ضمیر نہیں بیچا ۔۔۔عزت نہیں بیچی

زندگی میں اچھے اور بُرے حالات آتے رہتے ہیں کسی کی زندگی میں سدا اچھا وقت نہیں رہتا اور کسی کی زندگی میں سدا بُرا وقت بھی نہیں رہتا،یعنی ایک انسان زندگی میں ہر طرح کے حالات دیکھتا ہے اگر اُس کی زندگی میں کچھ نہیں بھی ہورہا تومعاشرے میں اُسے بہت سارے لوگ ایسے ضرور ملتے ہیں جنکی زندگی میں کچھ نہ کچھ ضرور ہورہا ہوتا ہے اس طرح کے لوگوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں کچھ لوگ بُرے حالات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں تو کچھ لوگ لوگ بہت زیادہ بُرے حالات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں جبکہ کچھ لوگ تو ایسے حالات سے گزر رہے ہوتے ہیں جنکو بیان کرنے کیلئے لفظوں کی نہیں آنسوؤں کی ضرورت ہوتی ہے ۔

ضرورت کی ضرورت جب پوری نہ ہورہی ہو تو ضرورت خاموش قاتل بن کر کئی ضرورتوں کا بے دردی سے خون کر دیتی ہے کچھ لوگ ضروریات پوری کرنے کیلئے لفظوں کا استعمال اس طرح سے کرتے ہیں کہ انکی ضروریات تو پوری ہوجاتی ہیں لیکن وہ اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں اور کچھ لوگ تو ضروریات کی تکمیل کیلئے اپنی عزت تک بیچ دیتے ہیں لیکن ولیوں کے شہر ملتان کی شاہستہ سلیم نے ضروریات کو پوراکرنے کیلئے نہ ضمیر بیچا نہ عزت ۔

شاہستہ سلیم سے ملاقات اُس وقت ہوئی جب میں دلی گیٹ جاتے ہوئے 14نمبر کا سٹاپ کرا س رہا تھا راستے میں ایک لڑکی منہ کو ڈھانپے ہوئے روڈ کے کنارے پر پڑے ہوئے کچرے سے کچھ اُٹھا اُٹھا کر ایک گٹو میں ڈال رہی تھی میں یہ دیکھ کر حیران ہوگیا کہ ایک نوجوان لڑکی ایسا کیوں کر رہی ہے شکل سے تو یہ پیشہ ور بھکاری یا پھر کچرہ اٹھانے والی نہیں لگتی ۔خیر میں نے اس کے قریب جا کر گاڑی کو روکا اور اُسے سلام کیا ،سلام کا جواب ڈرے ڈرے لہجے میں ملا،میں نے کہا ڈرو نہیں میں حیران ہوں کہ تم ایک باپردہ نوجوان لڑکی ہو اور یہ سب کیا کر رہی ہو۔۔۔؟

میرے سوال کے جواب میں اُس نے کہا کہ کچھ نہیں ،کچھ نہیں ،میں تو بس ویسے ہی بیٹھی ہوں بازار جارہی تھی تو تھک گئی اس لئے یہاں بیٹھ گئی ہوں ۔۔۔اس کے لہجے میں گھبراہٹ تھی وہ پریشان بھی تھی کہ کہیں ان کو پتہ نہ چل جائے کہ میں کیا کر رہی ہوں۔۔؟میں نے دوبارہ کہا آپ کے پاس ایک گٹو ہے میں آپ کو دیکھ رہا تھا کہ آپ کچرے سے کچھ اٹھا کر اس گٹو میں ڈال رہی تھی ،اسی وجہ سے آپ کے پاس آکر رک گیا ہوں اور آپ سے اس کے متعلق پوچھ رہاہوں ۔آپ کے پاس جو گٹو ہے اس میں تو کاغذ اور گتے نظر آرہے ہیں کیا آپ یہ سب اکھٹے کر کے ان کو فروخت کرتی ہو۔۔۔؟

