سرمایہ کاری کے دورمیں حقیقی مستقل سرمایہ کاری

 وقت جوں جوں ترقی کرتاجارہاہے۔ ہماری ترجیحات بھی بدلتی جارہی ہیں۔ کسی زمانے میں کاروبار،ملازمت، مزدوری سمیت روزگارکمانے کے دستیاب تمام ذرائع میں سے کوئی ایک یااس سے زیادہ ذرائع صرف اورصرف اس لیے اختیارکیے جاتے تھے تاکہ اپنااوراپنے بیوی بچوں،اپنے والدین اور زیر کفالت افرادکاپیٹ پال سکیں۔ ان کی ضروریات پوری کرسکیں،ان کے لیے محفوظ رہائش گاہ کاانتظام کرسکیں۔پرانے وقتوں میں ایک دن میں اتناپیسہ ہی کمایاجاتا جتنااس دن کی ضرورت ہوتا۔ گزرے ہوئے دورمیں کسی کوآنے والے وقت کے لیے بچاکررکھنے کی فکرنہیں ہواکرتی تھی۔ان کاایمان اورعقیدہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے آج کارزق عطافرمادیاہے۔ آج کے بعدجب تک زندگی ہے اﷲ تعالیٰ رزق دیتارہے گا۔پرانے زمانوں میں طرززندگی بھی سادہ تھا۔ سادہ خوراک، سادہ لباس، سادہ رہائش ،سادہ زندگی۔ان میں نمودونمائش اورفیشن نام کی کوئی چیزنہیں تھی۔ اس لیے ان کے اخراجات بھی محدودتھے۔ جب اخراجات محدودتھے توانہیں زیادہ کمائی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔اس وقت کے لوگوں کی ترجیحات رزق حلال کمانا، رزق حلال کھانا،پینااورحلال پہنناتھا۔نہ آنے والے وقتوں کی فکراورنہ ہی بچاکرجمع کرنے کالالچ۔وقت گزرتارہا۔ ترجیحات بھی بدلتی رہیں۔طرززندگی بدل جانے سے لباس، رہائش، خوراک اوررہن سہن کے معیارتبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی طورپربلندہوتے گئے۔جس کی وجہ سے اخراجات میں اضافہ ہوگیا۔کسی دورمیں اکثرلوگوں کے پاس ایک ہی سوٹ ہواکرتاتھا۔ جسے وہ دن میں پہن کراپناکام کرتے، روزگارکماتے اوررات کواسی کوسوٹ کودھوکرپھیلادیتے تھے تاکہ صبح تک پہننے کے قابل ہوجائے۔لباس تبدیل کرنے میں ترقی کرتے کرتے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ روزانہ ایک سوٹ توضرورتبدیل کیاجاتاہے۔ ایسے ایسے لوگ بھی ہیں۔جوصبح کے وقت الگ اورشام کوالگ سوٹ پہنتے ہیں۔البتہ جوغریب ہیں جن کی آمدنی کم ہے وہ ہفتہ میں ایک یادوبارسوٹ تبدیل کرلیتے ہیں۔ پرانے زمانوں میں لوگ صرف عیدین پرنئے سوٹ سلواتے تھے۔پھروہی سوٹ شادیوں اورتقریبات وغیرہ میں ساراسال پہن کرجایاکرتے۔گزشتہ عیدین پرسلوائے گئے کپڑوں کے سوٹ روزانہ پہنناشروع کردیتے۔ اب اس میں بھی ترقی ہوچکی ہے۔ اب عیدین پربھی نئے سوٹ سلوائے جاتے ہیں اورہرشادی اورہرتقریب کے لیے بھی نئے سوٹ سلوائے جاتے ہیں۔یہاں تک کہ ایک شادی میں شرکت کے لیے نئے سوٹ سلوائے گئے ہیں اس کے ایک مہینہ بعدایک اورشادی میں شرکت کرنی ہے توا س کے لیے بھی نئے سوٹ سلوائے جاتے ہیں۔ایک ماہ پہلے سلوائے گئے کپڑوں کوشادی میں پہن کرجانے کومعیوب سمجھاجاتاہے۔پہلے وقتوں میں خوراک بھی سادہ ہواکرتی تھی۔اب ہماری خورک کے معیاربھی اونچے ہوگئے ہیں۔گزرے ہوئے وقتوں میں سادہ سے گھرمیں سکون وآرام کے ساتھ زندگیاں گزرجایاکرتی تھیں۔