کتاب تخلیہ : تبصرہ نگار سیف علی عدیل
اس لیے لکھتا نہیں میں دلِ غمگین کا دکھ
کون سمجھے گا یہاں میرے مضامین کا دکھ
فقیہہ حیدر ایک نابغہ روز گار شاعر کی طرح تخلیہ تخلیہ کرتے ہوئے قرطاس کی
زمین پر ستارہ بن کر چمکے ہیں اس قدر عجلت میں شعور کا سفر طے کرتے نظر آتے
ہیں جہاں شعرا کو پہنچتے پہنچتے صدیاں بیت جاتی ہیں ،اِبا انکار حکم عدولی
عدولِ حکم نافرمانی اِحتجاج اعتراض انکار حجت دہائی مخالف موقف مخالفانہ
آواز اڑ جھگڑا قضیہ ناموافقت اعتزال نا موافقت اِفتراق پھوٹ تفریق جدائی
نفاق ایر پھیر مخالفت بد مزگی آزردگی بگاڑ جھگڑا رنجش رنجیدگی سرد مہری شکر
رنجی ناچاقی ناموافقت بعد تفاوت دوری فاصلہ فرق مسافت بکھیڑا افتراق نا
اتفاقی نفاق بگاڑ رنجش نااتفاقی بل فرق بیورا تفاوت فرق تباین تفاوت جدائی
ضد فرق مخالفت تجاوز تفاوت فرق خلل ابتری اختلال انتشار بگاڑ پراگندگی
خرابی خلفشار فتور کھنڈت سے مزین تخلیہ اسی کا غماز ہے
تخلیہ صرف ان چیزوں کا قائل ہے !
آدمیت آدم گری اخلاق انسانیت بھل منسی تمیزداری خلق و مروت خوش اخلاقی خوش
اطواری خوش خلقی خوش سلیقگی سلیقہ سلیقہ مندی سمجھ شائستگی شرافت عقل مردم
گری مروت ملن ساری،آنکھ بصیرت پرکھ جانچ حق شناسی مشق مہارت واقفیت،اٹکل
پرکھ پہچان جانچ شناخت واقفیت،اِدراک بدھی دانش سمجھ عقل فراست فہم نکتہ
رسی،اِمتیاز سمجھ عقل،انسانیت آدمیت بشریت بھل منسی تمیز تہذیب دردمندی
شائستگی صفات انسانی عقل ہم دردی،اہلیت آدمیت تمیز سمجھ سلیم الطبعی شرافت
مروت،بدھ تمیز حکمت سمجھ عقل فراست گیان وقوف،بدھی تمیز حکمت خِرد دانائی
دانش درایت سمجھ عقل فراست فہم گیان مت،پرکھ پہچان تمیز شناخت گیان
وقوف،پہچان پرکھ تمیز شناخت گیان وقوف،تمیز دانائی دانش سمجھ عقل فہم
ہوش،چیت احساس ادراک بدھ بوجھ سمجھ عقل فہم،حواس ادراک اوسان سمجھ عقل فہم
ہوش،خِرد بدھ بدھی بوجھ تمیز دانائی دانش سمجھ عقل فراست فہم،دانست آگاہی
پہچان رائے سمجھ شناخت علم فہم واقفیت،دانش دانائی سمجھ سمجھ بوجھ عقل
فراست فہم،،دانش مندی۔ دانش وری حکمت دانائی ذہانت عقل مندی علم فضل ہوش
مندی ہوشیاری،درک تجربہ تمیز سمجھ عقل فہم واقفیت،دماغ ادراک بدھ حکمت
دانائی دانش سمجھ عقل فہم گیان مت ہوشیاری۔
لوگ کہتے ہیں شاعری کے کئی رنگ ہیں ہوتے ہونگے میری بساط میں شاعری ایک ہی
رنگ ہی ہوتی ہے جذبات ہی ایک زبان ہوتی ہے جسے احساس کہتے ہیں احساس کئی
طرح کے ہوتے ہیں یہ بھی عام ہے احسا س ہوتا ہے یا نہیں ہوتا لوگوں کے پاس
متعلق اس کے بے شمار دلیلیں پڑی ہوں گی ، سنی سنائی باتیں بھی ہونگی،دھوپ
کی شدت ایک جیسی ہوتی ہے اگر پارہ 45درجہ ہے تو اس کا اثر سبھی ذہنوں پر
ایک جیسا نہیں ہوتا دھوپ ایک احساس ہے مگر مختلف انسانوں پر اس کا اثر بھی
مختلف ہوتا ہے ۔معاشرے میں پائے جانے مزاج کے حوالے سے ایسی مثال امر ٹھہری
