2018اس لحاظ سے میری زندگی کا خوشگوار ترین سال ہے کہ اس
سال مجھے اﷲ کے گھر اور اس کے محبوب ﷺجو وجہ وجود کائنات ہیں کے روضہ اقدس
پرحاضری کا شرف حاصل ہوا کئی بار خیال آیا کہ اس راہ میں پیش آنے والی
مشکلات اور منزل پر پہنچ کر حاصل ہونے والے کمالات و انوارات کو احاطہ
تحریر میں لایا جائے مگر پھر صورتحال تو کجا من کجا والی ہو جاتی ہے اور ہم
کتھے مہر علی کتھے تیری ثناء اور لفظوں اور ان کی ترتیب میں پڑ جاتے
ہیں،انشاء اﷲ ایک بار پھر جانے کا ارادہ اور اﷲ کی ذات سے قبولیت کی قوی
امید ہے جس کے بعد اس راہ کی تمام کارگزاری انہی صفحات پر قارئین کے سامنے
رکھنے کی جسارت کروں گا مگر یہ سب کچھ اﷲ کی طرف سے عطا کی گئی توفیق سے ہی
ممکن ہو گا اس کالم کو لکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کسی کے
اندر کا مسلمان انا کے خول کو توڑ دے اور اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ جنگ
بند کر دے ،محبوب خدا کو اذیت دینے والوں کا انجام نہ کل اچھا ہوا نہ آئندہ
اچھا ہو گا،چند دن قبل ہمارا ایک کنٹینر جو کراچی سے سامان لیکر اسلام آباد
جا رہا تھا تلہ گنگ اور دندہ شاہ بلاول کے درمیان بدھڑ ونہار کے مقام پر
کرنل سلطان سرخرو صاحب کی رہائش گاہ کے عین سامنے جو انتہائی خطرناک اور
تنگ موڑ ہے پر ڈرائیور سے آؤٹ آف کنٹرول ہوا اور سڑک کے کنارے الٹ گیا ،ہمیں
رات کو اطلاع ملی موقع پر پہنچے کرینز کی مدد سے ہٹانے کی کوشش کی مگر کرین
چھوٹی تھی جس پر فیصلہ ہوا کہ اگلے دن کوش کی جائے گی دوسرے دن پنڈی بڑی
کرین کے لیے کال کی گئی کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ مشین روانہ کر دی گئی ہے آپ
ادھر انتظار کریں،ہم وقت سے پہلے روانہ ہو گئے ،کرنل صاحب اسلام آباد تھے
لہٰذا ہم نے ان کے گھر سے تھوڑا پہلے ایک ہوٹل پر ڈیرہ جما لیا کیوں کہ بڑی
مشین کو پنڈی سے بدھڑ ونہا رتک پہنچنے کے لیے پانچ گھنٹے کا وقت درکار
تھا،ہم ہوٹل پر بیٹھے تو سامنے ایک بڑی خوبصورت مسجد پر نظر پڑی جو ہو بہو
چھوٹی فیصل مسجد کا ماڈل اور نمونہ تھی،سوچا ادھر چل کر عصر کی نماز ادا
کرتے ہیں اٹھ کر جب مسجد کے گیٹ پر پہنچے تو سامنے بڑا سا تالا لگا ہوا تھا
اندر ایک صاحب چارپائی پر گیٹ کے ساتھ ہی آرام فرما رہے تھے بڑی حیرانی
ہوئی کہ عصر کے وقت تو مسجد کبھی بند نہیں ہوتی،ان سے مسجد کو کھولنے کا
کہا تو جواب ملا جناب یہ نہیں کھل سکتی یہ سیل ہے مگر کوئی تفصیل حاصل نہ
ہو سکی کہ کیا وجہ ہے کیوں سیل ہے دو دن قبل سوشل میڈیا پر مختلف پوسٹ
دیکھیں تو ماتھا ٹھنکا اور ادھر ادھر سے معلومات لینا شروع کیں ، جو
تفصیلات سامنے آئیں ان کو سن کر لگ ہی نہیں رہا کہ ہم کسی مسلمان معاشرے
