از قلم: محمد معاویہ خان
اگر آپ کو مخلص دوست مل جائے، تو اگرچہ اس کی وجہ سے آپ کو بظاہر تھوڑا بہت
کسی نہ کسی طرح کا نقصان بھی کیوں نہ اٹھانا پڑے، پھر بھی مہنگا سودا نہیں،
کیونکہ زندگی میں آپ جس اونچے سے اونچے مقام پہ ہوں گے وہاں تک پہنچنے میں
اس کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور ہو گا۔
ہاں! البتہ اس میں شک ہے کہ:آج کے دور میں انسانوں کی یہ صنف موجود بھی ہے
یا پھر اﷲ کو پیاری ہوچکی...!
اور ہاں! میں مخلص دوست کی یہ تعریف ماننے پر تیار نہیں ہو کہ:جو آپ کی
ریسٹورنٹ جانے کی آواز پہ لبیک کہے اور آپ کا خرچہ بھی دے، یا اسی طرح کی
دوسری چیزیں..آپ اسے اپنے دوستوں میں سے اسے حاتم طائی کا لقب دیں، مجھے
کوئی اعتراض نہیں..، لیکن میں تو مخلص اسے گردانوں ہوں: جو آپکے جینے کا
انداز بدل دے، جو آپ میں سب سے آگے نکلنے کا جذبہ پیدا کردے،اور جب آپ کی
ڈھارس باندھنے والا کوئی نہ ہو، تو ایسے میں وہ آپ کے سامنے امید کا میدان
ہموار کردے، زندگی کے نشیب وفراز، راستہ کے راہزنوں سے باخبر کرنے والا ہو،
اور میرے خیال میں ایسا شخص یا آپکا والد ہوسکتا ہے یا استاد!
آپ میرے اس یوٹرن پر ضرور حیران ہوئے ہوں گے، اور ہونا بھی چاہیے، کہ ابھی
دوست کی بحث چل رہی تھی، اور ابھی والد اور استاد پہ آگئے!
میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے علاوہ آج کے دور میں کوئی مخلص نہیں ہے، ہوں گے،
ضرور ہوں گے، لیکن ایمان سے مجھے بتائیں، آج کے اس مصروف دور میں آپ اسے
کہاں ڈھونڈیں گے..؟
لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ، مشہور مثل ''گھر کی مرغی دال برابر'' کے
بمصداق، والد اور استاد سے دوری ایک فیشن میں آتی جارہی ہے... ہم ہر قسم کے
مسئلہ کو ہرکس وناکس سے بیان کریں گے، نہیں کریں گے تو استاد سے یا والد
سے...
آپ کہیں گے کچھ چیزوں میں والد اور استاد سے حجاب محسوس ہوتا ہے، چلیں آپکے
جذبات کی قدر کرتے ہوئے ان مسائل کو چھوڑتے ہیں، لیکن انکے علاوہ کتنے
مسائل میں ہم آپ والد سے گفت و شنید کرتے ہیں..؟!
پڑھائی کے سلسلے میں ہم اپنے ہر دوست سے مشورہ کریں گے، نہیں کریں گے، تو
اپنے مخلص دوست استاد صاحب سے....آخر کیوں؟ دراصل ہم استاد صاحب کو ملازم
سمجھتے ہیں، اگر استاد کے مقدس و محترم مرتبہ کی قدر ہمارے پاس ہوتی تو ہم
کسی اور طرف منہ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے!
خیر، جو ہوا، سو ہوا، اب اپنے ان مخلص دوستوں سے اپنے تعلقات میں خوشگواری
پیدا کیجئیے اور یہ دوریاں اور فاصلے مٹائیے..
|