کمسن صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا شوقِ جہاد-2

حضرت رافع ؓ اور سمرہ ؓ کا جہاد میں شرکت کے لئے مقابلہ:
حضرت رافعؓ کا پورا نام رافع بن خدیج بن رافع الاوسی الانصاری تھا۔ آپؓ نے اپنے آپ کو غزوہ بدر کے موقع پر بھی پیش کیا تھا۔ مگر کم عمری کے باعث رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے واپس فرما دیا تھا مگر پھر غزوہ احد کے موقع پر اجازت مرحمت فرما دی۔ آپؓ احد، خندق اور اکثر جنگوں میں شریک ہوئے۔ احد کی لڑائی میں آپ کے سینے میں ایک تیر لگا جو کہ نکال لیا گیا مگر اسکا پھل اندر رہ گیا جو کہ وفات تک آپ کے جسم میں رہا۔ رسول اللہ اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ سے فرمایا ”میں قیامت کے دن تمہاری گواہی دونگا“ عبدالملک بن مروان کے دور میں آپکا وہی زخم ہرا ہوگیا اور اسی میں آپ کا وصال ہوا۔ اس وقت آپ کی عمر 74یا86 سال تھی۔

جبکہ حضرت سمرہؓ کا پورا نام سمرة بن جندب بن ہلال الغزاری تھا۔ آپ کے والد کی وفات کے بعد آپ کی والدہ آپ کو لے کر مدینہ منورہ تشریف لے آئیں تھیں اور ایک انصاری حضرت مرہ بن سنان بن ثعلبہ سے شادی کرلی۔ انہیں کی گود میں پل کر آپ بڑے ہوئے۔ سن58یا 59 ہجری میں بصرہ میں انتقال فرمایا۔

غزوہ احد میں انکی شرکت کا واقعہ بڑا ہی عجیب ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ نبی اکرم اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جب لڑائی کے لئے تشریف لے جاتے تو مدینہ منورہ سے باہر جانے کے بعد لشکر کا معائنہ فرماتے۔ ان کے احوال کو، ان کی ضرورتوں کو دیکھتے اور لشکر کی اصلاح فرماتے۔ کم عمر بچوں کو واپس فرما دیتے۔ یہ حضرات شوق میں نکل پڑے چنانچہ اُحد کی لڑائی کےل ئے جب تشریف لے جانا ہوا تو ایک موقع پر جا کر لشکر کا معائنہ فرمایا اور نوعمروں کو لڑکپن کی وجہ سے واپس فرما دیا جن میں حضرات ذیل بھی تھے۔ عبداللہ بن عمرؓ، زید بن ثابتؓ، اُسامہ بن زیدؓ، زید بن ارقمؓ، براءبن عازبؓ، عمرو بن حزمؓ، اُسید بن ظُہیرؓ، عُرابہ بن اَوسؓ، ابو سعید خدریؓ، سمرة بن جُندُبؓ، رافع بن خدیجؓ کہ ان کی عمریں تقریباً تیرہ چودہ برس کی تھیں۔ جب ان کو واپسی کا حکم ہوا تو حضرت خدیجؓ نے سفارش کی اور عرض کیا یارسول اللہ اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میرا لڑکا رافع تیر چلانا بہت اچھا جانتا ہے اور خود رافع بھی اجازت کے اشتیاق میں اُبھر اُبھر کر کھڑے ہوتے تھے کہ قد لمبا معلوم ہو۔ حضور اکرم اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت عطا فرمادی تو سمرة بن جُندُبؓ نے اپنے سوتیلے باپ مُرّة بن سِنان سے کہا کہ حضور ا نے رافعؓ کو تو اجازت مرحمت فرما دی اور مجھے اجازت نہیں عطا فرمائی حالانکہ میں رافعؓ سے قوی ہوں اگر میرا اور اس کا مقابلہ ہو تو میں اس کو پچھاڑ لوں گا۔ حضور اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کا مقابلہ کرایا تو سمرةؓ نے رافعؓ کو واقعی پچھاڑ لیا۔ اس لئے حضور اکرم اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سمرةؓ کو بھی اجازت عطا فرمادی۔ اس کے بعد اور بچوں نے بھی کوشش کی اور بعضوں کو اجازت بھی مل گئی۔

