راحیلہ چوہدری ، لاہور
بچے کی سمجھ اور محسوس کرنے کا عمل پیدائش کے پہلے دن سے شروع ہو جاتا ہے۔
تین سال کی عمر تک وہ ماں باپ کے مزاج وماحول سے آشنا ہو جاتا ہے۔اس دور کا
مشاہدہ اس کی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار عطا کرتا ہے۔بچے کی ابتدائی
تربیت میں ماں کی قربت کا اہم حصہ ہوتا ہے۔جو بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو
اُبھارنے اور اس کی شخصیت کو اعتماد عطا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا
ہے۔بچے کی زندگی کے پہلے پانچ سال بڑے اہم ہوتے ہیں۔ان ابتدائی سالوں میں
بچے کو محبت ،یقین اور بھرپور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ایک بچے کے لیے ماں کی
محبت اور توجہ اتنی ہی بنیادی اور ضروری ہے ۔جتنا کسی پودے کے لیے دھوپ اور
پانی۔
مغرب نے ہماری آج کی ماں کے ہاتھ میں اسمارٹ فون پکڑا کے بچوں کے ساتھ بڑی
زیادتی کی ہے۔اس اسمارٹ فون نے انسان کو جہاں بہت فائدے پہنچائیں ہیں
۔دوسری طرف ہماری آج کی ماں سے اپنے بچے کے لیے فکر کو چھین لیا ہے۔والدین
بچوں کومہنگے سکول کالج کے حوالے کر کے بالکل بے فکر ہوچکے ہیں۔ جبکہ
خوبصورت و فعال ذہنوں کی تعمیر کے لیے صرف دولت نہیں جذباتی اور فکری
سرمایہ چاہیے ہوتا ہے۔جو والدین اپنے بچوں کی زندگی میں وقت کی انوسٹمینٹ
نہیں کرتے ان کے بچوں کی پرسنلٹی میں بہت سی کمیاں رہ جاتی ہیں۔موجودہ نظام
تعلیم ہمارے بچوں کو ڈیپریشن اور تکبر کے سوا کچھ بھی نہیں دے پا رہا۔بچوں
کو ایک باکردار انسان اور ایک با عمل مسلمان بنانے کے لیے یہ بہت ضروری ہے
کہ بچے کے ابتدائی سالوں میں اسے کائنات کے ساتھ جوڑا جائے۔بچے کا کائنات
کے ساتھ جڑنا اس کی تربیت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
کائنات میں غورو فکر کرنے سے بچوں کو اﷲ کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔بچپن میں ہی
اس کے ذہین کے خالی صفحے پر عقیدہ توحید نقش ہوجاتا ہے۔بچہ بچپن سے ہی
زندگی کے ہر معاملے میں اﷲ کو اپنے سامنے رکھتا ہے۔اس کی زندگی کے ابتدائی
سالوں میں ہی اس کی اﷲ سے پکی دوستی ہو جاتی ہے۔اگر ہم تصوف کی تاریخ پہ
نظر دوڑائیں ۔جتنے ولی جتنے درویش تھے انہوں نے علم حاصل کرنے کے بعد
جنگلوں غاروں میں رہ کر ہی اﷲ کی معرفت حاصل کی۔اﷲ کی کائنات میں غوروفکر
کرنے سے ہی اصل علم انسان کو اﷲ کی طرف سے عطا ہوتا ہے ۔کائنات میں غور
وفکر کے بعد ہی انسان کے اوپر حقیقی معنوں میں علم و حکمت کے دروازے کھلتے
ہیں۔
بچوں کو گھر میں چھوٹے چھوٹے پھول اور پودے خرید کر دیں۔اگر آپ کے گھر میں
لان یا ایسی جگہ ہے جہاں چھوٹا سا کچن گارڈن بنایا جاسکے بنائیے۔اس میں
بچوں کے ساتھ مل کر سبزیاں اُگائیے۔اگر یہ کام آپ خود نہیں کر سکتے تو جب
مالی آئے تو بچوں کو مالی کے پاس بھیج دیں ۔بچے اسے دیکھیں گے سوال جواب
کریں گے۔ان کی دلچسپی بڑھے گی۔بچے جب پودوں کے پیداوری اور تعمیراتی مراحل
کا مشاہدہ کرتے ہیں اس مشاہدے سے بچوں کی سمجھ بوجھ اور ذہنی استعداد میں
اضافہ ہوتا ہے۔پودوں کے ساتھ جڑنے سے بچوں کے اندرخوشی خلوص،محبت ،خدمت
جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔اکژ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ بچے ایسے کام کہاں
کر سکتے ہیں ۔جبکہ بچوں میں اﷲ تعالی نے قدرتی طور پہ بے پناہ طاقت اور
سیکھنے کی صلاحیت رکھی ہے۔ چاپان کے بچے سکول میں اپنے ہاتھوں سے سبزیاں
لگاتے ہیں اور وہی سبزیاں دوپہر کو ان کو کھانے میں دی جاتی ہیں۔اور سبزیاں
لگانے کا کام ہر کلاس ہر عمر کا بچہ سکول میں کرتا ہے۔
