وَمَا لَیَ‘قرآن کریم کاتیئیسو اں (23) پارہ ہے ۔ وَمَا
لَی کامطلب ہے ’’اور کیا ہوا ہے مجھے‘‘ ۔ یہ پارہ چار سورتوں
سُوْرَۃِ یٰسٓ کی آخری 62 آیات، سُوْرَۃُ الصّٰفّٰتِ، سُوْرَۃ صٓ،اور
سُوْرٓ الزُّمَرِ کی31 آیات پر مشتمل ہے ۔ بقیہ44 آیات اگلے پارہ میں
شامل ہیں ۔
سُوْرَۃِ یٰسٓ ( آخری 62آیات )
آیت 13 میں اللہ نے نبیﷺ سے فرمایا ’آپ ان کے لیے بستی والوں کی مثال
بیان کیجئے، جن کے پاس اللہ کے بھیجے ہوئے رسول آئے ‘ ۔ دو رسولوں کا ذکر
کیا گیا ۔ انہوں نے جھٹلایا ، اللہ کہتا ہے کہ پھر ہم نے انہیں تیسرے کی
تقویت دی، بستی والوں نے انہیں بھی جھٹلادیا،کہا کہ ہم تو تمہیں فالِ بد
سمجھتے ہیں ، یہاں تک کہ انہیں سنگسار کرنے کی دھمکی دی ۔ اس بستی پر اللہ
کا عذاب نازل ہوا اور وہ سب ختم ہوگئے ۔ ان تین رسولوں کے نا م قرآن میں
درج نہیں ، مفسرین نے اپنے اپنے خیال کا اظہار کیا ہے کسی نے حضرت عیسیٰ
علیہ السلام کے فرستادہ بتایا، جو انہوں نے اللہ کے حکم سے بھیجے، کسی نے
کہا یہ انسان ہی نہیں تھے ، کسی نے ’حبیب النجار‘ لکھا ہے، تفسیر احسن
البیان میں بستی کا نام ’انطاکیہ‘ بیان ہوا ہے ۔ اس بستی والوں نے تینوں کو
جھٹلایا ،ان پر اتنا تشدد کیا کہ ایک شخص ہلاک ہوگیا، یہ بستی والے کسی طور
بھی ہدایت کے راہ پر چلنے پر آمادہ نہ ہوئے آیت 19 میں اللہ تعالیٰ نے اس
آدمی کے بارے میں اس طرح کہا کہ ’’شہر کے پرلے سرے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا
آیا س نے کہا: اے میری قوم ْتم رسولوں کی پیروی کرو، تم ان کی پیروی کرو
جو تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتے ۔ اس شخص کی باتیں جو اس نے بستی والوں کو
راہ حق پر لانے کے لیے کہیں بیان ہویں ہیں ، پھر آیت 27 میں کہا اللہ نے
’تو جنت میں داخل ہوجا ، اس نے کہا کہ کاش میری قوم جان لیتی‘، پھر اچانک
صورِ اسرفیل کی چیخ ، جو ہولناک ہوگی ، ہلاک ہوجائیں گے سوائے ان کے جنہوں
نے اللہ کو رب مانا، تیسری بار صور پھونکا جائے گا تو سب قبروں سے زندہ
سلامت اللہ کے حضور پیش ہوجائیں گے، جہاں ان کا حساب کتاب ہوگا ۔ اللہ نے
یہاں بندوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس جو رسول بھی آیا
انہوں نے اس کا مزاق ہی اڑایا ، انہوں نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ اللہ نے اس
سے پہلے کتنی امتوں کو نافرمانی پر ہلاک کیا ۔ اس کے بعد بنجر زمین کو
دوبارہ فصل کے قابل بنانے ، اناج اگانے کے قابل بنانے کا بیان ہے ۔ زمین پر
اللہ کی نشانیوں کاذکر ہے ۔ پھر آیت36 میں جوڑے بنانے کا کہا ۔ یعنی
انسانوں کی طرح زمین کی ہر پیداوار میں بھی نر اور مادہ دونوں پیداکیے ہیں
، جو چیزیں انسان کی نظر سے دور ہیں دکھائی نہیں دیتیں ان میں بھی زوجیت (نراور
مادہ) کا یہ نظام ہے، تمام مخلوق جوڑاجوڑا ہے،نباتات میں بھی نر اور مادہ
کا یہی نظام ہے ، صوربھوکے جانے، روز محشر کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے
