگت ماموں نے اس سے خیر خیریت معلوم کی اور بولے- "بیٹے- تم بہت خوش قسمت ہو کہ حسینہ جیسی اچھی لڑکی تمھاری بیوی بنی ہے- شکل صورت کا کیا ہے، یہ بہت ہی خدمت کرنے والی اور نیک بچی ہے- اس کے قربانی کے جذبے کا تو کیا ہی کہنا- ابھی پچھلے سال اس کی بہن سخت بیمار پڑ گئی تھی- اس کے پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں- ڈاکٹروں نے تو جواب دے دیا تھا مگر اس بچی نے اپنا ایک گردہ بہن کو دے کر اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ماں کے سائے سے محروم ہونے سے بچا لیا- ایسی قربانیاں دینے والے لوگ اب ملتے ہی کہاں ہیں"-

جگت ماموں کی بات سن کر سراج الدین کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا- اچانک ہی اس کی کمر میں پسلیوں کے نیچے درد کی شدت میں ناقابل برداشت اضافہ ہوگیا تھا- اس نے جگت ماموں سے ایک لفظ نہ کہا، سر سے سہرا نوچ کر اتار کر صوفے پر پھینکا، اپنے ڈرائیور کو اشارے سے قریب بلایا، اس سے گاڑی کی چابیاں لیں اور نہایت مایوسی اور نا امیدی کی حالت میں لڑکھڑاتے ہوۓ قدموں سے تیزی سے گاڑی کی طرف بھاگنے لگا-

(ختم شد)

Mukhtar Ahmad
About the Author: Mukhtar Ahmad Read More Articles by Mukhtar Ahmad: 70 Articles with 132664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.