ہر جسم ایک جیسی شدت برداشت نہیں کر سکتا کچھ لوگ دھوپ کے نام سے جل جاتے
ہیں اور کچھ دھوپ میں کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں کچھ لوگ دھوپ اور چھائوں
آدھی آدھی کر لیتے ہیں یعنی کے انسان کے اندر موجود اپنے اپنے ظرف کے حساب
سے دھوپ کا اثر ہوتا رہتا ہے گو دھوپ کی شدت ایک جیسی ہے اور کا احساس
مختلف ذہنوں پر مختلف ہوتا ہے ۔ ایسے ہی شاعری کی زبان ایک ہی ہے مگر مختلف
ذہنوں پر اس اثر مختلف ہوتا ہے اس کے احساس مختلف ہو جاتے ہیں شاعری کے اس
اہم تفاعل ہو سمجھنے کی ضرورت ہے جس کی پیچیدگیاں منعکس ہو تی ہیں اندرونی
طور پر موجود ٹوٹ پھوٹ کا شکار جذبات کا اظہار ہر کسی کا ایک جیسا ہوتا ہے
الفاظ ایک جیسے ہوتے ہیں مگر الفاظ کے لباس بد ل جاتے ہیں معنی اپنی جگہ پر
موجود ہوتے ہیں ۔کس نے کون سا لباس چنا یہ اس کے اپنے جمالیاتی احساسات کی
ترجمانی ہوتی ہے ۔کہتے ہیں محرومیوں کو اپنے اندر سے خارج کر کے کسی دوسرے
ذہن کے اندر پہنچانے کے کام کو اظہار کہتے ہیں فنکار اپنے اندر کے جذبات کو
نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ اپنی ذات سے آگاہ بھی ہوجاتا ہے جس سے ایک احساس
پیدا ہو تا ہے ۔ایک فنکار نازک ترین مقام پر فائز ہوتا ہے جہاں پر اسے لمحہ
بہ لمحہ اپنے انا کے مجروح ہونے کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور فنکار کے اندر یہ
غم مسلسل رہتا ہے ایک دانشور کا قول ہے کہ امر ہونے والے شہ پارے وہی ہوتے
ہیں جو گہرے غم ، تاسف یا کسی محرومی پر مبنی ہوں ،احساس کو عقلی اور تحسسی
حوالوں سے محسوس کیا جائے تو ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے ۔فقہیہ حیدر کی
شاعری میںروایت سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کوئی نیا دکھ نہیں وہی الفاظ ہیں جو
صدیوں پہلے شعرا نے استعمال کئے وہی جذبات ہیں جو پہلے ہزاروں شعرا قرطاس
کی زمینوں پر بو چکے ہیں ہاں کچھ نیا ہے تو ان انداز نیا ہے
گزشتہ غم کا تدارک ہے اور مدوا ہے
چل اٹھ دلا کہ نئے عشق کا بلاوا ہے
ہر آنے والا سورج نئی امیدیں لیکر آتا ہے اور شاعر نے غموں سے چور اپنے
وجود کو پھر سے جنبش دی اور کسی نئی کرن کی یقین دہانی کرائی کہ اٹھ شاید
آئندہ ایام نیا جنون پچھلے زخم پر مرہم رکھ دے یہی امید زندگی کا قانون ہے
اس کے بغیر زندگی نا ممکن ہے پچھلے زخم ہو بھلانے کیلئے کسی نئی سکھ پر
یقین کرنا پڑتا ہے اور یوں المیاتی اظہار کو جمالیاتی لباس پہنچا کر تازہ
ہوائوں کو پیغام دیا ہے ۔زندگی کے تلخ تجربات سے گزرتے ہوئے جیسا کہ میں نے
پہلے سطروں میں بیان کیا ہے کہ فنکار کے اندر اپنی انا کے مجرو ہونے کا
خدشہ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا یہ فنکار بھی انہی فنکار وں میں سے ایک ہے جس کے
اپنی انا کے ٹوٹ کا نہ صرف اندیشہ رہا بلکہ اس کا کھل کر اظہار بھی کرتا
رہا ہے ۔
کسی بھی شے کا حقیقی کوئی وجود نہیں
