نزولِ قرآن مقدس نے قوموں کی زندگیوں میں صالح انقلاب
برپا کر دیا- آخری پیغمبر رسول رحمت صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کو رب کریم
نے بے پناە اختیارات دے کر بھیجا- آپ کی ذات اقدس پر نازل ھونے والی کتاب
ایسی عظیم و بے مثل ھے جس کے آگے فصیحان عرب عاجز ھیں اور اس کی نظیر لانے
سے قاصر- اللہ تعالٰی نے آخری کتاب قرآن مجید نازل کر کے اہل زباں کے غرا
کو خاک میں ملا دیا- بے زباں کر دیا:
ترے آگے یوں ھیں دبے لچے، فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منھ میں زباں نھیں، نھیں بلکہ جسم میں جاں نھیں
(اعلٰی حضرت)
قرآن مقدس نے شعور بندگی کے ساتھ شعور زندگی بھی عطا کیا- بے پناە علوم کا
سرچشمہ اور معارف کا بحر نا پیدا کنار ھے قرآن مقدس- اس کی لازوال تعلیمات
نے صالح انقلاب برپا کیا-
جس کی قوت و شوکت کا بار قلب مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علاوە
کوئی نھیں اٹھا سکتا- ایسے عظیم کلام کی جائے نزول کا سفر محترم 13 رمضان
المبارک 1437ھ کی صبح درپیش ھوا-
مکہ مکرمہ کی مقدس وادی میں جبل نور کی چٹان عظمتوں کے ان گنت پہلو سمیٹے
ھوئے ھے- تاريخ انسانی کے اس کوہ محکم نے قدم مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم کو بارہا چوما ھے- انھیں نشان قدم ناز کی تلاش میں کتنے صاحب دل
سرگرداں ھیں- علم کا ھر شناور جبل نور کا ممدوح و احسان مند ھے- جس کی فلک
آسا چوٹی کے پاکیزە مقام "غار حرا" میں قرآن مقدس نازل ھونا شروع ھوا-
اپنی تاریخ کے اس عظیم پہاڑ کی زیارت دل و نگاە کو نور عطا کرتی ھے- جلوؤں
کی اس پاکیزە وادی میں لگتا ھے که کونین کے تاج دار کی سواری ابھی گئی ھے-
جبل نور تو وفادار مصطفٰی ھے- جبھی یہ انعام ملا که امام الانبیاء اس کے
غار میں بارہا جلوە بار ھوئے- بلبل سدرە سردار ملائکہ جبریل امین خدائی
امانتیں لے کر اس پر نازل ہوئے-
چڑھائی قدرے سخت ھے- چوٹی کے عقبی پہلو پر موجود غار میں جلالت ھے- جہاں
سردار انبیا کو سردار ملائکہ نے "اقرا" کا خدائی پیغام پہنچایا اور نزول
قرآن کا آغاز ھوا-
ھم نے سخت گرمی کی تمازت کے باوصف زیارت کی- تاریخ انسانی کے زریں لمحات کو
یاد کیا- ماضی کے بہت سے اوراق عالم تصور میں کھنگالے- حرا کی عظمتوں کو
سلام- حرا کے خاموش غار کی قوت و ادراک کو سلام جہاں سب سے عظیم پیغمبر نے
خدائی پیغامات کو لے کر دنیا کو علم و انقلاب سے آشنا کیا-
مکه مکرمہ پتھروں کی وادیوں سے گھرا ھے- چٹانوں کی اس منزل میں دلوں کو
پگھلا دینا خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ھی کا خاصہ ھے- ھر طرف
پتھر ھی پتھر- خیالات بھی پتھریلے تھے- عقیدت کے رشتے بھی پتھروں سے تھے-
کفار کے ھاتھوں میں بھی پتھر تھے- ایسے پتھریلے ماحول میں خاتم النبیین صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انقلاب تازە برپا فرمایا کہ راہزن راہبر اور پتھر
دل موم بن گئے:
وە عھد ظلم و جھالت کے دل نما پتھر
نبی سے ملتے رہے آئینوں میں ڈھلتے رہے
جلوؤں کی اس وادی میں اپنی تاریخ کے زریں اوراق تازہ ھوتے ھیں- ھر ذرہ نور
میں نہایا ھوا محسوس ھوتا ھے- منزلِ مراد ھے یہ وادی نور- ھم اپنے نقوش کی
تلاش میں ھیں- تاریخ کھنڈرات کھود رہی ھے- فطرت سے منحرف آثار پر تاریخ گری
کی جا رہی ھے- ھماری تاریخ کے تابندہ نقوش جبلِ نور میں یوں نمایاں ھیں کہ
عظمتوں کا ھر لمحہ محفوظ ھے، اور یہاں کا ھر ذرہ تاباں و درخشاں- جس پیغام
نے یہاں کی فضا کو مشک بار کیا اس کی خوشبو کائنات میں پھیلی ھے اور شش جہت
حق آشنا ھو رہے ھیں-
ابھی بھی لگتا ھے که رسول کونین صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کے پاکیزە انفاس
کی خوشبو فضائے حرا میں پھیلی ھوئی ھے- یہاں ھم بارگاە الہی میں سجدە شکر
بجا لائے- تلاوت قرآن کی اور اپنے تاریخی ورثے کو عقیدت کیش نگاہوں سے
الوداع کہا اور دوپہر شہر تقدس مآب مکہ مکرمہ پہنچ گئے-
***
بکھرے لفظوں کی یہ کڑیاں رمضان المبارک 1437ھ میں ارضِ طیبہ پر مجتمع
ہوئیں- (شہباز اختر رضوی)
|