بچوں کو ہفتے میں ایک بار ضرور باغات کی سیر کروائیں۔ٹہنی بیج اور پتے
دکھائیں۔پودوں کے نام اور خوشبو کی پہچان کروائیں۔بچوں کو پودوں کی اہمیت
کے بارے میں بتائیں کہ پودے بھی ہماری طرح سانس لیتے ہیں ۔ان کی وجہ سے
ہمیں آکسیجن ملتی ہے۔اس لیے ان کا خیال رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔اسی طرح
بچوں کو پودوں کی خاصیت کے بارے میں بھی ضرور بتائیں۔جیسے سنیک پلانٹ ایک
انڈور پلانٹ ہے اس کی خاصیت یہ ہے کہ رات کے وقت یہ پودا وافر مقدار میں
آکسیجن چھوڑتا ہے اسی وجہ سے اسے آکسیجن بم بھی کہتے ہیں۔اس کی موجودگی میں
انسان پرسکون نیند سوتا ہے اور صبح بستر سے اٹھتے کسی قسم کی تھکن محسوس
نہیں ہوتی ۔اسی طرح ایلوویرا کو سردیوں میں کمرے میں رکھنے سے لوشن کی
ضرورت نہیں پڑتی۔پودینے کے پودے کو گھر کے دروازہ کے ساتھ رکھنے سے گھر کے
اندر مکھیاں مچھر داخل نہیں ہوتے۔
بچوں کو درختوں پر چڑھنا اور اترنا بھی سکھائیے۔اس سے بچوں میں ڈر اور خوف
ختم ہو جاتا ہے۔ہڈیاں اور عضلات مضبوط ہوتے ہیں ۔بچے بہادر اور نڈر ہو جاتے
ہیں۔اور اس کا سب سے بڑا فائدہ بچوں میں دنیا کو مختلف زاویے سے دیکھنے اور
سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ہمارے پیارے نبیؐ بھی جب عرب کے حالات دیکھ
کر بہت پریشان ہو جاتے۔تو وہ پہاڑ کی چوٹی پہ چڑھ کر شہر کی طرف دیکھا کرتے
اور مسائل کا حل سوچا کرتے۔پودوں کی اہمیت بتانے سے بچوں میں اﷲ اورکائنات
کی محبت بڑھے گی۔پھولوں اور پودوں کے قریب رہنے سے بچوں کو ذہنی دباؤ اور
چڑ چڑے پن سے نجات ملتی ہے۔بچوں کی خو ش مزاجی میں اضافہ ہوتا ہے۔
کھانا کھانے کے بعد بچے ہوئے کھانے کو بچوں سے ایک جگہ جمع کرواتے جائیں
اور پھر جب وقت ملے۔لان یا چھت پر جا کر بچوں کے ہاتھ سے پرندوں کو کھانا
ڈلوائیں ۔اس طرح بچوں میں رزق کا احترام پیدا ہو گا اور پرندوں کو کھانا
کھلانے کے سارے عمل سے بچوں میں رحم ،نرمی، خلوص اور امید جیسے جذبات پیدا
ہوں گے۔
رات کے وقت کبھی چھت یا لان میں بچوں کو آسمان کا مشاہدہ کروائیں۔ان کو
چاند اور ستاروں کے متعلق بتائیں۔دب اکبر ،صبح کا ستارہ، قطبی ستارہ کے
بارے میں بتائیں۔قطبی ستارے کے بارے میں بچوں کو خاص طور پر بتائیں کہ شمال
کی طرف نظر آنے والا روشن ترین ستارہ ہے۔اس ستارے کی مدد سے راستہ تلاش کیا
جا سکتا ہے۔اور انسان کو بھی ایک قطبی ستارے کی مانند ہونا چاہیے۔جو اپنے
کردار اور صفات کی روشنی سے لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھائے۔رات کے وقت
پارک جائیں تو بچوں کو جگنو دکھائیں۔اس کی صفات کے بارے میں بتائیں۔کائنات
کا مشاہدہ کرواتے ہوئے بچوں کے سوالوں کا خندہ پیشانی سے جواب دیں۔کبھی
ناگواری کا اظہار مت کریں۔بچے کے سوالات آپ کو بتائیں گے کہ وہ کائنات سے
متعلق معلومات کو اپنے ذہین میں کس طرح سے جذب کر رہا ہے۔
آپ کے پہلے بچے کے پانچ سال بہت اہم ہیں۔آپ کا پہلے بچے پہ لگایا ہوا وقت
باقی بچوں کی تربیت میں مدد گار ثابت ہو گا۔آپ کے باقی بچے آپ کے بڑے بچے
کو دیکھ کر ہی بہت کچھ سیکھ جائیں گے۔بچوں کو والدین کی شکل میں صرف ایک
مبلغ نہیں چاہیے ہوتا ۔بچوں کو ایک رول ماڈل چاہیے ہوتا ہے۔آپ کی جو
دلچسپیاں ہوں گی۔ آپ کے بچے میں بھی وہی پیدا ہوں گی۔آجکل کے والدین بچوں
کو اﷲ کا ایک تحفہ سمجھتے ہیں۔والدین کی غلط انداز کی محبت بچوں کے بگاڑ کا
سبب بن رہی ہے۔ بچوں سے بچوں کے لیے محبت کریں ایسی محبت جو انہیں سنوار
دے۔ان ننھے منے پھولوں کی پرورش اس طرح کیجیے ۔جب یہ کھلیں تو ان کے کردار
کی خوشبو سے سارا جہان مہک اُٹھے۔اور ایک صحت مند معاشرہ تشکیل پا سکے۔
|