آیت 56 میں فرمایا ’’بے شک اہل جنت آج ایک شغل میں خوش و خرم ہوں گے، وہ
اور ان کی بیویاں سایوں میں تختوں پر ٹیک لگائے ہوں گے ۔ ان کے لیے وہاں ہر
طرح کی نعمتیں ہوں گی‘‘ ۔ انسان ارادی یا غیر ارادی طور پر اللہ سے جو دعا
طلب کرتا ہے اس میں درازی عمر کی دعا بھی شامل ہوتی ہے ۔ دوسروں کو بھی ہم
لمبی عمر عطا ہونے کی دعا دیتے ہیں ، اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت 68 میں
فرمایا ’’اور جس شخص کو ہم زیادہ عمردیں ، گویا ہم اسے حالت پیدائش کی طرف
لوٹا دیتے ہیں ، کیا پھر وہ عقل نہیں رکھتے‘‘ ۔ حالت پیدائش سے مراد انسان
میں ضعف و احطاط شروع ہوجاتا ہے،کمزور، نہیف ، دبلا پتلا، لاغر اور اپنے
کام خود سے نہیں کرسکتا ، دوسروں کا محتاج ،یعنی جو کیفیت بچہ کی پیدا ہونے
کے بعد ہوتی ہے ۔
مشرکین مکہ نبی ﷺ کی تکذیب کے لیے مختلف باتیں کہتے رہتے تھے ان میں ایک یہ
تھی کہ آپ شاعر ہیں اور قرآن پاک کی شاعرانہ تُک بندی ہے، اللہ نے اس کی
نفی فرمائی ، کہا کہ آپ ﷺ شاعر نہیں ہیں نہ ہی قر آن شعری کلام ہے ، یہ
تو صرف نصیحت اور موعظت ہے ۔ روز قیامت اللہ کے نیک بندے یعنی مومنین متقین
کو جنت جب کہ گناہ گار اپنی صفائی پیش کرنے کے بعد ، کچھ جنت میں اور باقی
دوذخ میں ہوں گے، سورہ یٰسین میں زیادہ تر جو موضوع بیان ہوئے ان میں اللہ
کا پیغام بندوں تک پہنچانے، نعمتوں کا ذکر، قیامت ، روز محشر حساب کتاب،
ہدایت کے لیے رسول انہیں میں سے بھیجنا ، مسلسل پیغام سے انحراف کرنے والوں
کو سمجھاتے رہنا ، ڈراتے رہنا، مشرکین کو چیلنج دینا کہ جاوَ کوئی ایک چیز
بھی ایسی بنا لاوَ ، آسمان و زمین کس نے پیدا کیں ، اس کا نظام کون چلارہا
ہے اللہ تعالیٰ نے آخری آیات84-83 میں صاف الفاظ میں کہا کہ ’’جب وہ کسی
چیز کا ارادہ کرتا ہے تو بس اس کا حکم صرف یہ ہوتا ہ کہ وہ اس سے کہتا ہے
’’کُنْ‘ یعنی ہوجا، وہ ہوجاتی ہے ، چنانچہ پاک ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں
ہر چیز کی بادشاہی ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاوَگے‘‘ ۔
سُوْرَۃُ الصّٰفّٰتِ
سُوْرَۃُ الصّٰفّٰتِمکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے سینتیسو
یں ;40%41;اور نزولِ ترتیب کے اعتبار56ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 5رکو ،182آیات
ہیں ۔ وَالصّٰفّٰت ’’کا مطلب ہے قسم ہے صف باندھنے والوں کی‘‘ ۔ یہ سورہ
قیامت کے دن ہونے والے حساب و جزاء ، گناہ گاروں کا باہمی ایک دوسرے پرلعن
طعن، اہل جنت کی باتیں ، انبیاء کے قصوں کا حال اس میں بیان کیا گیا ۔
سُوْرَۃُ الصّٰفّٰت کا آغاز بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے قسم سے کیا اور
قسم بھی کن کی ،آسمانوں پر اللہ کی عبادت کے لیے فرشتوں کی صف بندھی کرنے
والوں کی ، اور ان کی وعظ و نصیحت کے ذریعے لوگوں کو ڈانٹتے ہیں ، پھر