یہاں پہ جو بھی ہے ناٹک ہے سب دکھاوا ہے
ایک انگریز دانشور نے بھی تو یہی کہا ہے کہ ہم سب اداکار ہیں اور زمین ایک
تھیڑ ہے جہاں اپنا اپنا کردار نبھا کر چلے جائیں گے ۔شاعر نے اسی ڈرامائی
انداز کو اپنے الفاظ میں ڈھال کر اپنے احساسات کا اظہار کیا ہے ۔ْ
اور ساتھ ہی شاعر اپنے اردگر کے ماحول سے بھی بیزار ہے یا شاعر کو سمجھنے
کیلئے اس کے دل میں جھانک کر نہیں دیکھا یا پھر شاعر لوگوں کے معیار پر
پورا اترتا دکھائی نہیں دیتا اور میعار شاعر جانتا ہے یا اس کا حلقہ مگر
شعر دلچسپ ہے اپنے اندر ایک کہانی رکھتا ہے ۔
کوئی کنواں کوئی دریا نہیں ملا مجھ کو
سو ایک عرصے سے مشکوں میں ریت بھر رہا ہوں
شاعر کی تلاش جاری ہے اس کی کوشش بے مثال ہے کہ جانتے ہوئے بھی ریت اور بھر
تا چلاجاتا ہے مگرایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ ریت کے بعد ہمیشہ پانی آجاتی ہے
۔ ریت کو بھرتے بھرتے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ نیچے سے پانی ابھر آتا ہے ۔
ایسا ہی ایک شعر اور ملاحظہ فرمائیں ہ
یہ جو کچھ لوگ گریبانِ ادب کھینچتے ہیں
جھوٹی شہرت کے لئے نام و نسب کھینچتے ہیں
اور کیا خوب غزل ہے کہ
سر شارِ عشق میں نہ طلب گارِ تخت ہے
دل اپنی مفلسی کی ہوائوں میں مست ہے
تن جھڑتا جا رہا ہے کسی دکھ سے اس طرح
جیسے ہوائے تند میں دکھا درخت ہے
ہر تان پر رگوں میں لہو رہو رہا ہے خشک
احساس کے نواح میں وہ سوزِ ہست ہے
آنکھیں بجھیں چراغ بجھے خواب بھی بجھے
ہے کوئی جو ہماری طرح تیرہ بخت ہے
ہوجائے مجھ سے کاش غزل یہ تمام شد
اک شعر ہی لکھا ہے کہ جگر لخت لخت ہے
اک شخص کی وفا میں جیے چار دن فقہیہ
ورنہ یہ زندگی کا سفر ایک جست ہے
انتہائی خوبصورت اسلوب نیا انداز اور بہترین خیالات آہنگ کا بے مثال شاہکار
عمدہ قافیے ۔
تو سمجھ جانا بچھڑنے کا سمے آ پہنچا
ہاتھ جب تیری کلائی پہ مرا ڈھیلا پڑے
پنجابی ایک محاورہ ہے کہ '' اسی جدی بانہ پھڑ لئی کدی چھڈی نئیں''
شاعر کے محبوب کو جان لینا چاہیے کہ حضرت نے آپ کی کلائی ڈھیلی نہیں پکڑی
اور پکڑ کبھی چھوٹنے والی نہیں
عشق آسان سفر ہے تو سفر کیا کرنا
دشت آئے مرے رستے میں کوئی ٹیلہ پڑے
اس کو پڑھتے ہوئے مجھے حضرت غالب کا ایک شعر یاد آگیا ہے کہ
ان آبلوں سے پائوں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر
کیا عمدہ شعر ہے
تیرگی میں روشنی کے استعارے بن گئے
اس نے گیلے بال جھاڑے تو ستارے بن گئے
اس شعر پر صرف اتنا کہوں گا کہ خوبصورت منظر نگاری
ایک اور خوبصورت شعر آپ کی بصارتوں کی نظر
یار لوگوں سے گلے کیسے ملوں
کوئی پتھر ہے کوئی تصویر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوا میں نوحہ کناں ہیں تھکے پروں کے ساتھ
پرندے جلتے شجر کا طواف کرتے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثواب سارے مرے لے گیا وہ شخص فقیہہ