حضرت سلمة بن الاکوع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا پیدل دشمن کا تعاقب کرنا:
آپ کا اسم گرامی سلمہؓ بن اکوع اسلمی تھا۔ بیعتِ رضوان کے موقع پر دوبار بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی۔ آپؓ نہایت بہادر، مشاق تیر انداز اور برق رفتار تھے۔ نبی کریم اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوئے سن74ہجری میں بعمر80 سال مدینہ منورہ میں انتقال فرمایا۔ آپ اپنی بہادری، تیراندازی اور برق رفتاری میں مشہور تھے۔ جس کا بہترین شاہد غزوہ ذات قرد ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ غابہ مدینہ طیبہ سے چار پانچ میل پر ایک آبادی تھی۔ وہاں حضور اقدس اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ اونٹ چرا کرتے تھے۔ کافروں کی ایک جماعت کے ساتھ عبدالرحمن فزاری نے اُن کو لوٹ لیا۔ جو صاحب چراتے تھے ان کو قتل کردیا اور اونٹوں کو لے کر چل دیئے۔ یہ لٹیرے لوگ گھوڑوں پر سوار تھے اور ہتھیار لگائے ہوئے تھے اتفاقاً حضرت سلمہ بن اکوعؓ صبح کے وقت پیدل تیر کمان لئے ہوئے غابہ کی طرف چلے جارہے تھے کہ اچانک ان لٹیروں پر نگاہ پڑی بچے تھے دوڑتے بہت تھے کہتے ہیں کہ ان کی دوڑ ضرب المثل اور مشہور تھی۔ یہ اپنی دوڑ میں گھوڑے کو پکڑ لیتے تھے اور گھوڑا ان کو نہیں پکڑ سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی تیر اندازی میں بھی مشہور تھے۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ نے مدینہ منورہ کی طرف منہ کر کے ایک پہاڑی پر چڑھ لوٹ کا اعلان کیا اور خود تیر کمان ساتھ تھی ہی ان لٹیروں کے پیچھے دوڑے حتیٰ کہ ان کے پاس تک پہنچ گئے اور تیر مارنے شروع کئے اور اس پھرتی سے دما دم تیر برسائے کہ وہ لوگ بڑا مجمع سمجھے اور چونکہ خود تنہا تھے اور پیدل بھی تھے اس لئے جب کوئی گھوڑا لوٹا کر پیچھا کرتا تو کسی درخت کی آڑ میں چھپ جاتے اور آڑ میں سے اس کے گھوڑے کو تیر مارتے جس سے وہ زخمی ہوتا اور وہ اس خیال سے واپس جاتا کہ گھوڑا گر گیا تو میں پکڑا جاﺅں گا۔ حضرت سلمہؓ فرماتے ہیں غرض وہ بھاگتے رہے اور میں پیچھا کرتا رہا حتیٰ کہ جتنے اونٹ انہوں نے حضور اکرم اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لوٹے تھے وہ میرے پیچھے ہوگئے اور اس کے علاوہ تیس برچھے اور تیس چادریں وہ اپنی چھوڑ گئے اتنے میں عُینیہ بن حصن کی ایک جماعت مدد کے طور پر ان کے پاس پہنچ گئی اور ان لٹیروں کو قوت حاصل ہوگئی۔ یہ بھی ان کو معلوم ہوگیا کہ میں اکیلا ہوں۔ ان کے کئی آدمیوں نے مل کر میرا پیچھا کیا۔ میں ایک پہاڑ پر چڑھ گیا وہ بھی چڑھ گئے۔ جب میرے قریب ہوگئے تو میں نے زور سے کہا کہ ذرا ٹھہرو پہلے میری ایک بات سُنو تم مجھے جانتے بھی ہو کہ میں کون ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بتا کون ہے۔ میں نے کہا میں ابن الاکوع ہوں۔ اُس ذات پاک کی قسم جس نے محمد اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو عزت دی تم میں سے اگر کوئی مجھے پکڑنا چاہے تو نہیں پکڑ سکتا اور تم میں سے جس کو میں پکڑنا چاہوں وہ مجھ سے ہرگز نہیں چھوٹ سکتا۔ اُن کے متعلق چونکہ عام طور سے یہ شہرت تھی کہ بہت زیادہ دوڑتے ہیں حتیٰ کہ عربی گھوڑا بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس لئے یہ دعویٰ کچھ عجیب نہ تھا۔ سلمہؓ کہتے ہیں کہ میں اسی طرح ان سے بات چیت کرتا رہا اور میرا مقصود یہ تھا کہ ان لوگوں کے پاس تو مدد پہنچ گئی ہے مسلمانوں کی طرف سے میری مدد بھی آجائے کہ میں بھی مدینہ میں اعلان کر کے آیا تھا۔ غرض ان سے اسی طرح میں بات کرتا رہا اور درختوں کے درمیان سے مدینہ منورہ کی طرف غور سے دیکھتا رہا کہ مجھے ایک جماعت گھوڑے سواروں کی دوڑ کر آتی ہوئی نظر آئی ان میں سے سب سے آگے اخرم اسدیؓ تھے انہوں نے آتے ہیں عبدالرحمن فزاری پر حملہ کیا اور عبدالرحمن بھی اُن پر متوجہ ہوا۔ انہوں نے عبدالرحمن کے گھوڑے پر حملہ کیا اور پاﺅں کاٹ دیئے جس سے وہ گھوڑا گرا اور عبدالرحمن نے گرتے ہوئے ان پر حملہ کردیا جس سے وہ شہید ہوگئے اور عبدالرحمن فوراً ان کے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ ان کے پیچھے ابو قتادہؓ تھے فوراً انہوں نے حملہ شروع کردیا۔ عبدالرحمن نے ابو قتادہؓ کے گھوڑے کے پاﺅں پر حملہ کیا جس سے وہ گرے اور گرتے ہوئے انہوں نے عبدالرحمن پر حملہ کیا جس سے وہ قتل ہوگیا اور ابو قتادہؓ فوراً اس گھوڑے پر جو اخرم اسدیؓ کا تھا اور اب اس پر عبدالرحمن سوار ہورہا تھا سوار ہوگئے۔