قرآن کی تلاوت کرنے والوں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ’’بلاشبہ
تمہار ا معبود ایک ہی ہے‘‘ ۔ سورج کا نکلنا اور غروب ہوجانا، یہ نظام بے شک
اللہ ہی کا ہے، آسمان پر ستاروں کا ایک مقصد سرکش شیطان سے حفاظت بھی ہے،
چنانچہ جب شیطان آسمان پر کوئی بات سننے کے لیے جاتے ہیں تو ستارے ان پر
ٹوٹ پڑتے ہیں ، اور شیطان جل جاتے ہیں ، ستاروں کا ایک مقصد رات کی تاریکی
میں رہنمائی کرنا بھی ہے ۔ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کرنے کے ذکر کے
بعد کہا کہ اہل کفار کو جب نصیحت کی جاتی ہے تو وہ انکار کرتے ہیں ، یہاں
بعث اور حساب و جزاء کے مسئلہ کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ مشرکین کی
رائے عجیب و غریب ہے وہ یہ بات ان کو ہضم نہیں ہورہی کہ انسان کا جسم ہڈیوں
کے ریزہ ریزہ ہوجانے اور مٹی میں مل جانے کے بعد انسان کس طرح زندہ اٹھ
کھڑا ہوگا;238; انہیں علم نہیں کہ اللہ جب پیدا کرسکتا ہے، موت دے سکتا ہے
، موت سے بچا سکتا ہے تو مرے ہوئے شخص کو جس کی ہڈیاں چورا چورا ہوچکی ہوں
گی دوبارہ زندہ کرنا اس کے لیے مشکل نہیں ۔ وہ خالق ہے، مالک ہے کائینات کا
۔ قیامت کے دن جب وہ گناہ گار اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھیں گے تو ان کے
پاس سوائے پچھتانے کے کچھ نہیں رہ جائےگا ۔ پھر وہ آپس میں تکرار کریں گے،
ان کے برعکس اہل جنت جب ان نعمتوں کو اپنے سامنے پائیں گے جن کا ذکر وہ
کلام پاک میں اور بنی ﷺ سے سنتے رہے تھے تو وہ بھی بے یقینی کی کیفیت میں
ایک دوسرے سے مکالمہ کریں گے ۔ اور وہ آپس میں دنیا کی باتوں کو بھی یاد
کریں گے ۔ جہنمیوں کا حال دیکھ کر جنتیوں کے دل میں رشک کا جذبہ مزید بیدا
ہوجائے گا ، وہ ہمیشہ کے لیے زندگی کی خواہش کرنے لگے گے، ان کے برعکس
جہنمیوں کے لیے جو عذاب ہوگا ، اللہ اس سے پناہ دے، یہاں اس کی تفصیل بیان
کی گئی ہے ۔
قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سابقہ رسولوں کے قصے مسلسل بیان کیے
ہیں ، سُوْرَۃُ الصّٰفّٰت میں بھی کئی انبیا ء کے قصے بیان کیے گئے ۔
ابتداء حضرت نوح علیہ السلام سے کئی گئی، کہاگیا کہ ’ہم نے نوح علیہ السلام
کی دعا قبول کی اور اس کی قوم کو طوفان بھیج کر تباہ کردیا، اللہ نے آیت79
میں کہا’’ نوح علیہ السلام پر تمام جہانوں میں سلام ہو‘، حضرت ابراہیم علیہ
السلام، نوح علیہ السلام کے گروہ میں سے تھے ، ان کا ذکر تفصیل سے آیا
پہلے ان کے اس پیغام کاجواللہ نے انہیں قوم کو پہنچانے کے لیے دیا تھا،
بتوں کو مسمار کرنا،راہیم خلیل اللہ ہی کا کام تھا، مشرکین نے انہیں آگ
میں ڈالدیا اور اللہ نے آگ کو حکم دیا کہ اللہ کے حکم سے ابرہیم علیہ
السلام پر ٹھنڈی ہوجا، آگ ٹھنڈی ہوگئی، ابرہیم علیہ السلام محفوظ ، زندہ
سلامت رہے ۔ اس کے علاوہ اپنے بیٹے اسماعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرکے
