نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کے بعد
نیویارک میں ایک نجی پیٹرول سروس شروع کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کے مذہبی
مقامات کی حفاظت کی جا سکے تاہم یہ اضافی سکیورٹی تنازعے کا شکار ہو گئی
ہے۔
|
|
ایک جمعے کی سہ پہر بروکلین کی مسجد میں اذان سے چند منٹ قبل نوجوان
مسلمانوں کا ایک گروہ پاس کی مسجد کی جانب چل پڑا۔ ان کا یہ قافلہ نیویارک
پولیس ڈپارٹمنٹ کے سکواڈ کی کاروں کی طرح تھا۔
قافلے کی سرخ اور سفید ایمرجنسی لائٹس والی یہ گاڑیاں مسجد کے باہر اس وقت
تک پارک رہیں گی جب تک کہ نمازی اندر جا کر نماز ادا کرتے رہیں گے۔
یہ کاریں اور ان کے رضا کار مسلم کمیونٹی پیٹرول کی نمائندگی کرتے ہیں جو
کہ خود کفیل گروپ ہے اور اسے پڑوس کی مساجد اور اسلامی تعلیمی اداروں میں
پرہجوم اوقات میں اضافی سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
گروپ کے شریک بانی اور رضاکار نور رباح اسے 'سٹیرائڈس سکیورٹی' کہتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ ایمرجنسی لائٹس کو جلائے رکھنا اور سائرن کو بجاتے رہنا
کسی پریشانی کی صورت میں مزاحمت ثابت ہو سکتا ہے۔
|
|
مارچ کے مہینے میں نیوزی لینڈ کی مساجد میں ہونے والے حملوں میں 51 افراد
کی ہلاکت کے بعد نور رباح نے اس سروس کو قائم کیا۔ انھوں نے کہا: 'ہمارا
این وائی پی ڈی سے تعلق نہیں ہے۔ ہم متعلقہ حکام تک رپورٹ پہنچانے کے لیے
بطور آنکھ اور کان کام کر رہے ہیں۔'
عبادت کرنے والوں کے لیے سکیورٹی ایک عرصے سے تشویش کا باعث رہی ہے لیکن
کرائسٹ چرچ کے حملے کے بعد یہ ترجیحات میں شامل ہو گئی ہے۔
امریکہ میں مسلمانوں کی بات حمایت کرنے والے سب سے بڑے گروہ کونسل آن
امریکن اسلامک ریلیشنز نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ رمضان کے مہینے کے دوران
وہ محتاط رہیں اور سکیورٹی بڑھا دیں۔
ملک کی بہت سی مساجد میں سکیورٹی کی مشقوں کے ساتھ شوٹنگ کی تربیت بھی دی
گئی ہے۔
مسلم کمیونٹی پیٹرول نے بھی بروکلین کی مساجد کے گرد اپنی موجودگی بڑھا دی
ہے لیکن جب سے گشت کا یہ خیال سامنے آیا ہے انھیں سوشل میڈیا سمیت شدید رد
عمل کا سامنا ہے۔
|
|
ایک انتہائی دائیں بازو کے مبصر نے ان پر شریعہ قانون کے نفاذ کا الزام
لگایا ہے۔ تاہم نور رباح نے جواب دیا 'یہ نامعلوم کا خوف ہے۔ ہمیں اجازت دی
جائے تو ہم دکھا دیں کہ ہمارے زندگی گزارنے کے طریقے کیا سکھاتے ہیں۔'
لیکن یہ گشت کرنے والے پولیس نہیں ہیں، وہ غیر مسلح ہیں اور انھیں کوئی
قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے۔
جہاں بہت سے لوگوں نے ان کی موجودگی کا خیر مقدم کیا ہے وہیں بہت سے لوگوں
نے اس قسم کے گروپ کی ضرورت اور پس پشت ان کے مقاصد پر سوال اٹھایا ہے۔
نیویارک میں عرب امریکن ایسوسی ایشن کے لیے کام کرنے والی سمیہ ایلرومیم کا
کہنا ہے کہ اس گروپ کے بارے میں بہت سارے سوالات ہیں کہ یہ کون ہیں۔
انھوں نے کہا: 'ہم چاہتے ہیں کہ وہ کمیونٹی سے دور رہیں۔ اگر وہ چھوٹا سا
بھی مسئلہ پیدا کریں گے تو اس کا ہم لوگوں پر بہت برا اثر پڑے گا۔'
|
|
وہ کہتی ہیں کہ مسلمان دوسری برادریوں کی طرح ٹیکس ادا کرتے ہیں اور یہ
نیویارک کی پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمیں سکیورٹی فراہم کرے۔
امریکہ کی اہم مساجد کے پاس اب پولیس بڑی تعداد میں موجود ہوتی ہے اور
نیویارک میں سینیئر افسروں نے طے کیا ہے کہ وہ ان تک پہنچیں۔
شہر کے پولیس محکمے میں ایک مسلم افسران کی ایسوسی ایشن بھی ہے جو کہ
مسلمانوں سے براہ راست رابطے کا ذریعہ ہے (بہرحال اس ایسوسی ایشن نے پیٹرول
ٹیم پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے)۔
نائن الیون کے بعد نیویارک پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا
مسلمانوں کے ساتھ سلوک ایک مشکلات کا شکار تاریخ رہی ہے اور ابھی تک
مسلمانوں میں ان کا خوف اندر تک بسا ہوا ہے۔ بہت سے لوگ عبادت گاہوں کے پاس
ان کی زیادہ تعداد میں موجودگی پر تشویش کا شکار ہیں۔
مشی گن میں کام کرنے والی وکیل اور مسلمانوں کی رضاکار نمیرہ اسلام کا
کمیونٹی سے کہنا ہے کہ پولیس اور وفاقی اداروں پر زیادہ بھروسہ کرنے کے
بجائے سکیورٹی کے دوسرے متبادل تلاش کریں۔
|