مشکل راستے قسط نمبر 62

ہونڈا اکارڈ روئیل تاج ہوٹل کی طرف روواں دواں تھی اور چندہ پھو پھو کی نان اسٹاپ باتیں جاری تھیں ۔۔۔۔ کافی جہاندیدہ خاتون تھیں ۔۔۔۔۔ دنیا جہاں کی معلومات کا سر چشمہ ۔۔۔ یوں سمجھ لیں چندہ پھو پھو چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھیں ۔۔۔۔ میں چپ چاپ پیچھے بیٹھی ان کی ذکی سے سیاست پر بحث مباحثہ سن رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ خود کو کوس بھی رہی تھی کہ کیوں ساتھ چندہ پھو پھو کے چلے آئی تھی ۔۔۔۔ اگر ذرا بھی پتہ ہوتا کہ ذکی موصوف بھی ساتھ چل رہے ہیں تو کبھی ساتھ چلنے کی حامی نہ بھرتی ۔۔۔۔ کوئی بھی بہانہ بنا کر گھر پر رک سکتی تھی ۔۔۔۔ لیکن خیر اب کیا ہوسکتا تھا ۔۔۔۔ ویسے صبح سے موسم کافی گرم تھا مگر مغرب کے وقت سے ہی موسم کافی خوشگوار ہوگیا تھا ۔۔۔۔ بدلیوں نے پورا آسمان ڈھانپ لیا تھا ۔۔۔۔ گرم ہوائیں سرد ہوائوں میں بدل گئی تھیں ۔۔۔۔ اب تو بوندا باندی بھی شروع ہوگئی تھی ۔۔۔۔ ادھ کھلے دروازے کے شیشے سے اندر خود پر پڑتی پھوار مجھے ماضی کی خوشگوار یادوں کی طرف دھکیل رہی تھیں ۔۔۔

ذکی کتنا خوبصورت موسم ہوگیا ہے ذرا سیڈی پلیئر تو آن کرو ۔۔۔۔۔ اور یہ تم اتنی خاموش کیوں بیٹھی ہو ۔۔۔۔

ایسی تو کوئی بات نہیں ہے میں تو آپ دونوں کی گفتگو سن رہی تھی ۔۔۔

ذکی کو گانے لگانے کا بول کر جب مجھے مڑ کر دیکھتے ہوئے پوچھا تو میں نے بھی مسکرا کر جواب دیا تھا انہیں ۔۔۔ جس پر سر ہلا تے ہوئے سامنے دیکھنے لگیں تھیں ۔۔۔۔ اسی وقت سی ڈی پلئیر آن ہوا تھا اور آطف اسلم کی خوبصورت آواز گونجنے لگی تھی ۔۔۔۔۔

بارشیں یوں اچانک ہوئیں تو لگا تم شہر میں ہو
رات بھر جب وہ نہ رکیں تو لگا تم سحر میں ہو

سنئیہ ۔۔۔۔۔۔

بے اختیار سنئیہ کا نام خاموش لبوں پر آیا تھا ۔۔۔۔ اور بے اختیار آنکھوں میں نمی سی اتر آئی تھی ۔۔۔۔ یہ گانا سنئیہ کو بہت پسند تھا ۔۔۔ جہاں بارش شروع ہوئی وہیں وہ سی ڈی پلئیر پر یہ گانا چلا دیتی اور روائیند فارورڈ کر کر کے ہمارے کان درد کر دیتی ۔۔۔۔۔

خدا کی پناہ ہے سنئیہ یہ ہروقت تم ایک ہی گانا کیوں اتنے خوبصورت موسم میں لگا کر ہمارے کان پکا دیتی ہو۔۔۔۔۔

اگر تمہیں یہ گانا اتنا ہی ناپسند ہے تو روئی کانوں میں ٹھونس لو مگر یہ گانا تو بند نہیں ہوگا ۔۔۔۔۔۔