اللہ کے حکم کی بجا آوری ، تسلیم و رضا کا پیکر ثابت ہوئے، کس طرح اسماعیل
علیہ السلام کو مقصد بتایا ، انہوں نے دوسری بات ہی نہ کی اللہ کا حکم اس
کی بجا آوری کیجئے، پھر اللہ کا قربانی قبول کرنا، عین جب کہ چھری چلنے
والی تھی ، خون بہنے ہی والا تھا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے وحی نزول فرمائی،
آزمائش کا قبول کرنا، اسماعیل علیہ السلام کی جگہ مینڈھے کی قربانی، اللہ
نے کہا’ ابراہیم علیہ السلام پر سلام ہو‘ ۔ ابرہیم علیہ السلام کو بیٹا
اسحٰق عطا کیا، موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کا ذکر کیا گیا،
پھرحضرت الیاس علیہ السلام کا قصہ ہے جو ملک شام کی ایک قوم جو ایک ’بعل‘
نامی بت کی پوجا کیا کرتی تھی ،اللہ کا پیغام سننے سے انکار کیا اور عذاب
سے دوچار ہوئی، حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی قوم کا قصہ مشہور ہے، عبرت
ناک عذاب اس قوم پر نازل ہوا ۔ حضرت یونس علیہ السلام جنہیں مچھلی نے نگل
لیا تھا اللہ کے حکم سے مچھلی نے انہیں سحرا میں اگل دیا، ان کی قوم پر بھی
عذاب نازل ہوا ، کشتی میں سوار ہونے واے بچ گئے باقی قوم جو ایک لاکھ کے
قریب تھی طوفان نوح میں غرق ہوگئی ۔
اللہ نے مشرکین کی اس بیہودہ بات کے جواب میں کہ اللہ نے اولاد جنی کے جواب
میں آیت 153 میں کھلے الفاظ میں کہا کہ ’’خبردار ! بلاشبہ اپنی طرف سے
جھوٹ گھڑکر کہتے ہیں ، کہ ’’اللہ نے اولاد نی‘‘ اور یقینا وہ جھوٹے ہیں ‘‘
۔ پھر انہوں نے اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ ٹہرایا ، حالا نکہ بلا شبہ
خود جنوں نے جان لیا کہ وہ اللہ کے سامنے ضرور حاضر کیے جائیں گے ، اللہ ان
باتوں سے پاک ہے جو وہ اس کے بارے میں بیان کرتے ہیں ۔ آخری آیت میں
فرمایا ’’آپ کا رب! عزت کا مالک، ان باتوں سے پاک ہے جو وہ مشرک بیان کرتے
ہیں اور تمام رسولوں پر سلام، اور سب تعریفیں اللہ رب العالمین ہی کے لیے
ہیں ‘‘ ۔
سُوْرَۃ صٓ
سُوْرَۃ صٓمکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے اڑتیسویں
;40&41;اور نزولِ ترتیب کے اعتبار 38ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 5رکو ،88آیات
ہیں ۔ یہ حروفِ مقطعات سے شروع ہوتی ہے اور اس میں بھی اللہ پاک قرآن کریم
کی قسم کھاتاہے، کہ یہ کتاب تو لاریب ہے ۔ اس میں تمہارے لیے ہر قسم کی
نصیحت اور ایسی باتیں ہیں جن سے تمہاری دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی ،
یہ قرآن تو یقینا شک سے پاک ،ا ن کے لیے نصیحت ہے جو اس سے عبرت حاصل کریں
۔ اللہ واحد لاشریک اس کی وحدانیت اور عظمت کا بیان کیا گیاہے ، کہا گیا کہ
مشرکین گھمنڈ اور تکبر ، جہالت میں ڈوبے ہوئے ہیں باوجود اس کے کہ انہیں
راہ راست پر لانے کے لیے انہی میں سے ایک رسول بھیجا تاکہ وہ آسانی سے
سمجھ جائیں ورنہ تو سب کاموں کے لیے ایک اللہ ہی کافی تھا ۔ سابقہ قوموں پر