اب گھرترقی کرکے کوٹھیوں میں اورفلیٹ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔چندمرلوں کے گھراب کنالوں بلکہ ایکڑ تک پھیل چکے ہیں۔ ترجیحات بدلنے ،زندگی کے معیاربلندہونے سے اخراجات میں بھی اضافہ ہوتاجارہا ہے۔اخراجات میں اضافہ ہوجانے سے آمدنی میں بھی اضافہ کرنے کی ضرورت پڑی۔ آمدنی میں اضافے کے لیے روزگارکمانے کے ذرائع میں بھی اضافہ ہونے لگا۔اب ترقی کرتے کرتے ضروریات ترجیحات میں اورترجیحات بچت میں تبدیل ہوچکی ہیں۔اسی وجہ سے اب ایسے کاروباریاایسے روزگارکے ذرائع کوترجیح دی جاتی ہے جس میں اخراجات کم سے کم اورآمدنی اوربچت زیادہ سے زیادہ ہو اسی کوموجودہ دورمیں سرمایہ کاری کہتے ہیں۔ موجودہ دورمیں ایسے کاموں میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ سرمایہ لگایاجائے بعدمیں سال ہاسال تک اس سے بچت نماآمدنی حاصل کرتے رہیں ۔ یہ ٹرانسپورٹ سسٹم، یہ رہائشی کالونیاں وغیرہ اس کی مشہورمثالیں ہیں۔ اس تحریرمیں یہاں تک جوالفاظ لکھے گئے ہیں وہ صرف اس لیے کہ آپ کوسرمایہ کاری کی اہمیت بتائی جاسکے۔یہ سرمایہ کاری اس دنیاکی ہے۔ اس دنیامیں ہی کی جاتی ہے اوراس سے آمدنی بھی اسی دنیامیں حاصل ہوتی ہے۔یہ غیرمستقل سرمایہ کاری ہے۔ اس سے ہمیں قبراورحشرمیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
صرف اس سرمایہ کاری کافائدہ قبرمیں بھی ملے گااورمحشرمیں بھی جورزق حلال کمانے کے لیے کی جائے۔اکثرسرمایہ کاردنیاوی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ بہت کم ایسے مسلمان ہیں جوحقیقی اورمستقل سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ حقیقی اورمستقل سرمایہ کاری کے ثمرات دنیامیں بھی ملتے ہیں ،قبراورحشرمیں بھی۔ ہمیں اس سرمایہ کاری کے دورمیں حقیقی مستقل سرمایہ کاری کرنی چاہیے ۔ جس طرح غیرمستقل دنیاوی سرمایہ کاری کے وسیع مواقع موجودہیں اسی طرح حقیقی اورمستقل سرمایہ کاری کے بھی وسیع مواقع موجودہیں۔اس وقت دنیاوی تعلیم پربھی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ اس امیدپرکہ آنے والے وقتوں میں طالب علم بڑے بڑے عہدوں پرفائزہوں گے۔ لاکھوں روپے ماہانہ آمدنی حاصل کریں گے۔ اس کے برعکس دینی تعلیم پربہت کم سرمایہ کاری ہورہی ہے کہ دینی تعلیم دینے والے اداروں کے ضروری اخراجات بھی مشکل سے پورے ہوتے ہیں۔جس سرمایہ کاری کافائدہ صرف اس دنیامیں ملتا ہے اس پرہماری توجہ زیادہ ہے اورجس سرمایہ کاری کافائدہ تمام جہانوں میں ملتاہے اس کی طرف بہت کم مسلمانوں کی توجہ ہے۔ مدینہ منورہ میں قحط پڑا۔ خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کاایک تجارتی قافلہ مدینہ منورہ میں آیا۔ شہرکے تاجروں کواس قافلہ کی آمدکی اطلاع ملی توہ مال تجارت خریدنے کے لیے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے پاس پہنچ گئے تاکہ خریدکرتقسیم کرسکیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا یہ مال تجارت بولی لگاؤ۔ کسی نے کہا ایک سوکے ایک سوپانچ لے لو، کسی نے کہا ایک سوکے ایک سودس لے لو۔سب سے زیادہ بولی جس تاجرنے لگائی وہ یہ تھی کہ ایک سوکے ایک سوبیس لے لو۔حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اس سے زیادہ منافع مل رہاہے۔تاجرحیران ہوگئے کہ کون ہے وہ جواس سے بھی زیادہ منافع دے رہاہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ مجھے ایک کے دس مل رہے ہیں کیاتم میں سے کوئی اتنامنافع دے سکتاہے۔ سب تاجروں نے کہا نہیں اورپوچھا کہ کون ہے وہ جواتنامنافع آپ کودے رہاہے ۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا اﷲ تعالیٰ۔ اس کے ساتھ ہی خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے اپنامال تجارت مدینہ کے غریبوں میں تقسیم کردیا۔ دنیاوی اورغیرمستقل سرمایہ کاری کانفع فیصدکے تناسب سے ملتاہے جب کہ حقیقی اورمستقل سرمایہ کاری کامنافع گنا کے تناسب سے ملتاہے۔ دنیاوی سرمایہ کاری کانفع ایک سوسے زیادہ سے زیادہ ایک سوپچاس مل جاتے ہیں جب کہ حقیقی اورمستقل سرمایہ کاری کانفع ایک سوسے ایک ہزارملتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ بھی مل سکتے ہیں۔ رمضان المبارک میں یہ نفع سترگنابڑھ جاتاہے۔عام دنوں میں ایک نیکی کاثواب دس نیکیوں جب کہ رمضان المبارک میں سات سونیکیوں کے برابر ملتاہے۔ایک نمازپڑھنے سے دس نمازوں کاثواب ملتاہے اورہرنیکی کااجربھی دس گناملتا ہے۔ اب گھرمیں عام حالات میں ایک نمازتنہااداکریں گے توسو نمازوں کاثواب ملے گا ۔مسجدمیں ایک نمازتنہااداکریں گے توپانچ سونمازوں کاثواب ملے گا۔سرپرعمامہ پہن کراورخوشبولگاکرنمازاداکرنے سے ستائیس ستائیس نمازوں کاثواب ملتاہے۔ عمامہ پہن اورخوشبولگاکرگھرمیں تنہانمازاداکریں گے توچھ سوچالیس نمازوں کاثواب ملے گا اوراگراسی طرح پانچ وقت کی نمازاداکریں گے توچوالیس ہزارآٹھ سونمازوں کاثواب ملے گا۔عمامہ پہن کر، خوشبولگاکرمسجدمیں تنہاایک نمازاداکرنے کاثواب ایک ہزارچالیس نمازوں جب کہ پانچ وقت کی نمازاسی طرح مسجدمیں اداکرنے سے ۷۲ ہزارآٹھ سونمازوں کاثواب ملے گا۔ ۲۷ ہزارآٹھ سوکوسترسے ضرب دے دیں تویہ ثواب پانچ نمازوں کا رمضان المبارک میں مسجدمیں تنہااداکرنے سے ملے گا۔ گھرمیں تنہانمازاداکی جائے دس نمازوں کاثواب ملتاہے ، جماعت کے ساتھ اداکی جائے توستائیس نمازوں اسی طرح عمامہ پہن اورخوشبولگاکرنمازاداکی جائے توستائیس ستائیس نمازوں کاثواب ملتاہے۔ گھرمیں جماعت کے ساتھ عمامہ پہن کرخوشبولگاکرایک نمازاداکی جائے توآٹھ ہزارایک سونمازوکاثواب ملتاہے۔اسی طرح پانچ نمازیں اداکی جائیں توچالیس ہزارپانچ سونمازوں کاثواب ملے گا۔مسجدمیں جماعت کے ساتھ عمامہ پہن کرخوشبولگاکرایک نمازاداکی جائے توتیرہ ہزارایک سونمازوں جب کہ پانچ اسی طرح پانچ نمازیں اداکی جائیں تو ۶۵ ہزارپانچ سو نمازوں کا اجر ملتا ہے ۔ اسی طرح رمضان المبارک میں گھرمیں ایک نمازباجماعت اداکریں ۵۶ ہزارسات سونمازوں کااورپانچ نمازیں گھرمیں باجماعت اداکریں تو پانچ لاکھ ۶۷ ہزارنمازوں کااجرملے گا۔ رمضان المبارک میں مسجدمیں جماعت کے ساتھ ایک نمازاداکریں گے تو۹۱ ہزارسات سو اسی طرح پانچ نمازیں اداکرنے کاثواب ۴۵ لاکھ ۸۵ ہزارنمازوں کے برابرثواب ملے گا۔