یکم جون : والدین کا عالمی دِن !

یکم جون کو پوری دُنیا میں والدین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یوم والدین کا آغاز 1992ء سے ہوا تھاجب امریکی کانگریس نے ایک بل منظور کیا کہ ہمارے ہاں والدہ،والد کا دن تو دھوم دھام سے منایا جاتا ہے لیکن ان دونوں یعنی والدین کا عالمی دن ابھی اتنے اہتمام سے نہیں منایا جاتا۔افسوس کہ یہ دن سال میں ایک بار نہیں بلکہ 365دن منایا جانا چاہیے۔ہر دن والدین کا دن ہونا چاہیے۔ لیکن مغربی ممالک نے سال میں یکم جون کو منانے کا رواج دے کر اولاد پر عائد والدین کی ذمہ داریوں سے فرار کا آسان راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ بس سال میں ایک مخصوص دن اولڈ ہوم میں جمع کروائے گئے بوڑھے ماں باپ کو جا کر مل لیا جائے۔ ان کے لئے پھول، کیک، آئس کریم یا چند تحائف لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا جائے اور چند ساعتیں ان کے ہمراہ گزار کر پھر سال بھر کے لئے انہیں دارالامان یا اولڈ ہومز کے مہربان نا مہربان عملے کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اپنی دُنیا میں مست رہا جائے۔ یہ ہے والدین کا عالمی دن جس کا یورپی ممالک میں رواج ہے۔
مغرب کی دیکھا دیکھی مشرقی معاشرہ بھی عالمی دن منانا اعزاز سمجھتا ہیہم بھی اب مغرب کی نقالی کرتے ہوئے مدر ڈے، فادر ڈے، ویلنٹائن ڈے، وغیرہ دھوم دھام اور جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ والدین سے محبت کسی ایک دن کی محتاج نہیں۔ والدین سے محبت اور ان کا احترام تو اولاد کی رگ رگ میں رچا بسا ہونا چاہیے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے اور ان کی خوشیوں کا اہتمام کرنے کے لئے کسی ایک دن کی تخصیص کے کیا معنی ہیں۔مغرب میں تو مدرڈے، فادر ڈے یا والدین کا عالمی دن منانے کی وجوہات اس معاشرے کی بے حسی اور بے رحمی ہے کہ وہاں جوں ہی والدین بڑھاپے کی عمر کو پہنچتے ہیں اور کام کاج کے نہیں رہتے تو اولاد انہیں بوجھ سمجھنے لگتی ہے اور انہیں کسی اولڈ ہوم یا دارلامان میں داخل کروا آتی ہے۔ اور پھر سال کے بعد ایسے ہی کسی دن پر ایک دو گھنٹوں کے لئے اپنی مصروف زندگی سے وقت نکال کر انہیں مل لینے کو ہی کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔لیکن مسلمان معاشرے میں والدین کی خدمت اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی گناہ قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ ہمارا دین اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔

سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد ربانی ہے۔ ترجمہ:’’اس (رب) کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔اور اگر تمہارے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اف تک مت کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا اور ان کے لئے نرم دلی سے عاجزی کا بازو بچھا اور عرض کر اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم فرما، جیسا کہ ان دونوں نے مجھے پچپن میں پالا۔‘‘(آیت:۳۲-۴۲)

اسلام ہمہ گیر نظام زندگی کا نام ہے۔ والدین کے حقوق کے بارے میں اسلام نے ایک مکمل ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے اور اولاد کو بڑے واضع انداز میں تلقین کی ہے کہ وہ ماں باپ کی عزت و تکریم اور ادب و احترام کا پورا خیال رکھے ان کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں غافل نہ ہوں۔ ایک مسلمان کی زندگی میں اﷲ رب العزت اور اس کے پیارے حبیب حضرت محمد کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہستیاں اس کے ماں باپ (والدین)ہیں۔ ماں باپ کی رضا میں اﷲ اور اس کے رسول کی رضا ہے۔ اور ماں باپ کی ناراضی میں اﷲ رب العزت کی ناراضی ہے۔ والدین کی شفقت و رحمت اﷲ تعالیٰ کی شفقت و رحمت ہے۔ اور والدین کا قہر و غضب اﷲ تعالیٰ کا قہروغضب ہے۔