اللہ کے عذاب یاد دلاتے ہوئے قوم نوح اور عاد، اور میخوں والے فرعون ، قوم
ثمود ، قوم لوط اور اصحاب اَیکہ نے بھی اللہ کے پیغام کو جھٹلایا، پھر ان
پر عذاب خاص طور پر چیخ والے عذب کا ذکر کیا گیا ہے ۔ فرعون کو میخوں والا
اس وجہ سے کہا کہ وہ ظالم جب کسی پر غضب ناک ہوتا تو اس کے ہاتھوں ،پیروں
اور سر میں میخیں گاڑ دیتا تھا ۔ پھر صور پھونکے جانے کا حکم اس حوالے سے
ہے کہ صور پھوکنے کے بعد وقفہ بھی نہیں ملے گا کہ قیامت کا زلزلہ برپا
ہوجائے گا ۔ حضرت داوَد علیہ السلام کو یاد کیا گیا جن پر اللہ نے پہاڑ
تابع کردیے تھے، ان کی نماز اور روزوں کو زیادہ محبوب کہا گیا ۔ عبادت گزار
تھے، آواز اللہ نے انہیں پر کشش عطا کی تھی، ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ
السلام کاذکر بھی ہے ، انہیں ہوا ور جنات پر اختیار دیا گیا تھا ۔ حضرت
ایوب علیہ السلام جو حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے تھے ان کے پاس ثروت
و غنا بہت تھا، باغات ، محل، زرعی زمینیں اور جائیدادیں تھیں ۔ آزمائش
اللہ نے لی تو سب کچھ مال اسباب جاتا رہا اولاد ہلاک ہوگئی، جانورتمام
مرگئے، بے شمار پریشانیوں کے باوجود انہوں نے صبر و شکر کا دامن نہ چھوڑا ،
اللہ نے انہیں آزمائش میں پور ا اترنے والا پایا اوریادہ نوزا ۔
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام، حضرت یسع اور حضرت ذوالکفل علیہم السلام کا
مختصر ذکر ہے، حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں آیت 70 میں کہا گیا کہ
’’یاد کیجئے جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا بے شک میں مٹی سے ایک انسان
پیدا کرنے والا ہوں ، چنانچہ جب اسے ٹھیک ٹھیک بنا دوں اور س میں روح پھونک
دو تو تم اس کے آگے سجدہ کرتے ہوئے گرپڑنا، تب تمام فرشتوں نے بیک وقت
سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے ، اس نے تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہوگیا ۔
ابلیس نے اپنے آپ کو آدم سے اونچے درجے والوں میں سے کہا ۔ اس نے کہا میں
اس سے بہتر ہوں ، مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے، اللہ نے
ابلیس کو اسی وقت نکل جانے کا حکم دیا، کہا تو بے شک مردود ہے، ابلیس نے
مہلت مانگی جو اللہ نے اسے دیدی انسان کو پہکانے کی اور وہ مردود یہ کام
آج تک کر رہا ہے ۔ سورہ کا اختتام آیت 87پر ہوتا ہے ،نبی ﷺ کو مخاطب کرتے
ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے نبیﷺ کہہ دیجئے میں تم سے اس تبلیغ دین پر
کوئی اجر نہیں مانگتا اور میں تکلف یا بناوٹی کام کرنے والوں میں سے نہیں
یہ قرآن جہانوں کے لیے نصیحت ہی تو ہے‘‘ ۔
سُوْرٓ الزُّمَرِ( کی31 آیات )
ِسُوْرٓ الزُّمَرِ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے
انتالیسویں (39)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار59ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 8رکو