بعض تواریخ میں لکھا ہے کہ حضرت سلمہؓ نے اخرم اسدیؓ کو حملہ سے روکا بھی تھا کہ ذرا ٹھہر جاﺅ اپنا مجمع اور آنے دو مگر انہوں نے فرمایا کہ مجھے شہید ہونے دو۔ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں صرف یہی شہید ہوئے اور کفار کے بہت سے آدمی اس لڑائی میں مارے گئے۔ اس کے بعد بڑا مجمع مسلمانوں کا پہنچ گیا اور وہ لوگ بھاگ گئے تو حضرت سلمہؓ نے حضور اقدس اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے ساتھ 100 آدمی کردیں تو میں ان کا پیچھا کروں مگر حضور اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اپنی جماعتوں میں پہنچ گئے۔ اکثر تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلمہؓ کی عمر اس وقت بارہ یا تیرہ برس کی تھی۔ بارہ تیرہ برس کا لڑکا گھڑ سواروں کی ایک بڑی جماعت کو اس طرح بھگا دے کہ ہوش و حواس گم ہوجائیں جو لُوٹا تھا وہ بھی چھوڑ دیں اور اپنا سامان بھی چھوڑ جائیں۔ یہ اسی اخلاص کی برکت تھی جو اللہ جل شانہ نے اس جماعت کو نصیب فرمایا تھا۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372647 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.