وہ چڑانے والے انداز میں مجھے جواب دیتی تھی ۔۔۔۔ اور میں تلملاتے ہوئے غصے سے اس کمرے سے ہی واک آؤٹ کر جاتی تھی ۔۔۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں وہ گانا بند کر کے مجھے منا نے آجاتی اور میں بھی فوراً مان جاتی ۔۔۔ پھر ہم دونوں بہنیں اپنے چھوٹے سے خوبصورت لان میں بارش میں بھیگتیں بارش کو انجوائے کرتیں ۔۔۔۔۔ میں یاد ماضی میں کھوئی ہوئی اپنی بہن اپنی جان کو یاد کر رہی تھی ۔۔۔۔ یہ میٹھی یادیں ہی میرا کل سرمایہ تھیں ۔۔۔۔۔ ان کے علاوہ میرا پاس اب کچھ بچا بھی تو نہیں تھا ۔۔۔۔۔ کب آنکھیوں میں اترا پانی آنکھوں سے چھلک پڑا خبر ہی نہ ہوئی ۔۔۔ گاڑی رکنے پر احساس ہوا کے روئیل تاج ہوٹل ہم پہنچ چکے ہیں ۔۔۔۔ میں نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کئے تھے ۔۔۔۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ چندہ پھو پھو مجھ سے کوئی سوال کریں میرے رونے کا سبب پوچھیں ۔۔۔۔ اگر ذرا بھی انہیں بھنک بھی پڑ جاتی کہ میں روئی ہوں تو وہ ہاتھ دھو کر میرے پیچھے پڑجاتیں ۔۔۔۔ ذکی نے گاڑی ریسٹورنٹ کے میں اینٹرنس پر روکی تھی اور ہمیں وہاں اتار کر گاڑی پارک کرنے چلا گیا تھا ۔۔۔۔۔ میں چندہ پھو پھو کے پیچھے ریسٹورنٹ کے اندر داخل ہوگئی تھی ۔۔۔۔ ہمیں دیکھ کر ایک ویٹر ہماری طرف بڑھا تھا ۔۔۔۔

ہیلو میم ۔۔۔ ہاؤ آریو ۔۔۔۔

ٹھیک ۔۔۔۔ تم سناؤ صفدر کیسے ہو ۔۔۔۔

فائین میم آج بھی آپ اور ذکی صاحب ۔۔۔۔

نہیں بھئی آج ہماری پیاری بیٹی بھی ساتھ ہیں ۔۔۔۔ یعنی آج میں ذکی اور نائیلہ ۔۔۔۔

اوہ ۔۔۔۔ ذکی بابا کی دلہن ۔۔۔۔ سلام بی بی جی ۔۔۔۔

ارے نہیں بھئی ۔۔۔۔ذکی کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے ۔۔۔۔

میں اس کے اس طرح کہنے پر تھوڑی خجل سی ہوگئی تھی ۔۔۔۔

ہیلو ذکی بابا ۔۔۔ ہاؤ آر یو ۔۔۔۔۔

اللہ کا فضل ہے ۔۔۔۔۔

اپنے پیچھ سے آتی ذکی کی آواز پر بے اختیار پلٹ کر دیکھا تھا میں نے ۔۔۔۔۔۔ وہ عین میرے پیچھے کھڑا تھا ۔۔۔۔ مجھے کچھ عجیب سی شرمندگی کا احساس ہوا تھا ۔۔۔۔ اور اس بوڑھے ویٹر پر غصہ بھی آیا تھا ۔۔۔۔۔ بلا سوچے سمجھے اس نے مجھے ذکی کی بیوی سمجھ لیا تھا ۔۔۔۔۔ کہیں ذکی نے تو یہ بے سروپا بات تو نہیں سن لی ۔۔۔۔ کن اکھیوں سے چندہ پھو پھو کے قریب کھڑے ہوتے ذکی پر نظر ڈالی تھی ۔۔۔۔ مگر وہاں سپاٹ ایکسپریشن کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا تو سکھ کا سانس لیا ۔۔۔۔۔

صفدر صاحب ہمیں ایک ٹیبل پر جو مجھے بعد میں پتہ چلا کے ذکی اور چندہ پھو پھو کے لئے مختص تھی پر لے آیا ۔۔۔۔ ہمارے بیٹھنے کے بعد منیو کارڈ ہاتھوں میں تھما دی ۔۔۔۔۔

