پہلے قلم اور کاغذ کا دور تھا اوراس سے پہلے کپڑے ،درختوں
کی چھال اور چمڑے پہ لکھا جاتا تھا۔ اب سکرین اور کی بورڈ پہ لکھا جاتا ہے
اس سے جہاں ہمارا وقت بچتا ہے وہیں اخبار والوں کو بھی آسانی رہتی ہے ۔
پچھلے ڈیڑھ ماہ میں کئی بار کی بورڈ پہ انگلیاں رکھیں لیکن دماغ کو غائب
پاکر بغیر کچھ لکھے اٹھ گیا ، میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ لکھنے کے لئے دل
ودماغ کا درد مند اور حساس ہونا بہت ضروری ہوتا ہے ۔ پچھلے چند ہفتوں میں
تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھنے سمیت بہت سارے ایشوز کھڑے ہوئے جن پر میں چاہ
کر بھی کچھ نہیں لکھ سکا ۔ گذشتہ تین چار دنوں میں ہوئے تین واقعات نے مجھے
جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔ لاہور کےایک غریب پان شاپ والے کو عدالت نے کسی چھوٹے
موٹے جرم میں پانچ دن کے لئے جیل بھیجا ، جس کی واپسی چھ سال بعد ہوئی ہے ،
چھ سال بعد پتہ نہیں کس فرشتے کو اس غریب کا خیال آگیا کہ اسے رہائی مل گئی
اور عدالت بھی شرمندہ ہے وگرنہ ہم تو اس ملک میں زندہ ہیں کہ اگر یہ بیچارہ
ساری عمر بھی جیل میں گزار دیتا تو کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ یہاں تو ایسے
واقعات بھی ہوئے ہیں کہ بے گناہ پھانسی چڑھ گئے اور انیس سال بعد انہیں بے
گناہ قرار دے دیا گیا ، ایسے انصاف اور نظام پہ چار حرف بھیجنے تو بنتے ہیں
۔
دوسرا واقعہ بھی لاہور سے ہی ہے ، ہمارے گھروں میں آٹا رکھنے کے لئے جستی
چادر سے بنی ہوئی بیٹیاں استعمال کی جاتی ہیں ، ہنجروال کے ایک گھر میں
ایسی ہی پیٹی دھو کر خشک ہونے کےلئے رکھی ہوئی تھی ،اس پیٹی کی ایک خاص بات
یہ ہے کہ اسکی چھت جب گرتی ہے تو خود بخود کنڈی لگ جاتی ہے جسے اندر سے
کھولنا ناممکن ہوتاہے، دو چھوٹے چھوٹے معصوم بچے کھیلتے کھیلتے اس کے اندر
جا بیٹھے ، یہ پیٹی بند ہوگئی اور دونوں ننھے فرشتوں کی دم گھٹنے سے موت
واقع ہوگئی، ایک ہنستابستاگھر تکلیف اور غم کا منظر پیش کررہاہے، میرے بھی
ایسی ہی عمر کے دو بچے ہیں میں گذشتہ ساری رات سو نہیں سکا ، بار بار یہ
معصوم بچے اور ان کے ماں باپ کا خیال لرزا جاتا تھا، اللہ تعالی ان بچوں کے
والدین کو صبر اور ہمت دے ۔آمین
پیپلز پارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ کا نوجوان بیٹا اسامہ اپنے دوست کے
ساتھ ایک موٹر سائکل سوار کو بچاتا خود موت کی وادی میں چھلانگ لگا گیا ،
سوشل میڈیا کے جہاں بہت سارے فوائد ہیں وہیں بہت سارے نقصانات بھی ہیں ۔
کار میں پھنسی بچے کی لاش کی تصاویر اور ویڈیوز نے دل کو بہت تکلیف پہنچائی
، کیسا خوبصورت بچہ تھا اور کتنی بے رحم ہے موت جواپنوں کو ویران قبرستان
کی مٹی تلے دبا دینے پہ مجبور کردیتی ہے ۔ قمر زمان کائرہ ایک رات میں ہی
بڑے اجڑے اجڑے اور ٹوٹے پھوٹے محسوس ہوئے ، امید ہے دنیا کی بے ثباتی پہ ان
کا یقین اب کچھ اور بڑھ گیا ہوگا اور اب وہ ان لاکھوں پاکستانیوں کے بارے
میں بھی کچھ کرنا چاہیں گے جن کا ہر دن کٹھن، دشواراور تکلیف دہ اور ہر رات
سو طرح کی فکروں اور اندیشوں میں گھری رہتی ہے ۔
قارئین کرام دس رمصان المبارک کو میرا چھوٹا بھائی طاہر ہم سے بچھڑے ہوئے
دوسال بیت گئے، یہ سال بڑے المناک تھے، اللہ تعالی اس پہ اپنی رحمتیں نازل
کرے اور جنت میں بہترین مقام سے نوازے آمین۔ اپنی ایک چھوٹی سی نثری نظم ان
سب کے لئے جو اپنے دل میں اپنے کسی پیارے عزیز کی جدائی کا غم رکھتے ہیں
"ہر قدم پہ تیری یاد آتی ہے
کہیں جاتے ہوئے
گھر واپس آتے ہوئے
اب کہیں رات رہ نہیں سکتا
غم کے بادل سہہ نہیں سکتا
تیرے بن کیسے جئے ہیں
یہ دوسال
بخدا مشکل ہے کہہ نہیں سکتا
ابو کا اوپری دل سے ہنسنا
امی کا چھپ چھپ کے رونا
دیکھ رہا ہوں سب کا
تیرے لئے پرملال ہونا
تقدیر کو جلدی آنے کی تھی
یہ عمر بھی کوئی جانے کی تھی
لوٹ کہ اب تو آئے کیسے
چین یہ دل پائے کیسے
تو میرے دل کا حوصلہ تھا
میری روح کا قرار تھا
اب میں ہر لمحہ
اضطراب اوڑھے ہوئے ہوں
سو فکروں میں گھرا ہوا " |