میرا یہ کہنا تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ رونے لگ گئی۔۔۔میں گاڑی سے اترا اور اُس کے پاس جابیٹھا اور کہا کہ بہن آپ چپ ہوجاؤ اور مجھے بتاؤ کہ آپ یہ سب کیوں کرتی ہواسکی وجہ کیا ہے ۔۔؟ہچکیوں کے ساتھ وہ کہنے لگی ہم بہت غریب لوگ ہیں اور مجبوری کی وجہ سے میں ایسا کرتی ہوں ۔میں نے پھر کہا بہن آپ پہلے چپ ہوجاؤ پھر آرام سے بتاؤ۔۔۔۔آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے اس نے بتایا کہ اُس کا نام شاہستہ سلیم ہے اور پھر اُس نے بتایا کہ میرا ابو نشہ کرتا ہے اور کوئی کام وغیر ہ نہیں کرتا ،نشے کا عادی ہونے کی وجہ سے وہ میری ماں کو بہت مارتا ہے یہاں تک کے اُس نے مار مار کے میری ماں کی ٹانگ توڑدی ہے ۔

میری ماں بھی بیمار ہے تین چھوٹے بہن بھائی ہیں جنکو بھی میر اباپ مارتاہے کہ مجھے پیسے لا کر دو میں ایف اے کر رہی ہوں امی پہلے لوگوں کے گھروں میں جاکر برتن دھو لیا کرتی تھی اب جب سے ابو نے امی کی ٹانگ توڑی ہے امی بستر پر لگ گئی ہے گھر میں کھانے پینے کا راشن بھی ختم ہوگیا ہے میں نے مد د کیلئے کئی لوگوں سے التجا کی لیکن لوگ میری بے بسی اور مجبوری کو دیکھ کر کسی اور قسم کی مدد کرنے کو تیار ہوجاتے لیکن میں نے ضمیر نہیں بیچا ،عزت نہیں بیچی ۔۔۔

جب ہر طرف سے ٹھوکریں اور مایوسی ملی تو میں نے یہ سب کرنے کے بارے میں سوچا اور اب میں منہ کو ڈھانپ کر ایک گٹو لیکر گھر سے نکل پڑتی ہوں راستے میں جہاں جہاں کوئی کاغذ گتا وغیرہ پڑا ہوتا ہے اُسے خاموشی سے اٹھاکر اپنے گٹو میں ڈال لیتی ہوں جب گٹو بھر جائے تو اُسے ردی کا کہہ کر دکاندار کو فروخت کرآتی ہوں کچھ پیسے مل جاتے ہیں جن سے میں اپنی امی کی دوائی اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لئے کھانے کا انتظام کرتی ہوں ۔

شاہستہ سلیم کی باتیں سُن کر میں انسانیت کی اُس سوچ کے بارے میں سوچنے لگ گیا کہ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں عزت بیچنے والوں اور ضمیر بیچنے والوں پر پیسوں کی بارش کی جارہی ہوتی ہے لیکن کسی غریب اور حق دار کی مدد کرنے کیلئے جیب میں ہاتھ تک ڈالنا مشکل ہوجاتاہے ۔شاہستہ سلیم کا قصور کیا ہے کہ وہ یہ سب کر رہی ہے ۔۔؟یقینا اس کا قصور یہ ہے کہ اُس نے ایک نوجوان لڑکی ہوتے ہوئے معاشرے کے ظلم وستم کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ سیسہ پلائی دیواربن کر انکا مقابلہ کیا اور کر رہی ہے۔

اﷲ بھی انہی لوگوں کا ساتھ دیتاہے جو اﷲ کی مخلوق کا ساتھ دیتے ہیں اور اﷲ اُنہی لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے جو اﷲ کی مخلوق کیلئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں تو پھر کسی کو ضمیر بیچنے پر مجبور نہ کریں ،کسی کو عزت بیچنے پر مجبورنہ کریں بلکہ ایسے لوگوں کا سہارا بنیں جنکو واقعی سہارے کی رورت ہوتی ہے اﷲ پاک ہمیں ہمارے معاشرے میں موجود غریب افراد کا صحیح معنوں میں سہار ا بننے اور بغیر کسی لالچ کے انکی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

Salman Ahmad
About the Author: Salman Ahmad Read More Articles by Salman Ahmad: 23 Articles with 20426 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.