،75آیات ہیں ۔ اس سورہ میں قرآن کی عظمت اور توحید کا بیان ہے ۔ یہاں اس
کی 31آیات کا خلاصہ بیان ہوگا جب کہ باقی 44آیات کا خلاصہ آئندہ پارہ
میں بیان کیا جائے گا ۔
سُوْرٓ الزُّمَرکی اولین آیت میں فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ’’اس کتاب
کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست اور حکمتوں ولا ہے‘‘ ۔ اس آیت میں
اللہ نے یہ بتایا ہے کہ یہ کلام یعنی قرآن کریم فرقان حمید کی آیات محمد
ﷺ کا اپنا کلام نہیں ہے، جیسا کہ منکرین اور مشرکین کہا کرتے تھے ۔ بلکہ یہ
کلام اللہ کا ہے اس نے خود نازل فرمایا ہے ۔ یہ سورت ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے
مکہ معظمہ میں کفار کی جانب سے کیے جانے والے ظلم و ستم کے دوران نازل ہوئی
۔ اگرچہ کہیں کہیں اہل ایمان سے خطاب بھی ہے ، پیغمبروں کا ذکر بھی ہے،اللہ
نے ان کے قصے اکثر سورتوں میں بیان فرمائے ہیں ۔ اللہ جھوٹوں کو ہدایت نہیں
دیتا ۔ کفار نے اللہ کی اولاد کی بات بھی کی جس پر اللہ نے کہا کہ اللہ اگر
کسی کو بیٹا بنا نا چاہتا تو اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا برگزیدہ کر
لیتا، پاک ہے وہ ،اس کا کوئی بیٹا نہیں وہ اللہ ہے ، اکیلاہے اور سب پر
غالب، اس نے آسمانوں اور زمین کوبر حق پیدا کیا ہے ، کائینات کا نظام اسی
کے مطابق چل رہا ہے ۔ اسی نے چاند اور سورج کو مسخر کر رکھا ہے، حضرت آدم
علیہ السلام جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا ، پھر اپنی طرف سے اس میں
روح پھونکی، یعنی اماں حوا کو حضرت آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے پیدا
کیا ، یہ بھی اس کا کمال قدرت ہے کہ حوا کے علاوہ کسی عورت کی تخلیق کسی
آدمی کی پسلی سے نہیں ہوئی ۔ یعنی جوڑی بنائی،چوپایوں میں سے آٹھ جوڑے نر
اور مادہ پیدا کیے، یہ چار قسم کے جانوروں میں بھیڑ، بکری، اونٹ، گائے جو
نراور مادہ مل کر آٹھ ہوجاتے ہیں ۔ انسان کے بچہ کی پیدائش کے حوالے سے
اللہ نے آیت 6 میں کہا ’ وہی ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین
تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتاچلا جاتا ہے ۔ تین تاریک
پردوں سے مراد وہ جھلی نما تھیلی ہے جو بچے کو روشنی اور دیگر چیزوں سے
محفوظ رکھتی ہے ۔
اللہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا ہے جب کہ شکر کرنے والوں کو
پسند کرتا ہے ۔ یہ توحید کا اثبات اور شرک کی نفی ہے ۔ قیامت کے دن کے
حوالے سے اللہ نے فرمایا کہ ’کوئی بوجھ اٹھا نے والا کسی دوسرے کا بوجھ
نہیں اٹھائے گا ۔ یعنی ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے ۔ ہمارا نامہ
اعمال جب ہمارے ہاتھ میں دیا جائے گا تو ہ میں معلوم ہوجائے گا کہ ہم دنیا
میں کیا کچھ کرتے رہے ہیں ، اس لیے کہ اللہ تو دلوں کو حال تک جانتا ہے ۔
