ماہ صیام اور ہمارے اعمال

ٓآج سے چند سال بیشتر ماہ صیام کا خاص اہتما م ہوتا تھا۔ہر بڑااور بچہ بڑے شوق سے روزہ رکھتا تھا۔ اے سی کا کوئی تصور نہ تھاپھر بھی سب لوگ شدید گرمیوں کے روزے بڑی ہمت سے رکھتے تھے۔ روزے کے دوران باہر بھی کوئی شخص کھاتا پیتا نظر نہ آتا تھا۔جو لوگ روزہ نہیں رکھتے تھے وہ اس کا احترام ضرور کرتے تھے۔ سگریٹ پینے والے لوگ بھی افطاری کے بعد ہی سگریٹ پیتے تھے۔ غیر مسلم بھی روزے کا احترام کرتے تھے۔ جیسے جیسے زمانے نے ترقی کی ویسے ویسے سہولیات میں اضافہ ہوگیا۔ مگر لوگوں نے روزے کی اہمیت کو نظر انداز کردیا۔ جس شخص سے بھی پوچھا جائے کہ روزہ کیوں نہیں رکھا تو اس کی اپنی ایک لوجک ہوتی ہے۔ کسی کے پاس شوگر کا بہانہ ہے تو کسی سے پیاس برداشت نہیں ہوتی۔ اکثر لوگ کام کابہانہ بناتے ہیں تو کسی نے دوسرے شہر کام سے جانا ہے۔ دیہاڑی دار اور مستریوں کے پاس تو پکا بہانہ ہے روزہ نہ رکھنے کا۔ سٹوڈنٹ نے پڑھنا ہوتا ہے تو ٹیچرز نے ان کوپڑھانا ہوتا ہے۔ غرض ہر شخص کے پاس روزہ خوری کا بہانہ موجود ہے۔اس پر ستم یہ کہ روزے کا کوئی بھی احترام نہیں کرتا۔ لوگ ہاتھ میں بوتل پکڑے یا آئس کریم پکڑے ہوئے سر عام سٹرکو ں پر چلتے نظر آتے ہیں۔ہوٹل اور کھانے پینے کے تما م مراکز سر عام کھلے رہتے ہیں۔چند ہوٹلوں پر میں نے معمولی سا پردہ دیکھا جس میں سے بھی صاف نظر آرہا ہوتا ہے اور سامنے سے گزرنے والوں کا دل خراب ہوتا رہتا ہے۔

مجھے تقریباپانچ سال دبئی میں بھی گزارنے کا موقع ملا جس میں سب سے زیادہ مجھے ماہ رمضان گزارنے کا مزہ آیا۔جتنے بھی مسلمانو ں کو میں جانتا تھا سب ہی روزہ رکھتے تھے۔ جو روزہ نہیں رکھتے تھے وہ بڑی سختی سے روزے کا احترام کرتے تھے۔ کھانے پینے کے تما م مراکز بند ہوتے تھے۔ جس کسی نے ماہ رمضان میں اپنا ہوٹل یا فوڈکورٹ کھولنا ہوتا تھا اس کے پہلے گورئمنٹ سے اجازت لینی ہوتی تھی اور اس کے لیئے ایک بھا ری فیس بھی جمع کروانی ہوتی تھی ۔ اپنے ریستوران کو مکمل طور پر کور کرنا ضروری ہوتا تھا۔ گورئمنٹ کے لوگ آکر اس کا معائنہ کرتے تھے اور جس ٹائم بھی کوئی ایسی چیز دیکھتے جو کہ اصولوں کے منافی ہے تو یا تو ریستوران کو بند کردیتے یا پھر بھاری جرمانہ کر دیتے تھے۔ تمام مساجد نماز کے وقت بھری ہوتی تھی۔ دفتروں میں نماز ظہر کے بعد چھٹی ہوجاتی اور ہر عمارت میں نماز کا اہتمام ہوتا تھا۔غیر مسلم بھی رمضان کا احترام کرتے تھے اور سرعام کوئی چیز نہیں کھاتے تھے۔

پاکستا ن میں رمضان آتے ہی گرانفروشوں کے منہ کھل جاتے ہیں۔ہر چیز کے بھاؤ آسمان پر چڑھ جاتے ہیں۔اکثر اشیاء خوردونوش تو مارکیٹ سے سرے سے ہی غائب ہوتی ہیں۔ جو چیزیں مارکیٹ میں دستیاب ہوتی ہیں وہ بھی سونے کے بھاؤ بیچی جاتی ہے اور یہ صورتحال چاند رات تک برقرار رہتی ہے۔عید کے دن آتے ہی اشیاء خوردونوش کی قیمت اپنی جگہ پر واپس آتی ہے تو جوتوں اور کپڑوں کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔درزی اپنی اجرت ڈبل مانگتا ہے ۔ اگر گاڑی میں سفر کرنا ہوتو یا تو گاڑی سرے سے دستیاب ہی نہیں ہوگی یا پھرٹرانسپورٹ مافیا آپ سے کئی گنا کرایہ وصول کر کے آپ کو چھت پر بیٹھا کر سفر کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔دوسرے ممالک میں یہ سارا سسٹم باکل الٹ ہے۔وہاں پر اشیاء کی قیمتیں رمضان میں کم ہو جاتی ہے۔ اکثر ڈیپارٹمنٹل سٹور اشیائے خوردونوش پر سیل لگا دیتے ہیں۔کپڑوں اور جوتوں پر سیل لگ جاتی ہے۔ یہ تما م سہولیات نہ صرف مسلمانو ں کو دستیاب ہوتی ہیں بلکہ غیر مسلم بھی اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔اکثر لوگ تو پورے سال کا راشن رمضان کے دنوں میں جمع کر لیتے ہیں۔ سرکاری اور نیم سرکاری طو ر پر بڑے پیمانے پر افطاری کا اہتما م کیا جاتاہے۔ اکثر جگہوں پر سحر ی کا اہتما م بھی کیا جاتا ہے۔عربی لوگ ماہ رمضان میں دل کھول کر خیرات کرتے ہیں۔اکثر لوگ اپنے گھروں میں کھانا پکا نا بند کر دیتے ہیں کہ سحری اور افطاری کا وسیع انتظا م ہوتا ہے جس میں کسی بھی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی۔

وطن عزیز میں رمضان کا مہینہ گزارنے کے بعد اس بات کا شدید احسا س ہوا کہ ہم شاید کسی غیر اسلامی ملک میں بیٹھے ہیں جہا ں کے لوگوں پر روزہ فرض نہیں ہے۔جہاں روزہ داروں سے ذیادہ تعداد روزہ خوروں کی ہے۔
 

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 88931 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.