دور حاضر میں اولاد کو والدین سے بہت گلے شکوے ہیں۔ اگر ان کی کوئی خواہش یا ضرورت ماں باپ با امر مجبوری پوری نہ کر پائیں تو وہ فوراً نالاں ہو جاتی ہے۔ یہ جملہ تو اکثر نوجوان بڑے دھڑلے اور تیز لہجے میں ماں باپ سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ نے میرے لیے کیا ہی کیا ہے؟ھائے ھائے افسوس صد افسوس کہ جب ایک کڑیل جوان بیٹا باپ سے قد نکال لیتا ہے تو یکسر بھول جاتا ہے کہ وہ اسی باپ کی انگلی تھام کر چلنا سیکھا تھا۔

ان والدین کو جنہوں نے اپنے بچوں کی اچھی پرورش کی ہے اور ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا خیال رکھا ہے انہیں خراج تحسین پیش کیا جا سکے۔ اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ والدین کے احسانات اور مہربانیوں کا اعتراف اور ان کی خدمت و احترام سے ہی دنُیا و آخرت میں کامیابی و بھلائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن کیا اس کے لئے سال میں ایک دن منا لینا کافی ہے۔؟ اسلام میں والدین کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے۔بچوں کے لئے والدین کی حیثیت سائبان کی طرح ہوتی ہے۔ دین اسلام نے ہمیں بتایا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور اس جنت کا دروازہ تمہارا باپ ہے۔ ان رشتوں کی خوبصورتی یہ ہے کہ والدین اپنی انتھک محنت اور خلوص سے ہماری شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔ ماں نے جس رات بچے کو گیلے بستر سے اٹھا کر سوکھے بستر پر سلایا اور خود سردیوں کی راتوں میں گیلے بستر پر سوئی تھی اس ایک رات کا بدلہ اولاد ساری زندگی کی خدمت سے نہیں اتار سکتی۔ لہذا اس طرح سال میں کسی ایک دن کو والدین سے عقیدت و محبت اور ان کی خدمت کے لئے مخصوص کر دینے سے یہ احساس پروان چڑھے گا کہ یہ دن منا کر ہم نے ان کی خدمت کا حق ادا کر دیا ہے۔ لہذا سال کے باقی دن والدین سے صرفِ نظر کرنے کا جواز فراہم ہو جائے گا۔

بے شمار بوڑھے والدین در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں اور مغرب کی طرح اب پاکستان میں بھی اولڈ ہومز وغیرہ کا رواج ہو چلا ہے۔ جہاں اولاد کے ٹھکرائے ہوئے ماں باپ سال بھر ان کی راہ تکتے رہتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں ایسی تعلیم و تربیت کو عام کیا جائے کہ بڑھاپے میں والدین کو بے آسرا و بے سہارا نہ ہونا پڑے۔اور اولاد بہ خوشی اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔ اس دھرتی کی مٹی ابھی بالکل بنجر نہیں ہوئی۔ گزشتہ دنوں چند روز کے لئے عارضہ قلب کے ہسپتال میں داخل رہنے کا اتفاق ہوا۔وہاں یہ خوشگوار منظر دیکھنے کو ملا کہ آج بھی اولاد کے چہرے پر بیمار ماں باپ کے لئے تفکر اور پریشانی کے سائے منڈلاتے ہیں اور بوڑھے والدین کی خدمت کے لئے نوجوان لڑکے لڑکیاں رات رات بھر ان کے بستر کی پٹی سے لگے کھڑے ان کی صحت یابی کے لئے فکر مند و دعا گو ہیں۔

ہمیں اسلامی حیات /اصول اپنانے چائیے۔ لیکن محض مغرب کی نقالی کرتے ہوئے ہر چیز یا ہر تہوار نہیں منا نا چاہیے۔ والدین کی خدمت جز وقتی نہیں،دن رات ہر لمحہ ہر وقت ہونی چاہیے،ہر دن والدین کا دن ہونا چاہیے۔ اسی میں ایک مسلمان معاشرے میں دُنیا و آخرت کی بھلائی اور کامیابی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے۔

Abid Hashmi
About the Author: Abid Hashmi Read More Articles by Abid Hashmi: 192 Articles with 170394 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.