انسانی بھیڑیے

اسلام آباد میں زیادتی کے بعد بچی کا قتل ہماری بے حسی اور معاشرے کی ستم ظریفی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔معصوم فرشتہ کو انسانی بھیڑیوں نے چیر پھاڑ کر، اس کی لاش کو حیوانوں کی خوراک کیلئے پھینک دیا۔ 15 مئی کو لاپتہ ہونے والی 11 سالہ فرشتہ کو ریپ کر کے قتل کردیا گیا، اس کی مسخ شدہ لاش 20 مئی کو ملی،لیکن اس کا قاتل بھیڑیا آج بھی آزاد پھر رہا ہے۔

اس کی آزادی ہماری پولیس کی غفلت کی وجہ سے ہے، جنہوں نے اگر بر وقت کاروائی کی ہوتی تو آج فرشتہ بھی زندہ ہوتی اور مجرم بھی پکڑے گئے ہوتے۔ظلم کی انتہا ہے کہ ہماری جان، مال اور عزت کے رکھوالوں نے فرشتہ کے غم زدہ باپ کو ایس ایچ او صاحب نے یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ وہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہو گی، خود تلاش کرو۔ اتنی بے حسی، اتنا ظلم، ایس ایچ او کو شرم نہیں آتی وردی پہنتے ہوئے، سرکاری گاڑیوں میں گھومتے ہوئے اور سرکاری تنخواہ لیتے ہوئے۔

کیا اْنہیں عوام کے ساتھ ظلم کرنے، ان کی عزتوں کے ساتھ کھیلنے، ان کی بے بسی کا مذاق اڑانے کے لیے بھرتی کیا گیا ہے؟ لیکن ظلم تو یہ ہے کہ سفارش پر بھرتی ہونے والوں کے اندر کہاں سے جذبہ حب الوطنی اور جذبہ انسانی ہمدردی پیدا ہو...؟۔ ہماری تاریخ بھری پڑی ہے کہ ہماری پولیس نے ہمیشہ ظالم کا ساتھ دیا ہے۔ شاہزیب قتل کیس تو یاد ہو گا،اس کے گھر والوں کو صلح پر مجبور کیا گیا۔اﷲ تعالیٰ سے ڈرو، اس دن تمہارا کیا ہو گا۔ اس کے گھر جانے کے بھی قابل نہیں ہو۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں غالب نے کیا خوب کہاہے کہ
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

لمحہ فکریہ ہے ہمارے ملک کے حکمرانوں کے لیے، انصاف دینے والوں کے لیے، سرکاری عہدیداروں کے لیے، علماء کے لیے، اساتذہ کے لیے، اس معاشرے کے ہر فرد کے لیے، کہ ہم کیسی نسلیں پروان چڑھا رہے ہیں، ان کی تربیت کے لیے ہم کیوں کوئی اقدامات نہیں کر رہے۔ ان کو ایک کامیاب انسان بنانے سے پہلے، انہیں ایک بہترین انسان بنایا جائے۔ حکومت تربیت کے ادارے بنائے، کردار سازی کی جائے کیوں کہ کردار سازی کے بغیر معاشرہ انسانی نہیں حیوانی کہلاتا ہے۔

اﷲ کے رسولﷺبچوں سے بے حد پیار کیا کرتے تھے۔آپﷺ نے بچوں کو پھول کہا، لیکن اس معاشرے میں ان پھولوں کو مسل دیا جاتا ہے اور پھر ان کے والدین انصاف کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں ،لیکن انصاف پھربھی انہیں نہیں دیا جاتا۔

اﷲ تعالیٰ سورہ المائدہ میں فرماتے ہیں کہ
’’اﷲ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔یہاں تو اس وقت تک کسی واقعے کوکوئی اہمیت اور توجہ نہیں دی جاتی ہے جب تک لاش سڑک پر رکھ کے احتجاج نہ کیا جائے، میڈیا آواز نہ اٹھائے، بھوک ہڑتال نہ کی جائے، مظاہرے کر کے املاک کو نقصان نہ پہنچایا جائے.،حکمرانوں کے دل میں کوئی احساس نہیں ہے، ان کا دل نہیں پتھر لگتا ہے۔کسی کے گھر افسوس کرنے جائیں بھی سہی تو وہاں چند لوگوں میں سیاست کا تڑکا نہ لگائیں، ان کی روح کو تسکین نہیں ملتی،یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے لواحقین پر کیا گزر رہی ہو گی۔

زینب قتل کیس کے بعد سر عام پھانسی کا قانون بنایا جاتا، اس کے قاتل کو عبرت ناک سزا دی جاتی، معاشرے میں آگاہی مہم چلائی جاتی، بچوں کے اغوا کی روک تھام کے لیے زینب الرٹ سسٹم جو کراچی کے نوجوانوں نے بنایا تھا اور مفت حکومت کو دینا چاہتے تھے تا کہ ان ننھے پھولوں کو مسلا نہ جا سکے، ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کی عدم توجہ کی وجہ سے اس میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور وہ سسٹم آج دنیا کے 30 ممالک میں نصب ہے جس کی وجہ سے اغوا کی واردات سے بچا جا سکتا ہے اگر اس کو نصب کیا گیا ہوتا تو زینب کے بعد فرشتہ کا سانحہ نہ دیکھنا پڑتا،کیا ہی اچھا ہو کہ اس ملک میں ایک واقعہ کو آخری بنا کر اقدامات کیے جائیں تا کہ دوبارہ کوئی اس جرم کا ارتکاب نہ کر سکے،مگر قریب قریب میں ایسا ہوتانظر نہیں آرہا ۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایک واقعہ کو بھلانے کیلئے دوسرے واقعہ کا انتظار کیا جاتا ہے ،ہم سالہاسال سے یہی دیکھتے چلے آرہے ،مگر حکمران طبقے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اﷲ تعالیٰ سورہ النحل میں فرماتے ہیں کہ’’ تو اْن کو اْن کے اعمال کے بْرے بدلے ملے اور جس چیز کے ساتھ ٹھٹھے کیا کرتے تھے اس نے ان کو ہر طرف سے گھیر لیا ہے‘‘۔آج پاکستان کی بیٹی فرشتہ کی آہیں اور سسکیاں سوال کرتی ہیں کہ
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہن رکھے ہیں دستانے

وزیراعظم پاکستان آپ سے گزارش کہ مدینہ کی ریاست کے خواب جو آپ نے دکھائے ہیں، ان کو پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے، اس ملک کو ان ظلمتوں کے اندھیروں سے نکال کر روشنیوں سے منور کر دیں، کوئی ماں،بہن بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکے۔ مدینہ جیسا ماحول ہو، انصاف کا بول بالا ہو،بے حیائی اور عریانی کا خاتمہ ہو،انٹرنیٹ کی تباہ کاریوں سے اپنی نسلوں کو بچانے کے لیے اقدامات ہوں، مساجد میں دینی تعلیمات کا اہتمام ہو، شعور اور آگاہی کی مہم چلائی جائے، ہمارے ملک میں امن قائم ہو، تا کہ دوبارہ ہمیں زینب اور فرشتہ جیسے المناک دکھوں سے نہ گزرنا پڑے۔ تا کہ روز محشر ہم حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔

Ume Kalsoom
About the Author: Ume Kalsoom Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.