ہممم ذکی میں تو چکن کڑھائی اور سیخ کباب اور تمہیں کیا آرڈر کرنا ہے ۔۔۔۔ ایز یوژل چرغہ کھاؤ گے یا پھر کچھ اور ۔۔۔ اور ہاں نائلہ تمہارے لئے کیا آرڈر کروں ۔۔۔۔

میں بھی وہی لونگی جو آپ نے آرڈر کی ہے چندہ پھو پھو ۔۔۔۔۔

تم تکلف کر رہی ہو ناں ۔۔۔۔۔

ارے نہیں میں تکلف نہیں کر رہی بلکے بلیو می میں اور اماں بی کی بھی یہی فیورٹ ڈش تھی اور سنئیہ کو تو سیخ کباب بہت پسند تھے ۔۔۔

بے خیالی میں میری زبان سے اماں بی اور سنئیہ کا نام نکل گیا تھا ۔۔۔ مجھے فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا ۔۔۔

یہ سنئیہ اور اماں بی کون ہیں ۔۔۔۔۔

چندہ پھو پھو کے پوچھنے پر انہیں جواب دینے کی بجائے بے اختیار میری نظریں اپنے سامنے بیٹھے ذکی پر اٹھی تھیں ۔۔۔۔ جو مشکوک نظروں سے مجھے گھور رہا تھا ۔۔۔۔۔

×××××××××××××××××××

رات کی تاریکی ۔۔۔ ہر سو ایک عجیب سی وحشت اور سناٹا چھایا ہوا تھا ۔۔۔ یہ میدانی علاقہ تھا۔۔۔ دور دور تک کوئی درخت اور ہریالی کا نام و نشان تک نہ تھا شہر سے دور گنجان آباد علاقہ ۔۔۔ انسان تو دور کی بات ہے کوئی جانور تک کا اس علاقے میں موجود نہ تھا ۔۔۔ انسانی آبادی سے کافی دور یہ آسیب زدہ علاقے کے طور پر مشہور تھا ۔۔۔ لوگ رات تو دور کی بات ہے دن میں بھی اس علاقے میں قدم رکھنے سے گھبراتے تھے ۔۔۔ اور اس وقت چار نفوس چوکور دائرہ بنائے بیٹھے تھے ۔۔ درمیان میں کچھ جلی لکڑیاں رکھی ہوئی تھیں ۔۔۔ جن سے دھواں اٹھ رہا تھا ۔۔۔ لگتا تھا ابھی دھکتے الاؤ کو بجھایا گیا ہے ۔۔۔۔ اس منظر کی سب سے ہولناک بات یہ تھی کے ان جلتی لکڑیوں کے قریب ہی ایک سر بریدہ لاش پڑی تھی جس کے کٹے گلے سے خون اب تک اُبل رہا تھا ۔۔۔۔ وہ چاروں نفوس زور زور سے کچھ پڑھنے میں مصروف تھے ۔۔۔۔۔ اچانک ہی ان کے سروں کے اوپر کالا سا دھواں جمع ہونا شروع ہوگیا تھا ۔۔۔۔ جو آہستہ آہستہ ایک دائرے کی شکل میں گردش کرنے لگا ۔۔۔۔۔ پھر اس کے گھومنے کی رفتار میں تیزی آنے لگی تھی اور وہ سکڑنے لگا تھا ۔۔۔۔ اب وہ اس آلاؤ اور لاش کے اوپر دائرے کی شکل میں گھومنے لگا تھا ۔۔۔۔ پھر تیزی سے گھومتے ہوئے دھواں لاش اور اس آلاؤ کے درمیان زمین پر ایک جگہ جمع ہوگیا ۔۔۔۔۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک انسانی روپ میں تبدیل ہوگیا ۔۔۔ یہ ایک بد ہیت اور بدشکل کالا کلوٹا شخص تھا جس کے ایک ہاتھ میں ترشول اور دوسرے ہاتھ میں کسی انسان کا کٹا سر تھا ۔۔۔۔ کٹے سر سے اب تک خون نکل رہا تھا ۔۔۔۔

