پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے شمالی
وزیرستان میں پاکستانی فوجیوں اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے
کارکنوں کے درمیان ہونے والے تصادم میں تین افراد کی ہلاکت کے بعد اب
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ اسے اس علاقے سے پانچ مزید لاشیں بھی ملی ہیں۔
|
|
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ان ہلاک شدگان کا تعلق اتوار کو پیش آنے والے
واقعے سے ہے یا نہیں۔
اتوار کو رات گئے پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کیے
گئے بیان میں کہا گیا ہے بویا کے علاقے میں گشت کے دوران ایک نالے سے پانچ
لاشیں ملیں جنھیں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
جس مقام سے یہ لاشیں ملیں وہ خارقمر کی اس چیک پوسٹ سے ڈیڑھ کلومیٹر دور ہے
جو کہ کل کے تصادم کا مرکز تھی۔ فوج کا کہنا ہے کہ ہلاک شدگان کی شناخت کا
عمل جاری ہے۔
ادھر نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق پشتون تحفظ موومنٹ کا کہنا ہے
کہ ان کے پانچ کارکن اتوار کے واقعے میں ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 45 زخمیوں میں
سے آٹھ کی حالت نازک ہے۔
خار قمر چیک پوسٹ پر اتوار کو پاکستانی فوج کے اہلکاروں اور پی ٹی ایم کے
کارکنوں کے درمیان تصادم میں کم از کم تین افراد ہلاک جبکہ پانچ فوجیوں
سمیت 15 افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کی قیادت کرنے والے پی ٹی ایم کے
رہنما اور جنوبی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی علی وزیر سمیت آٹھ افراد کو
گرفتار کر لیا تھا۔
پشتون تحفظ موومنٹ نے اعلان کیا ہے کہ وہ 27 مئی بروز پیر سے ان ہلاکتوں کے
خلاف ملک بھر میں سوشل میڈیا پر احتجاج کرے گی جس میں رکن قومی اسمبلی اور
تنظیم کے رہنما علی وزیر کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا جائے گا۔
علی وزیر کی گرفتاری سے متعلق سوال پر پی ٹی ایم کے ایک رکن نے بی بی سی کو
بتایا کہ ’جنھوں نے اُسے گرفتار کیا ہے انھیں ہی پتہ ہوگا کہ کیوں اور کس
قانون کے تحت گرفتار کیا ہے۔‘
|
|
علی وزیر کے ساتھی رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کے بارے میں پی ٹی ایم کا
کہنا ہے کہ انھیں بنوں جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے اتوار کو رات گئے اپنے ردعمل میں کہا ہے
کہ چند لوگ قبائلی علاقوں میں بحالی اور ترقی کا عمل سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔
وزیرِ اطلاعات خیبرپختونخوا شوکت یوسفزئی نے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور
علی وزیر پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ پشتون عوام کو حقوق کے نام پر
ریاستی اداروں کے خلاف اکسا رہے ہیں۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے بھی رات
میں ٹوئٹر پر پیغام میں کہا کہ ’پی ٹی ایم کے حامیوں کو خیال رکھنے کی
ضرورت ہے کیونکہ صرف گنتی کے چند لوگ انھیں ریاستی اداروں کے خلاف اپنے
مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘
آصف غفور نے بعد میں اپنے ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی پشتو زبان میں ٹویٹ
کرتے ہوئے کہا کہ وہ پی ٹی ایم کے حامیوں کے ساتھ ہیں اور انھیں مشورہ دیں
گے۔
|
|
فریقین کی جانب سے الزامات
اتوار کو پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ پی
ٹی ایم کے کارکنان نے ارکانِ قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کی قیادت
میں شمالی وزیرستان میں فوج کی خارقمر چیک پوسٹ پر ایک دن قبل گرفتار کیے
گئے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو چھڑوانے کے لیے حملہ کیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق اس تصادم میں تین افراد ہلاک جبکہ 15 زخمی ہوئے جن
میں پانچ فوجی بھی شامل ہیں۔
بیان کے مطابق سکیورٹی فورسز نے باوجود براہ راست اشتعال انگیزی اور فائرنگ
کے صبر سے کام لیا تاہم اس دوران چیک پوسٹ پر فائرنگ کی گئی جس میں پانچ
سپاہی زخمی ہوئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق فوج کی طرف سے بھی جوابی کارروائی کی گئی جس میں
حملہ کرنے والے تین افراد ہلاک اور دس زخمی ہوئے۔
فوج کے مطابق زخمیوں کو فوجی ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
|
|
دوسری جانب پی ٹی ایم نے الزام لگایا ہے پاکستانی فوج نے ان کے پرامن دھرنے
پر حملہ کیا۔
پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ نے کہا ہے کہ جب وہ دھرنے والی جگہ پر پہنچے
تو سکیورٹی فورسز کی طرف سے مظاہرین پر فائرنگ کی گئی جس میں 30 کے قریب
افراد زخمی ہوئے۔
انھوں نے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ سکیورٹی فورسز کی
طرف سے پہلے مظاہرین کو ڈرانے دھمکانے کے لیے ہوائی فائرنگ کی گئی تاہم بعد
میں براہِ راست فائر کھول دیا گیا جس سے ان کے کئی افراد زخمی ہوئے۔
محسن داوڑ کے مطابق فائرنگ سے انھیں بھی ہاتھ پر معمولی زخم آیا ہے لیکن وہ
محفوظ رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس واقعے کے بعد علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے جس کی
وجہ سے لوگوں کو زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
|