موبائل کا بے جا استعمال اور نئی نسل کی بربادی

فون کا اصل مقصد لوگوں سے رابطہ ہے۔ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اپنے جاننے والوں کا حال احوال جاننے کے لیئے موبائل کا استعمال کرتے تھے۔ لیکن موجودہ دورمیں تو اس کا مطلب ہی بدل گیاہے۔ دنیا جہان کا ہر فنکشن موبائل میں آ گیا ہے اور پہلے بٹن زور زور سے دبانے پڑتے تھے لیکن اب ٹچ موبائل نے یہ مسلۂ بھی حل کر دیا ہے۔جدید موبائل کیمروں سے سیلفی لینے کا شوق ہی مان نہیں۔اب لوگ گھٹری نہیں باندتے۔ ابھی بھی لائٹ چلی جائے تو موبائل کی لائٹ ہی کام آتی ہے۔کیلنڈر دیکھنے کے لیئے پہلے گھر میں جنتریاں ہوتی تھیں لیکن اب ان کی چنداں ضرورت نہیں رہی۔گھر میں ایک موٹی ضخیم کتا ب ہو تی تھی جو مشکل الفاط کے معنی دیکھنے کے کام آتی تھی۔لیکن اب موبائل ایپس کی موجودگی میں ڈکشنری کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔پہلے بچے گھر والوں سے نظر بچا کر ویڈیو گیم کھیلنے جاتے تھے اور بیلرڈ کے پھٹے آباد ہوتے تھے۔لیکن اب یہ کشٹ اٹھانے کے ضرورت بھی باقی نہیں رہی ۔کہ یہ سب کچھ موبائل میں موجود ہے۔ پہلے انٹر نیٹ کا دس روپے والا پول کا کارڈ لے کر آتے تھے ۔ بہت دیر تک Busy Toneآنے کے بعد خداخدا کرکے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر پر نیٹ کنیکٹ ہوتا تھا جواگلے دس منٹ بعد پھر کٹ جاتا تھا یا لائٹ چلی جاتی تھی۔اب سستے ڈیٹا پیکج لے کر جتنا چاہے نیٹ استعمال کریں۔اس پہ ستم یہ کہ موبائل فون کمپنیاں رات کو سستے پیکج دیتی ہیں اور فر ی ڈیٹا بنڈل بھی مل جاتے ہیں۔ فیس بک اور واٹس ایپ تو تما م نیٹ ورکس پر فری ہیں ۔موبائل کے اتنے ذیادہ استعمالات تو شاید ایجاد کرنے والے نے بھی نہ سوچے ہونگے۔اتنے ذیادہ استعمالات ہونے کی وجہ سے ہماری نظر ہر وقت اس چھ انچ کی سکرین پر ٹکی رہتی ہے اور اس کی عدم موجودگی میں ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے زندگی میں کوئی رنگ بھی باقی نہیں رہا۔

ان والدین نے اپنے بچوں کو موبائل سے کیا دور رکھنا ہے جو خود چوبیس گنٹھے آن لائن ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر ان کی زندگی کا پہیہ نہیں چل سکتا ۔ میر ے ایک طالب علم نے تو حد ہی کر دی۔ اس نے موبائل اور انٹر نیٹ کے آکسیجن کا نا م دے دیا کہ اب تو چاہے آکسیجن ملے یا نہ ملے بس وائی فائی کا پاسورڈ مل جائے پھر سردی گرمی دھوپ چھاؤں کی کوئی خبر نہیں۔کھانا پانی بھی بند کر دیں تو پروا نہیں لیکن موبائل بند نہیں ہونا چاہیے۔موبائل کی بیٹری اگر ڈاؤن ہو جائے تو جان پر بن جاتی ہے اور چارجر ایسے ڈھونڈتے پھرتے ہیں جس سگریٹ پینے والاچرسی دوسروں سے ماچس کی ایک تیلی مانگ رہا ہو اور بس یہی اس کی زندگی کی آخر ی خواہش ہو۔

میں نے اپنی زندگی میں ایسے لوگ بھی دیکھے جو بہت سختی سے اپنے بچوں کو موبائل کے استعمال کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔بہت سے ایسے شوہر بھی ہیں جو بیویوں کے موبائل نہیں لے کر دیتے ۔ایسے لوگوں سے بھی واسطہ رہا کہ جو اپنے پانچ چھ سال کے بچے کو موبائل یا ٹیبلٹ خرید کر دے دیتے ہیں اور ان کے استعما ل پر کوئی روک ٹوک نہیں کرتے کہ جدید دور میں بچوں کو ان چیزوں کا پتہ ہونا چاہیے ورنہ وہ زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ایسے بچوں کو بہت چھوٹی عمر میں عینکیں لگ جاتی ہیں اور ان کی ذہنی صلاحتیں بھی پروان نہیں چڑتیں۔ان کا سوچ کا محور موبائل ہی ہوتا ہے اور پوری دنیا اسی میں بستی ہے۔

موبائل کے بے جا استعمال نے نئی نسل کو نکما کر دیا ہے اور ان کی ذہنی اور جسمانی صلاحتیں ختم ہو تی جا رہی ہے۔انٹر نیٹ پر موجود گندے مواد کو دیکھ دیکھ کر چھوٹے بچوں سے ذیادتی کے واقعات میں نما یا ں اضافہ ہو رہا ہے۔نہ جانے کتنے ہی ایسے گھر ہونگے جو اس موبائل کی وجہ سے برباد ہوچکے ہیں۔انٹر نیٹ استعمال کرنے والے لوگ دوسروں کے ساتھ بلیک میلنگ کو بر ا نہیں سمجھتے ۔ ہر وقت ایک دوسرے کو غیر اخلاقی مواد شیئر کرتے رہتے ہیں۔میں غلطی سے ایک واٹس ایپ گروپ میں ایڈ ہو گیا جس میں ہر وقت غیر اخلاقی گفتگو ہوتی رہتی اور غیر اخلاقی مواد شیئر ہوتا رہتا تھا جس کی وجہ سے مجھے چند منٹوں کے بعد ہی وہ گروپ چھوڑنا پڑا۔

اگر ہمیں اپنی نئی نسل کو کس قابل بنا نا ہے تو اس موبائل کی لعنت سے چھٹکا را دلانا پڑے گا۔ خدا را یہ سخت فیصلہ جلد سے جلد لے لیجئے۔ اگر صرف رابطے کی بات ہے تو وہ پرانے موبائل سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیئے جدید ہا ئی فائی موبائل فونز کی ضرورت نہیں ہے۔ موبائل پر مسلسل نظریں جمائے رکھنا بھی انسانی دماغ اور نظر کے لیئے انتہا ئی مضر ہے اور بہت سی لا علاج بیماریو ں کی وجہ بن رہے ہیں۔موبائل کا استعمال کوئی اسٹیٹس سمبل نہیں بلکہ صرف اور صرف ضرورت کے مطابق ہونا چاہیے۔
 

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 71 Articles with 80965 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.