شیطان ۔۔۔۔ میرا آقا تم لوگوں سے بہت خوش ہوا ہے ۔۔۔۔۔ تم نے جو بلی چڑھائی ہے وہ قبول کر لی گئی ہے ۔۔۔۔ لیکن تمہیں ایک کام اور کرنا ہوگا ۔۔۔۔

جی آقا آپ حکم کریں ۔۔۔۔۔

تمہیں اپنے پتا کے علاوہ بھی اور بلی دینی ہوگی ۔۔۔۔۔

جج جی ضرور ۔۔۔۔ آپ حکم کریں ۔۔۔۔

چاروں ایک ساتھ بول پڑے تو وہ منحوس مسکرایا تھا ۔۔۔۔ عجیب سی مکروعہ مسکراہٹ تھی ۔۔۔

تمہیں اپنی ماتا اپنی پتنیوں اور اپنے بال بچوں کو بھی بلی کرنا ہوگا ۔۔۔۔ اپنے سگے رشتوں کے ساتھ بدفعلی کرنی ہوگی ۔۔۔۔ تبھی تم شیطان کی نظر میں امر ہوجاؤ گے ۔۔۔۔

چاروں بھائی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے تھے ۔۔۔۔۔ دھوکے سے باپ کو اس میدان میں لاکر بے دردی سے سر تن سے جدا کر دیا تھا ان ظالموں نے ۔۔۔۔ صرف لالچ اور دنیا کی حرص نے انہیں اس گناہ کبیرہ پر آمادہ کیا تھا ۔۔۔۔ اور اب اس بد بخت کے کہنے پر اپنے سگے رشتوں کو مارنے پر بھی آمادہ ہوگئے تھے ۔۔۔۔ مگر ان میں سے ایک بھائی جو سب سے چھوٹا تھا ۔۔ وہ کانپ گیا تھا ۔۔۔۔ شاید وہ اپنے رشتوں کو قتل کرنے سے نہ گھبراتا مگر سگے پاکیزہ رشتوں کے ساتھ بدفعلی جیسا گناہ اسے ہضم نہیں ہوپارہا تھا ۔۔ مگر وہ یہ بات جانتا تھا اگر اسے اختلاف کیا تو اس کے بھائی اس مردود کے کہنے پر سب سے پہلے اسے ہی بےدردی سے قتل کردینگے ۔۔۔ اس لئے اس وقت تو اس نے چپ سادھ لی تھی اور ان کی ہاں میں ہاں ملارہا تھا ۔۔۔۔ مگر دل ہی دل میں اپنے رب سے اپنے گناہ عظیم کی معافیمانگ رہا تھا اور اپنے عزیز رشتوں کو بچانے کی دعائیں مانگ نے لگا تھا ۔۔۔۔

××××××××

وہ خاموش کھوجتی نظروں سے نائلہ اسفند کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ جو اسے ہی ایک دم دیکھنے لگی تھی ۔۔۔۔ نائلہ کے چہرے سے گھبراہٹ صاف ظاہر ہورہی تھی ۔۔۔۔۔ رئیر ویو مرر سے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے وہ اسے روتا ہوا اور پھر آنسو پوچھتا ہوا دیکھ چکا تھا ۔۔۔۔۔ جب وہ گاڑی سے باہر اتری تھی جب بھی آنکھوں کی لالی اس کی تیز نظروں سے چھپ نہ سکی تھی عجیب سا دکھ اس کے حسین چہرے پر چھائے دیکھا تھا ۔۔۔۔ یہ لڑکی اس کے لئے ایک پہیلی سے کم نہ تھی ۔۔۔۔۔ اس کے رکھ رکھاؤ سے کہیں سے بھی اس کی غریبی ظاہر نہیں ہوتی تھی ۔۔۔۔ جو کہانی اس نے سنائی تھی اس کی صداقت پر بھی اول روز سے اسے شک تھا ۔۔۔۔ اور جو اسٹنٹ وہ اس کے دیکھ چکا تھا چڑیا گھر کے سامنے وہ اب تک انہیں بھول نہیں پایا تھا ۔۔۔۔ ایک دبلی پتلی دھان پان سی لڑکی نے اکیلے ہی ان لڑکوں کی بینڈ بجا دی تھی ۔۔۔ وہ خود بھی ایک مارخور تھا ۔۔۔۔ خفیہ انٹلیجنس ادارے سے تعلق رکھتا تھا ۔۔۔۔ مگر آج تک اس طرح کی لڑائی اس نے دیکھی نہ تھی ۔۔۔۔ چھلاوے کی طرح اپنے مخالف کو چند سیکنڈز میں زیر کرلیا تھا ۔۔۔۔

