آفس گھر سے تقریبا ایک گھنٹہ کی مسافت پہ ہے. راستے میں
پڑنے والی اکثر مساجد میں نماز پڑھ چکا ہوں. ایسی مسجد میں بھی نماز پڑھنے
کا اتفاق ہوا جو گاؤں کی کچی مسجد کے مشابہ ہوتی. اے سی والی مسجد میں بھی
پڑھنے کا موقع ملا. ایسے امام کو بھی سنا کہ سن کے روح سرشار ہوگئی. ایسے
امام کی "گرفت" میں بھی آیا کہ لگا زلزلہ آگیا ہو، مسجد ہل رہی ہو. نماز
توڑ کے بھاگ جاؤں. اللہ معافی.
مولانا محمد طیب صاحب( Abo Waleed ) کا شمار ان ائمہ کرام میں ہوتا ہے جن
کی اقتدا میں نماز پڑھنے سے نماز کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے. دل کرتا ہے بس
وہ پڑھتے چلے جائیں اور ہم سنا کیے.
مولانا طیب نے درجہ رابعہ تک تعلیم جامعہ فاروقیہ کراچی میں حاصل کی. رابعہ
میں ان کے والد جامعہ فاروقیہ کے استاذ الحدیث مولانا عنایت اللہ رحمہ اللہ
کے جام شہادت نوش فرماجانے اور بڑے بھائی امام عطاء اللہ خان صاحب کی لندن
سکونت کے بعد دھوراجی کی مدینہ مسجد کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پہ آپڑی.
طالب علمی میں ہی وہ مسند امامت پہ فائز ہوئے. روز جامعہ فاروقیہ آنا جانا
مشکل تھا. اس لیے بقیہ درجات دورہ حدیث تک گھر کے قریب واقع جامعہ امام ابو
حنیفہ، مکہ مسجد میں پڑھے. دورہ حدیث کے لیے دوبارہ جامعہ فاروقیہ شیخ
الحدیث مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے آئے.
۲۰۰۳ میں جامعہ فاروقیہ سے سند فراغت حاصل کی. فراغت کے ایک سال بعد سے
تاحال وہ مکہ مسجد میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں. ابتدائی درجات سے
رابعہ تک تقریبا تمام کتب پڑھاچکے ہیں. جس طرح وہ خوش الحان واقع ہوئے ہیں
اس سے بڑھ کے خوش اخلاق ہیں.
امامت بڑا حساس منصب ہے. صرف جماعت کرواکے محراب کے دروازے مسجد سے نکلنے
والے امام کو اکابرین نے گونگے شخص سے تشبیہ دی ہے. امام مسجد جہاں جماعت
بروقت کرواتا ہے وہاں نمازیوں اور اہل محلہ کے شرعی اور معاشرتی مسائل کی
رہنمائی بھی کرتا ہے. درس قرآن و درس حدیث. ہر ایک کی خوشی غمی میں شامل
ہوتا ہے. ایسے امام کو نمازی اور اہل محلہ اپنا سر کا تاج سمجھتے ہیں. اس
کے ہرقول کو حرف آخر کا درجہ دیتے ہیں.
مولانا محمد طیب صاحب بھی ایسے ہی ائمہ مساجد میں شامل ہیں. نمازی انہیں
اپنا بے تکلف بھائی اور دوست سمجھتے ہیں. ان کے چہرے پہ ہمہ وقت مسکان
چھائی رہتی ہے.
خوش الحان امام طیب کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ ہر قاری کی آواز میں
تلاوت کرلیتے ہیں. ائمہ حرم کی آواز میں جب تلاوت کرتے ہیں تو عجب سماں
باندھ دیتے ہیں. نمازی اپنے آپ کو حرم شریف میں امام سدیس، شریم، حذیفی،
جابری اور معیقلی وغیرہ کی اقتدا میں کھڑا محسوس کرتا ہے. قاری سعد نعمانی
کی طرح وہ بیک وقت کئی ائمہ کی آواز میں تلاوت کرنے پر بھی قادر ہیں. ایک
آیت شیخ سدیس تو دوسری شیخ شریم. ایک آیت شیخ ماہر المعیقلی تو دوسری علی
جابری کی آواز میں. میرے استفسار پہ ان کا کہنا تھا: "سب سے مشکل آواز شیخ
سدیس کی ہے. یہی وجہ ہے شیخ سدیس کے طرز میں پڑھنے والے آسانی کے لیے اکثر
چھوٹی سورتیں پڑھتے ہیں. میری نارمل آواز اور شیخ سدیس کی آواز میں بعد
المشرقین ہے. یہی وجہ ہے اس کے لیے مجھے کافی محنت کرنا پڑتی ہے. دیگر ائمہ
کرام کا طرز لگانے میں کوئی دقت نہیں ہوتی اور کبھی ردھم نہیں ٹوٹتا مگر
شیخ سدیس کا طرز لگاتے ہوئے گاہے پٹری سے اتر بھی جاتا ہوں".
گزشتہ دنوں نماز کے بعد ان سے ملاقات ہوئی، اپنے ساتھ گھر لے گئے، جس طرح
مجھ نالائق کی عزت افزائی کی، اکرام سے نوازا وہ ان کا ہی خاصہ ہے. فجزاہ
اللہ احسن الجزاء. |