میں رہ رہے ہیں یا یہاں ایک اسلامی جمہوری حکومت ہے،محض چند ٹکو ں کی خاطر
ہم اس حد تک گر سکتے ہیں اندازہ بھی نہیں تھا مجھے آج سے بیس سال قبل
امریکن اٹارنی جنرل کا وہ بیان یا د آ رہا ہے کہ پاکستانی ڈالروں اور دولت
کے لیے اپنی ماں بیچ سکتے ہیں یقین کریں اس مسجد اور اس کی حالت کو دیکھ کر
لگ رہا ہے کہ اس کا بیان ایک سو ایک فیصد صحیح اور درست تھا کیوں کہ یہاں
ہم نے ڈالر وں نہیں بلکہ چند ہزار روپوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ کر اﷲ کے
گھر کو تالہ لگا دیا،میں نے شروع میں لکھا کہ مجھے گذشتہ سال عمرے کی سعادت
نصیب ہوئی بتانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ میں جب اﷲ کے گھر میں پہنچا تو
دیکھا کہ کعبہ کے عین وسط میں کوئی ہاتھ باندھ کر نماز ادا کر رہاے کوئی
کھول کر جماعت میں شریک ہے کسی نے ہاتھ اوپر باند ھ رکھے ہیں کسی نے نیچے
کسی نے ٹوپی پہن رکھی ہے تو کسی نے پگڑی باندھ رکھی ہے کسی نے سر کو ننگا
چھوڑ اہوا ہے ،مگر ایک بات وہاں نظر آ رہی تھی اور وہ یہ تھی کہ کسی کو کسی
سے کوئی غرض نہیں تھی نہ کوئی فتویٰ تھا نہ اعتراض ،ہر شخص اپنے انداز اور
طریقے کے مطابق اپنے ر ب کی عبادت میں مشغول تھا ،اسلام جہاں سے شروع ہو ا
جہاں سے شریعت کی ابتدا ہوئی وہاں پر اگر کوئی مسئلہ نہیں کسی کو یا کسی
دوسرے پر اعتراض نہیں تو یہاں کیا موت پڑ جاتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو
برداشت کرنے کو تیار نہیں،اس مسجد کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ ہے ،یہ
مسجد 2006میں تعمیر ہوئی مسجد کے لیے زمین دینے والے اور اس کی تعمیر کرنے
والے دونوں ایک ہی مسلک اور فقہ سے تعلق رکھتے تھے جن صاحب نے زمین دی ان
کا نام غالبا منصب خان تھا انہی کے نام پر اس مسجد کا نام بھی مسجد منصب
خان رکھا گیا وہ صاحب کچھ زیادہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے اس لیے انہوں
نے اپنے ایک قریبی شخص کو مسجد کی تعمیر کا کام سونپ دیا ،یہ صاحب زیادہ
سوجھ بوجھ رکھنے والے اور جہاندیدہ شخص تھے نے آہستہ آہستہ تمام معاملات
اپنے ہاتھ میں لے لیے منصب خان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ دار فانی سے
کوچ کر گئے ،مسجد تین سالوں میں مکمل ہو گئی جس کے بعد نظام انتہائی احسن
انداز میں چل رہا تھا کہ مسجد کے باہر لگا چندے کا بکس پیسوں سے بھرنے لگا
کیوں کہ ایک تو اﷲ کا گھر دوسرا سڑک خطرناک ہے اس وجہ سے اکثر ٹرک ڈرائیور
خیر خیریت سے گذرنے کیلئے اس صندوقچی یں پیسے ڈالنا شروع ہو گئے شروع شروع
میں تو کسی نے غور نہیں کیا مگر جوں جوں پیسے بڑھتے گئے شب بھر میں مسجد
بنانے والوں کے ایمان کی حرارات ٹھندی جبکہ حرص و ہوس بڑھنے لگی ،جب چندے