تم نے بات کا جواب نہیں دیا ۔۔۔۔

چندہ پھو پھو نے سر سری انداز میں نائلہ سے دوبارہ پوچھا تھا ۔۔۔ تو وہ بھی اس کی شکل بغور دیکھنے لگا ۔۔۔

چندہ پھو پھو وہ مم میری والدہ کی دوست تھیں اور سنئیہ ان کی اکلوتی اولاد ۔۔۔۔ کبھی کبھی وہ مجھے بھی ساتھ ریستورنٹ لے کر جاتی تھیں ۔۔۔۔

اوہ اچھا ۔۔۔۔

چندہ پھو پھو بولی تھیں ۔۔۔۔

آپ نے پہلے تو ہمیں نہیں بتا یا کہ آپ کے کوئی جاننے والے بھی ہیں ۔۔۔۔

اتنی قریبی عزیز نہیں تھے کہ ان کا ذکر میں آپ سے کرتی ۔۔۔

جی بالکل ۔۔۔۔ تبھی آپ ان کے ساتھ ہوٹلنگ بھی کرتی رہی ہیں ۔۔۔۔ اور ان کی مرغوب غزاؤں کا بھی آپ کو خوب پتہ ہے ۔۔۔

میں امی کے ساتھ تین چار دفع ان کے ساتھ باہر جا چکی ہوں کھانے پر ۔۔۔۔ اس لئے پتہ ہے ذکی صاحب ۔۔۔۔ والدہ کے انتقال کے بعد سے میری ان سے ملاقات نہیں ہوئی ۔۔۔ ویسے بھی اب وہ ابراڈ چلے گئے ہیں ۔۔۔

وہ بولی تھی ۔۔۔۔ تو وہ مسکرا دیا تھا ۔۔۔۔۔ شاید نائلہ بھی سمجھ چکی تھی کہ وہ اس کی کہانی پر یقین نہیں کر رہا ۔۔۔ اس لئے وہ نظریں چرا گئی تھی اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بات نہیں کر پا رہی تھی ۔۔۔۔

اُف ! ذکی اگر تمہاری یہ تفتیش ختم ہوگئی ہو تو ہم سارا منیو آرڈر کرلیں ۔۔۔۔ اور نائلہ تم ذکی کی باتوں پر کان ننہ دھرو ۔۔۔۔ ہمارے ذکی بھائی کو اپنے علاوہ سب ہی مشکوک نظر آتے ہیں ۔۔۔۔۔

ذکی سے کہتی ہوئی وہ نائلہ سے بولی تھیں ۔۔۔۔

ٹھیک ہے میں ان سے اب کچھ نہیں پوچھونگا ۔۔۔۔ صفدر انکل منیو تو ڈن ہوگیا ۔۔۔ ڈرنکس میں آپ لوگ کیا لینگی ۔۔۔ چندہ پھو پھو سے پوچھتے ہوئے ایک اُچٹتی نظر اس پر ڈالی تھی ۔۔۔۔ جس کے چہرے پر ہلکا سا اطمینان اُترتا دیکھا تھا۔۔۔۔

تم جو کوئی بھی ہو نائلہ تمہاری حقیقت میں جان کر ہی رہونگا ۔۔۔۔

اس نے دل ہی دل میں خود سے عہد کیا تھا ۔۔۔۔ اور سامنے بیٹھی اس حسین لڑکی کی طرف دیکھا تھا جس کے چہرے سے شرمندگی اور خجالت صاف عیاں تھی ۔۔۔

×××××××××××××××

باقی آئندہ ۔۔۔
 

farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 230369 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More