اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے
واقعات میں روز بروز اضافہ لمحہ فکریہ اور انتہائی افسوس کا مقام اس لئے
بھی ہے کہ وطن عزیز پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہونے والی نظریاتی ریاست
ہے جہاں کے ملکی قوانین دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق بنائے گئے ہیں اور
98فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے ، ملکی قوانین پر عمل درآمد کروانے کی لئے
ادارے بھی موجود ہیں اور الحمد ﷲ اُنکا نظم ونسق سنبھالنے والے سربراہان
اور عملہ کی اکثریت بھی مسلمان ہے ،ماہ رمضان المبارک رحمتوں برکتوں کا
مہینہ ہے اس ماہ مقدس میں بچوں سے جنسی تشدد، ریپ اور قتل کے واقعات کا
مسلسل پیش آنا معاشرے کے تمام طبقات کے لئے لمحہ فکریہ ہے ،مسلمان آبادی
والے ملک میں معصوم بچے بچیاں جنسی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں، چند ایک
واقعات کو میڈیا پر بھر پور کوریج ملنے کے باوجود بھی جنسی درندوں کو کیفر
کردار تک پہنچانے کا سلسلہ کم ہی نظر آتے ہیں ،15 مئی 2019کو لاپتہ ہونے
والی خیبرپختون خواہ کے قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے وا لی دس،گیارہ سال
کی بچی فرشتہ جوکہ اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹاو ن کی رہائشی تھی کی لاش
گزشتہ روز جنگل سے ملی جسے مبینہ زیادتی کے بعد قتل کیا گیا ہے اس واقع کے
خلاف مقتول بچی کے لواحقین نے لاش ترامڑی چوک پر رکھ کر احتجاج کیا لواحقین
کا کہنا تھا کہ پولیس نے گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے میں 4 دن لگائے،
لواحقین کے احتجاج پر وزیرداخلہ اعجازشاہ نے بچی فرشتہ کے ساتھ زیادتی
اورقتل کیس کا نوٹس لیتے ہوئے فوری کارروائی اور سخت ایکشن لینے کے احکامات
جاری کئے اور وزیرداخلہ نے آئی جی اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی
،آئی جی نے مقدمہ تاخیر سے درج کرنے پر ایس ایچ او شہزاد ٹاؤن کو معطل کرتے
ہوئے ان کے خلاف محکمانہ انکوائری کا حکم دے دیا ،ایسے سینکڑوں واقعات ہر
سال رونما ہورہے ہیں ،غیرسرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں ہر
روز 11 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں،جبکہ ان میں سے کچھ بچوں کو جنسی
تشدد کے بعد ہلاک کرنے کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ،غیرسرکاری
تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں 63 فیصد بچے صوبہ پنجاب میں جنسی
تشدد کا شکار ہوئے ، صوبہ سندھ سے 27 فیصد ، خیبر پختونخو ا ہ 4 فیصد،
اسلام آباد 3فیصد، بلوچستان 2 فیصد جبکہ 34 واقعات پاکستان کے زیر انتظام
کشمیر اور 6 گلگت بلتستان سے سامنے آئے اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے چاروں
صوبوں ، اسلام آباد، آزاد کشمیراور گلگت بلتستان سے بچوں پر جنسی تشدد کے
کل 3832 واقعات رپورٹ ہوئے اور اسی عرصے میں جنسی تشدد کے بعد قتل کیے گئے
بچوں کی تعداد 92 ہے جبکہ 2017 میں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات کی تعداد
3445 تھی جس کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت اضافہ ہوا ہے ،جنسی تشدد کا شکار
ہونے والے بچوں کی عمریں 6 سے 14سال ہیں لیکن افسوس کی بات ہے ہی کہ اکثر
واقعات ایسے بھی ہورہے ہیں جس میں بچی کی عمر 3یا 4سال تھی ، سانچ کے
قارئین کرام! گزشتہ دنوں سینٹ میں بچوں سے زیادتی کے واقعات کی رپورٹ پیش
کی گئی جس کے مطابق سال 2018میں بچوں کے خلاف زیادتی کے 3 ہزار 832 کیسز
سامنے آئے ،بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر سینٹ کی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ
میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 2 ہزار 403 کیسز ،
سندھ میں 1016 خیبر پختونخوا میں 145، اسلام آباد میں 130 کیسز، بلوچستان
میں بچوں سے زیادتی کے 98 کیسز ، آزاد کشمیر میں 34 اور گلگت بلتستان میں 6
کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال اغوا کے 923
،لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 589 ،لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے 537، بچوں کی
گمشدگی کے 452، زیادتی کی کوشش کے 345، لڑکوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے
282 واقعات پیش آئے،سانچ کے قارئین کرام! یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے
ہیں جو رپورٹ نہیں ہو سکے یا انہیں دبا دیا گیا وہ بھی سینکڑوں میں ہونگے ،اگر
امسال کے پہلے پانچ ماہ کے واقعات جو کہ میڈیا کے زریعے منظر عام پر آئے
ہیں اُنکی تعداد سینکڑوں میں ہے آج سے چند سال پہلے قصور میں سینکڑوں بچوں
کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیو سامنے آئی لیکن افسوس کہ تمام تر قوانین اور
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اِ سطرح کے واقعات میں ملوث افراد کو قرار
واقعی سزا نہیں دلائی جا سکی اگرچہ اس گھناؤنے جرم میں ملوث چند ایک کی
فوری گرفتاری اور سزاہوئی بھی لیکن پھر بھی ایسے واقعات کو نہیں روکا جا
سکا ،بچوں کو ان بھیڑیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ہمیں اپنے ارد گردکے ماحول
پر نظر رکھنے کے ساتھ بچوں کی تربیت پر بھی خاص توجہ دینا ہوگی ، جدید
ٹیکنالوجی کے کم عمری میں غلط استعمال سے معاشرے میں جنسی ہوس کا بڑھ جانا
معاشرے کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہورہا ہے جس کے لئے والدین اپنی اولاد
کی بہتر تربیت پر توجہ مرکوز کریں بچوں کو زیادہ زیادہ وقت دیں،بچوں اور
اپنے درمیان خوف ڈر کی فضا کو ختم کر کے ان سے روز مرہ کے معمولات پر گفتگو
کریں ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ بچپن میں جنسی تشدد کا نشانہ بنے ہوں وہ
اس طرح کے واقعات میں زیادہ ملوث پائے جاتے ہیں ،ایسے بہت سے واقعات میں
قریبی رشتہ دار ، خاص طور پر محلے دار اور جاننے والے ملوث پائے گئے ہیں ،
بچوں کی بات کو توجہ سے سنیں اور کسی بھی حرکت کو فوری نوٹ کریں ،معصوم بچے
اکثر محلے کی دوکانوں پر یا سکول جاتے ہوئے کسی جاننے والے یا قریبی عزیز
کی باتوں کے لالچ میں آکر اُس سے تنہا ملنا جلنا شروع کر دیتے ہیں جس سے
اکثر بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بن جاتا ہے والدین ایسے معاملات کو دبانے کی
بجائے فوری ایکشن لیں تاکہ کسی ایک بچے کے ساتھ جرم کرنے والا مزید ایسا
فعل نہ کر پائے ،سینٹ میں پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام صوبوں
میں بچوں کے حقوق کے قوانین موجود ہیں،لیکن محکموں میں کوئی رابطہ نہیں ہے
،نیشنل پولیس بیورو کے پاس بچوں کے ساتھ زیادتی کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں،
سانچ کے قارئین کرام ! آج کے جدید دور میں اساتذہ کی تربیت بھی انتہائی اہم
ہے شعبہ تعلیم کو اختیار کرنیوالوں کی باقاعدہ تربیت وقت کی ضرورت ہے خاص
طور پر پرائیویٹ اداروں کے اساتذہ جن میں سے اکثریت چند ماہ یا سال کے لئے
تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوتے ہیں انکو بچوں کے تحفظ کے حوالہ سے خصوصی
تربیت کروائی جائے اور بچوں کے تحفظ کے مضمون کوبھی نصاب کا حصہ بنایا جائے
، ضلعی اور تحصیل حکومتوں کو بچوں کے تحفظ کے قوانین پر عمل درآمد کروانے
کے لئے سخت اقدامات اُٹھانے ہونگے ٭
|