اللہ نے انسان کی خصلت یا عادت کی جانب توجہ دلائی ، فرمایا کہ ’’کہ انسان
پر جب کوئی آفت آتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرکے اسے پکارتا ہے ،
پھر اس کا رب اسے اپنی نعمت سے نوازدیتا ہے تو وہ اس مصیبت کو بھول جاتا
ہے، اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر ٹہراتا ہے یعنی دوسروں کی بندگی کرنے لگتا
ہے، انہیں کی اطاعت کرنے لگتا ہے ، یہاں اللہ نے فرمایا اے نبی ﷺ! اس سے
کہو کہ تھوڑے دن اپنے کفر سے لطف اٹھالے، یقینا تو دوذخ میں جانے وال ہے ۔
پھر اللہ اپنے نبی ﷺ سے فرماتا ہے اے نبی ﷺ !کہو کہ اے میرے بندو جو ایمان
لائے ہو ، اپنے رب سے ڈرو، جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا اس
کے لیے بھلائی ہے اور خدا کی زمین وسیع ہے، صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر
بے حساب دیا جائے گا ۔ ان آیات میں دو طرح کے انسانوں کی مثال دی گئی ہے
ایک وہ جو وقت پڑنے پر اللہ کویاد کرتے ہیں ، کام نکل جائے تو غیر اللہ کی
بندگی کرتے ہیں دوسرے وہ لوگ ہیں جو اللہ کی اطاعت اور بندگی کرتے ہیں ،
عبادت کرتے ہیں ۔ اللہ کے نبی ﷺ اس بات کی شدید خواہش رکھتے تھے کہ آپ کی
قوم کے سب لوگ ایمان لے آئیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آیت 19 میں نبی ﷺ کو تسلی
دی اور آپ کو بتلا یا کہ آپ کی خواہش اپنی جگہ بالکل صحیح اور بجا ہے
لیکن جس پر اس کی تقدیر غالب آگئی اور اس نے اللہ کا کلمہ نہیں پڑھا، اسے
آپ جہنم کی آگ سے بچانے پر قادر نہیں ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں
بھی درجات کے حساب سے ایک دوسرے کے اوپر بال خانے ہوں گے ۔ نزول قرآن کے
حوالے سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’اللہ نے بہترین کلام نازل کیا جو ایک
کتا ہے باہم ملتی جلتی ، بار بار دہرائی جانے والی، جس سے ان لوگوں کے
رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ‘‘ ۔ فرمایا بلاشبہ ہم نے قرآن میں لوگوں کے لیے
ہر قسم کی مثالیں بیان کی ہیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں ، اللہ نے فرمایا کہ
قرآن عربی زبان میں ہے ، اس میں کوئی کجی نہیں ۔ یہاں آ یت 29 میں ایک
مثال دی گئی ہے کہ ایک غلام ہے جو کئی لوگوں کے درمیان مشترکہ ہے چنانچہ وہ
آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں اور ایک غلام جس کا مالک صرف ایک ہی شخص ہے، اس
کی ملکیت میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے ، کیا یہ دونوں غلام برابر
ہوسکتے ہیں ;238; نہیں یقینا نہیں ، اسی طرح وہ مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسرے
معبودوں کی بھی عبادت کرتا ہے اور مخلص مومن جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا
ہے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹہراتا، برابر نہیں ہوسکتے ۔ (23رمضان
المبارک 1440ھ ،29 مئی2019ء)
|