پاکستان کو بنےہوئے 70 برس ہوچکے ہیں مگر ہمارے غربت اور
حالت کو دیکھ کر اکثر لوگ یہ طعنہ دیتے ہیں کہ پاکستان دوسروں کی دی ہوئی
بھیک پر زندہ ہے ۔ یہاں تو ایک سوئی بھی بنانے کی صلاحیت نہیں ہے وہ بھی
چین سے آتی ہے ۔آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو
پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے تن من اور دھن سے مصروف ہیں ۔
ہندوستان سے ہماری دشمنی پہلے دن سے ہے ۔ لہٰذاجب پاکستان نے امریکہ سے ایف
16 طیارے خریدنے چاہے تو امریکہ نے بڑے نخرے دکھائے اور بڑی شرائط رکھیں کہ
ہم ایف سولہ(16 ) طیارےکو ہندوستان کے خلاف استعمال نہیں کر سکیں گے۔ اور
اس ڈیل میں اس قدر تاخیر ہوئی کہ ایسا لگا کہ امریکہ ہمیں بھارت کے آگے
کمزور دیکھنا چاہتا ہے۔ تو اس نا امیدی پر ہماری فوج میں ایسے لوگ بھی ہیں
جنہوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ خود انحصاری ہی ہمارے مسائل کا حل ہے اور پھر
ہمارے افسروں نے چائنہ کے ساتھ ملکرJF.Thunder بمبارطیارے پاکستان میں بنا
ئے اور نہ صرف بنائے بلکہ اس میں F 16 طیارے کی بھی خصوصیات شامل کردیں اور
ابھی جو ہندوستان کے ساتھ معرکہ آرائی ہوئی JFتھنڈر طیاروں نے اپنی خوبیوں
کو منوا لیا اور ہندوستان کے روسی سخوئی طیارے کو مار گرایا .۔جب ہم کام کر
رہے تھے تو کام ہوا اور ہمارے میزائل نزدیک اور دور مار دونوں طرح کے ہیں
اور ان کا نشانہ دنیا میں کسی بھی ملک کے میزائلوں سے زیادہ صحیح ہے اتنا
اکیوریٹ نشانہ دیکھ کر دنیا حیران ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب نے ہمارے
ملک کو ایٹمی صلاحیت کا ملک بنانے میں جو کارنامہ انجام دیا یہ بھی دنیا
میں سب سے منفرد ہے ہمارا ملک خود انحصاری کے راستے پر چل پڑا ہے اور
انشاءاللہ ہمارا مستقبل روشن ہے ہماری قیادت میں علامہ اقبال نے فرمایا ۔
نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لئے ۔مگر
ہماری قیادت میں لالچ ،عیاشی ،اور بےراہ روی کوٹ کوٹ کر بھری تھی تو خود
انحصاری کہاں سے آتی لیکن پوری امید ہے کہ پاکستان کی سمت کا تعین ہو چکا
ہے اور اب ہم ان شاء اللہ ترقی کریں گے دراصل اللہ رب العزت نے پاکستان
جَیسی نعمت ہمیں اس بات پر عطا کی کہ ہم نے پاکستان کو بطور اسلامی مملکت
اللہ سے مانگا اور اللہ رب العزت نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں
ستائیس رمضان المبارک کو یہ ملک ہمیں عطا کیا دراصل اس بات کا تقاضہ یہ تھا
کہ ہم اس ملک کو سچا اسلامی ملک بناتے اور اللہ رب العزت پر پورا انحصار
کرتے لیکن ہماری آنکھیں پھٹی رہ گئیں اور ہم یورپ کی طرف دیکھ کر اس کے
گلیمر کے شکار ہو گئے اور اس بےوقوفی میں ہم نے اپنے دین کو بھلا دیا اور
اللہ رب العزت کی طرف رجو ع نہیں کیا یہ ہماری تباہی کا سبب ہے،اگر اب بھی
ہم اپنے آپ کو سدھار لیں تو اللہ تعالی نے فرمایا ہے ۔علامہ اقبال کہتے ہیں
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے
ہیں۔ ہمیں ہمہ وقت اللہ کا شکر گذار ہونا چاہیے۔کہ اسنے ہمیں دشمن کے شر سے
محفوظ رکھّا ہے۔
کیا ہم دیکھ نہیں رہےکہ امریکہ نے اپنی دہشت گردی سے دنیا کے کس ملک کو
نقصان نہیں پہنچایا۔تقریبَ ہر ملک پر اپنی دادا گیری کی ہے۔دور کی بات
چھوڑیں، ابھی یہ وینیزویلا میں کیا کر نا چاہ رہا ہے۔ ایران کے بہانے اپنا
بحری بیڑہ بحرِعرب میں لے آیا، کس کے لیئے ؟ امریکہ کو دوستی اور عزت راس
نہیں آتی،ویتنامیوں نے نہتّے ہونے کے باوجود جس ذلّت آمیز شکست سے دوچار
کیا تھا ، اگر یاد ہوتی تو نہتّے افغانیوں سےنہ بھڑتا۔ انہوں نے اب بھی کہا
ہے کہ وہ امریکہ سے ہزار برس تک مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ کسی ملک کا نام
بتادیں جہاں امریکہ کامیاب ہوا ہو؟
اخلاقیات سے تو انکا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ساری دنیا میں امن کے نام پر
دہشت کرنا ان کا وطیرہ ہے۔جس طرح یہ اسرائیل پر حملہ نہیں کر سکتے۔ اسی طرح
ایران میں بھی ستّر ہزار یہودی ہیں امریکہ ہمّت نہیں کر سکتا کہ ایران پر
حملہ کرے؟ یہ سب بھرم دیکھا رہا ہے۔اسکو اتنی سمجھ نہیں ہے کہ روس پْرانے
بدلے چکانے کا انتظار کر رہا ہے۔اور چین بھی اپنے بازو آزمانے کو تیّار
ہے۔اور پاکستان اپنا مقام خود طے کرلے گا۔سچّے مسلمان کی زندگی میں اس دنیا
کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ تو آخرت بنانے کی فکر میں ہوتا ہے۔ ع ،جہاں میں
اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں۔اْدھرڈوبے اِدھر نکلے، اِدھرڈوبے اْدھر
نکلے۔
اللہ رب العزّت سے التجاء ہے کہ ہمیں ایمان سے مالا مال رکھّے۔ہزار زندگیاں
بھی ملیں تو تیرے نام پر سب قربان کر دیں۔ع ،پھول کی پتّی سے کٹ جاتا ہے
ہیرے کا جگر۔مرد ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر۔اگرچہ دنیا اسلام سے
بہرہ مند ہو رہی اور اللہ کی حقّانیت کو جان گئی ہے۔ مگر یہ نصیب کی بات
ہے۔ جسکےلئے جہنّم لکھ دی گئی ہے وہ کیا کرے۔
|