کسی گناہ پہ مجھ کو معاف کرتے ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے والے نے لیا یوں آخری بوسہ مرا
پھول اب تک اک کھلا ہے میری پیشانی کے ساتھ
فقیہہ حیدر کی شاعری کا سرسری جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب کو کئی
بار پڑھا جا سکتا ہے اور بہترین شاعری بھی وہ ہوتی ہے جس کو بار بار پڑھا
جائے تو ایسا محسوس ہو کہ پہلی بار پڑھا جا رہا ہے ۔کئی غزلیں اور کئی
اشعار اچھوتے خیال اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس بات کو مان لیا جا ئے کہ
شاعر کا کلام حقیقت کے کافی قریب ہے ہر انسان کے جذبات اپنے ہوتے ہیں اور
جذبات رسمیات سے بالا ہوتے ہیں فقیہیہ حیدر نے اپنی تمام ناگواریوں کا
اظہار بہترین طریقے سے کیا ہے شعر شاعر کے دل پر ایک بوجھ ہوتے ہیں یہ بوجھ
کتاب میں اترجانے کے بعد شاعر کود بری الذمہ سمجھتے ہیں ۔مذکورہ شاعر بھی
اسی طرح اپنے رمانوی اور المیاتی شاعری کا اظہار کرکے اپنی ذات سے دوسری
ذات تک لانے کے سفر کو طے کر چکے ہیں ۔شاعر کی اپنی شاعر میں زمانے کی جابر
حقیقت سے پردہ چاک کرنے کی بہترین سعی کی ہے وہ کافی حد تک کامیاب بھی نظر
آتے ہیں میں نے سینکڑوں شاعر دیکھتے ہیں کہ اپنی کتاب کے بعد وہ مطمئن نظر
نہیں آئے مگر فقیہہ حیدر ان شاعر میں ایک شاعر نظر آئے تو اپنی کتاب کے بعد
انتہائی مطمئن نظر آئے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی شاعری وقت زیاں نہیں بلکہ
ایک ردِ عمل ہے جو ہر عمل کے بعد سرزد ہوتا ہے ۔
بہل رہے ہیں عجب غم لیے دماغ میں ہم
قیصدے لکھ رہے ہیں دشت کے بھی باغ میں ہم
کتنے سادہ مصرعے ہیں مجبوری حالات کی عکاسی اور اپنی بے بسی اور لاچارگی کا
اظہار سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ شاعر کی نظر اتنی پیچیدہ ہے کہ اس کے
تمام لوازمات کے ساتھ نفسیات پر حاوی چیزوں کو لاشعور پر شعور پر نقش کر
دیا ہے ۔روز انسانی عقل کے ساتھ ہونے حوادث کا خوبصورتی سے نقشہ کھینچا ہے
۔شاعر اسلوب تک آپہنچا ہے شاعری ان سے زیادہ دور نہیں رہی
ہمارے پاس محبت کا دوہرا دکھ ہے
کسی کے دل کسی کی آنکھ سے ہٹے ہوئے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپسی رواداری بھائی چارے اور امن کی لازوال مثال اور بہترین شعر کہ
درخت اور پرندے ہیں اس بنا پہ ولی
یہ مسلکوں نہ کسی ذات میں بٹے ہوئے ہیں
ایک سبق آموز شعر ہے انسان کو سوچنے پر مجبور کر دینے والا خیا ل ہے اگر
کوئی انسان ہو گا تو سوچے گا ضرور ورنہ جانور تو آپسی رواداری کا خیال
رکھتے ہی ہیں
مختصر ! فقیہیہ حیدر نے اپنے فن کا سفر کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں
روایت اور تہذیب کو ساتھ ساتھ لیکر چلتے رہنے کا ملکہ حاصل ہے اپنی ذات سے
گریزں نہیں ہوتے دکھائی دیتے اپنے رشتوں سے وابستہ ہیں اور اپنی انا پرستی
کے عروج پر ہیں جو ہر فنکار کا اثاثہ ہے |