کے حساب کتاب کا معاملہ چلا تو بجائے معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے کے
دونوں فریق آمنے سامنے آگئے کمزور فریق نے ایک اور گروپ کی مدد حاصل کر کے
مسجد پر قبضہ کر لیا ،کچھ عرصہ پولیس مسجد میں بیٹھی رہی بعد ازاں منصب خان
کے اہل و عیال نے عدالت سے رجوع کر لیا،معاملہ عدالت میں چلا گیا اور یہاں
جیسا کہ رواج ہے کہ دادا کیس کرتا ہے اور پوتا بھگتتا ہے،اس کیس میں بھی
یہی کچھ ہوا عدالت نے بجائے فریقین کو فوری انصاف مہیا کرنے کے لگے ہاتھوں
مسجد کو سیل کرنے کا حکم جاری کر دیا، اب کیس عدالت میں ہے اور مسجد بند ہے
،دونوں فریقین اپنی اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں کوئی ایک بھی پیچھے ہٹنے کو
تیار نہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ عدالت مسجد کو سرکاری تحویل میں دینے کے
احکامات صادر کرتی اور اس کا سارا انتظام و انتصرام حکومت کے حوالے
ہوجاتا،مگر یہاں معاملہ الٹ ہے ،یہ مسجد گذشتہ کئی سالوں سے بند ہے دونوں
طرف کے فریقین اپنے آپ کو اعلیٰٰ ترین مسلمان بھی سمجھتے ہیں اﷲ اور اس کے
رسولﷺ سے چی محبت کے بھی دعویدار ہیں ،کئی ایک ان میں سے حج اور عمرے بھی
کر چکے ہوں گے زکواۃ اور نماز کے علاوہ روزے تو سب ہی رکھتے ہوں گے مگر کیا
یہ منافقت کی بدترین مثا ل نہیں کہ ایک طرف عشق رسولﷺ کے دعوے اور دوسری
طرف اﷲ کے گھر کی بندش، کیا ہی اچھا ہوتا کہ دونوں طرف کے بڑے خصوصاً علماء
حضرات مصلحت کی چادر اتار کر اس مسئلے کو دینی فیضہ سمجھ کر حل کروا دیتے
مگر جہاں انائیں طاقتور ہوں وہاں شریعت اور شرعی اصول ثانوی سطح پر چلے
جاتے ہیں، ریاست مدینہ کے دعویدار حکمرانوں سے گذارش ہے کہ اسی کیس سے
ابتدا کریں اور اسے ایک مثال بنا دیں اگر ریاست مدینہ بناے والے مصروف ہیں
توتحصیل کا اے سی اور ضلع کا ڈٰ پٹی کمشنربھی اس کو حل کر سکتے ہیں کیوں کہ
جہاں ایک طرف یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ فیثا غورث نہیں وہیں دوسری طرف مسلمان
ہونے کے ناطے ان افسران کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ایمانی غیرت کا ثبوت
دیتے ہوئے اس مسئلے کو سیریس لیں اور فی الفور مسجد کو مسلمانوں کی قید سے
آزاد کروائیں،مسجد اﷲ کا گھر ہے اور اس پر کسی بھی قسم کی قدغن یا بندش کا
اختیار بندوں کو نہ ہے نہ ہونا چاہیے،اگر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ﷺ میں
کسی کو اعتراض کی اجازت نہیں تو یہاں پر ایسا اعتراض کرنے والے کو اس کے
اعتراض سمیت دیوار پر مارنا چاہیے کیا ہی اچھا ہو کہ مسجد کو بند کرنے کی
بجائے ان تمام لوگوں کو بند کر دیا جائے جو اس خانہ خدا کی بندش کا سبب
ہیں،،،اﷲ ہم سب پر رحم کرے
|