جماعت کے ساتھ اداکریں گے ۔ جامع مسجدمیں نمازاداکرنے کااجرپانچ سوگناملتاہے۔عام دنوں میں جامع مسجد میں جماعت کے ساتھ چالیس لاکھ پچاس ہزارنمازوں کاثواب ملتاہے۔ پانچ نمازیں اداکی جائیں تودوکروڑدولاکھ پچاس ہزارنمازوں کااجرملے گا۔رمضان المبارک میں جامع مسجدمیں باجماعت پانچ نمازیں اداکرنے سے ایک ارب اکتالیس کروڑ ۷۵ لاکھ نمازوں کاثواب ملے گا۔ ایک باردورودشریف پڑھاجائے تودس نیکیاں ملتی ہیں ،دس گناہ معاف ہوتے ہیں اوردس درجات بلندہوتے ہیں۔ رمضان المبارک میں ایک باردوردشریف پڑھاجائے توسات سونیکیاں ملتی ہیں سات سوگناہ معاف ہوتے ہیں اورسات سودرجات بلندہوتے ہیں۔ قرآن پاک کاایک حرف پڑھاجائے تودس نیکیاں ملتی ہیں رمضان المبارک میں ایک قرآن پاک کاایک حرف تلاوت کرنے سے سات سونیکیاں ملتی ہیں۔تین مرتبہ سورۃ اخلاص تلاوت کی جائے توایک ختم قرآن پاک کاثواب ملتاہے۔ رمضان المبارک میں تین بارسورۃ اخلاص تلاوت کی جائے توسترختم قرآن پاک کاثواب ملے گا۔عام دنوں میں ایک نیکی کاثواب دس نیکیوں کے برابرجب کہ رمضان لمبارک میں سترگناکے تناسب سے سات سونیکیوں کے برابراجرملتاہے۔ اسی طرح عام دنوں میں کسی کواﷲ تعالی کی رضااوررسول کریم کی خوشنودی کے لیے ایک روٹی دیں گے، ایک گلاس پانی پلائیں گے اورایک سوٹ خریدکردیں گے تواس کااجردس روٹیوں، دس گلاس پانی اوردس سوٹ کے برابرملے گا ۔جب کہ رمضان المبارک میں یہ نیکیاں کرنے سے سات سوروٹیوں، سات سوگلاس پانی اورسات سوسوٹ خریدکردینے کااجرملتاہے۔ عام دنوں میں ایک پیاسے کوپانی پلائیں گے تو دس پیاسوں کوپانی پلانے کاثواب ملے گا اوررمضان المبارک میں سات سوپیاسوں کوپانی پلانے کاثواب ملے گا۔ اسی طرح عام دنوں میں ایک بھوکے کو کھانا کھلانے سے دس بھوکوں کوکھاناکھلانے جب کہ رمضان المبارک میں سات سوبھوکوں کوکھاناکھلانے کاثواب ملتاہے۔ عام دنوں میں کسی ایک بے روزگارکے لیے روزگارکاانتظام کردیاجائے تودس بے روزگاروں کوروزگاردینے جب کہ رمضان المبارک میں سات سوبے روزگاروں کوروزگاردینے کااجرملے گا۔اسی طرح جو بھی نیکی کریں گے عام دنوں میں دس نیکیوں اوررمضان المبارک میں سات سونیکیوں کے برابراجرملے گا۔ رمضان المبارک میں روزہ افطارکرانے کاثواب روزہ رکھنے والے برابرملتاہے۔ اوریہ اجرکھجورکے ایک دانہ، پانی کے ایک گلاس سے روزہ افطارکرانے سے بھی اﷲ تعالی دے دیتاہے۔ اس سے روزہ افطارکرانے کا ثواب تومل جائے گامگرفرض ادانہیں ہوگا۔ کبھی ہم نے سوچابھی نہیں ہے کہ ہم حقیقی اورمستقل سرمایہ کاری میں اپناکتنانقصان کررہے ہیں۔ ایک نمازگھرمیں تنہا ادا کی جائے تو سونمازوں اورجماعت کے ساتھ اداکی جائے توستائیس سونمازوں کاثواب ملتاہے۔ گھرمیں پانچ نمازیں جماعت کے ساتھ اداکی جائیں توتیرہ ہزار پانچ سونمازوں کاثواب ملتاہے۔ عام دنوں میں مسجدمیں جماعت کے ساتھ توایک لاکھ ۳۵ ہزارنمازوں اورجامع مسجدمیں جماعت کے ساتھ ایک نمازاداکی جائے توتیرہ لاکھ پچاس ہزارنمازوں کاثواب ملتا ہے۔ رمضان المبارک میں جماعت کے ساتھ ایک نمازاداکی جائے ۹۴ لاکھ پچاس ہزارنمازوں کاثواب ملتا ہے۔ اب آپ خودسوچیں عام دنوں میں ایک نمازادانہ کرکے آپ کتنانقصان کرتے ہیں اوررمضان المبارک میں ایک نمازادانہ کرکے آپ اپناکتنانقصان کرتے ہیں ۔اسی طرح اندازہ لگائیں آپ عام دنوں میں کتنی نمازیں اوررمضان المبارک میں کتنی نمازیں اداکرکے اپناکتنانقصان کرچکے ہیں۔ رمضان المبارک کاایک روزہ جان بوجھ کربغیرکسی شرعی عذرکے نہ رکھاجائے توزندگی بھرکے روزے اس کانعم البدل نہیں ہوسکتے۔ آپ خوداندازہ لگائیں آپ اب تک کتنے روزے قضا کرکے اپناکتنانقصان کرچکے ہیں۔ دنیاوی کاموں میں نقصان ہوجائے تو قرضہ مل جاتا ہے جس سے نقصان کوپوراکیاجاسکتاہے۔ قیامت کے دن ایک ایک نیکی کی شدیدضرورت ہوگی اورمحشرکے دن ادھارپرنیکیاں نہیں ملیں گی۔یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جونقصان پوراہوسکتاہے اس سے بچنے کے لیے کیاکیانہیں کیاجارہا اورجونقصان پورانہیں ہوسکتا اس کی ہمیں فکرہی نہیں۔یہ بات سچ ہے اورراقم الحروف کااس پرایمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ جسے چاہے بخش دے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کی کوئی ایک نیکی قبول کرکے اسے چاہے گاتوبخش دے گا۔ اﷲ تعالیٰ جس کوچاہے گابخش دے گایہ توکوئی نہیں جانتا کہ اﷲ تعالیٰ کس کوبخش دے گا۔ یہ بات بھی ہم سب جانتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اپنے جس بندے کی چاہے گا اس کی کوئی بھی ایک نیکی قبول کرکے اس کوبخش دے گا مگریہ توکوئی نہیں جانتا کہ اﷲ تعالیٰ کس کی کون سی نیکی قبول کرکے اسے بخش دے گا۔ اس لیے ہمیں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ہرنیکی صرف اﷲ تعالیٰ کی رضا اوررسول کریم کی خوشنودی کے لیے کرنی چاہیے۔کسی بھی نیک کام کومعمولی سمجھ کرچھوڑنہیں دیناچاہیے ۔کیامعلوم وہی نیک کام اﷲ تعالیٰ قبول کرلے اورہماری بخشش کاسبب بن جائے۔ رمضان المبارک زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کاسنہری موقع ہے ۔افسوس صدہزارافسوس کہ ہمیں اس سنہری موقع کی قدرہی نہیں ہے۔ کوئی ایسامذہبی یافلاحی کام کرجائیں جس سے اﷲ تعالیٰ کی مخلوق مسلسل فائدہ اٹھاتی رہے تواس کااجربھی مسلسل ملتا رہے گا ،زندگی میں بھی اورقبروحشرمیں بھی ۔نیک کاموں کااجروثواب خلوص نیت کے مطابق ملتاہے۔ کوئی بھی نیک کام کرتے وقت ہماری نیت جتنی خالص اوردنیاوی نمودونمائش سے پاک ہوگی اس کااجربھی اتناہی زیادہ ملے گا۔ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ آپ مسجدمیں بیٹھے رہیں۔ نمازپنجگانہ اداکریں۔ رمضان المبارک کے روزے رکھیں۔حقوق اﷲ ،حقوق العباد اداکرتے رہیں۔ اپنی نیکیوں پرفخرنہ کریں۔برے کاموں سے بچنے کی ہرممکن کوشش کریں۔ کسی کی دل آزاری نہ کریں۔کسی کامذاق نہ اڑائیں۔ انسانیت کی خدمت کریں۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351218 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.