ایک ایسا ناول جو آپ کو آپ کے بچپن کے دسمبر میں جانے پہ
مجبور کردے گا. بچپن کی شرارتوں، بھائی بہن کے جھگڑوں، باپ کی مار، ماں کا
بچانا، اسکول ومدرسہ میں پڑھنا، جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھنا، بچپن کی محبت
جب محبت کی م سے بھی واقفیت نہ ہو، جوانی میں اسی محبت کا پروان چڑھنا. آٹھ
سالہ بڑی محبوبہ سے عشق کی حسین اور الم ناک کہانی.
بچپن کے دوست بھی کتنے قیمتی ہوتے ہیں. پھر جن کو عباد کی طرح بے لوث اور
پرخلوص دوست مل جائے تو سبحان اللہ. بچپن، لڑھکپن اور جوانی کی حسین یادوں،
شرارتوں کے ساتھی، مشکلات میں ساتھ دینے والے دوست. پیار کرنے والا گھرانہ:
"مجھے کالونی میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ سارے پاگل ہی تو ہوگئے تھے. سب سے
پہلے بالے کی نظر مجھ پہ پڑی. وہ محلے کے نکڑ پہ کھڑا شکار پوری قلفی والے
کے ٹھیلے سے قلفیاں لے کر کھارہاتھا. اس کی عادت تھی وہ ہمیشہ جلدی جلدی
قلفیاں نگلتا رہتا اور ایک وقت آتاکہ قلفی والے کو یاد بھی نہیں رہتا تھا
کہ اس نے بارہ قلفیاں کھائی تھیں یا پندرہ؟ پھر ایک لمبی بحث ہوتی جس میں
آخرکار قلفی والے کو بالے کی تصدیق کردہ گنتی پر ہی اکتفا کرنا پڑتاتھا.
بالا پہلے بھاگ کر میری طرف آیا اور اس نے مجھے ٹٹول ٹٹول کر میرے ہونے کا
یقین کیا اور پھر بھاگ کر باقی سب کو بھی اطلاع کردی اور میرے گھر تک
پہنچنے سے پہلے ہی راجا، گڈو، ننھو، پپو اور مشی نے مجھے گھیرلیا. بڑی مشکل
سے میں نے ان سب کو یقین دلایاکہ امی اور باقی گھروالوں سے مل کر میں خود
ہی برگد کے پیڑ کے نیچے پہنچ جاؤں گا".
"میں نے دھیرے سے دروازہ کھولا تو نظر صحن میں بیٹھی امی اور عمارہ پر پڑی
جو بڑی سی تنکوں والی پرات میں رکھے چاول صاف کر رہی تھیں. پاس ہی بہت سا
گڑھ بھی پڑاہوا تھا. یعنی گڑھ والے چاول پکانے کی تیاری تھی لیکن امی کو
کیسے پتا چلاکہ میں آرہاہوں. گڑھ والے چاول تو ہمیشہ امی میری فرمائش پر
پکاتی تھیں اور میرے آنے کی تو یہاں کسی کو خبر ہی نہیں تھی. میں نے دھیرے
سے اپنا بیگ دروازے پر چھوڑا اور بھاگ کر ویسے ہی امی سے ان کی بے خبری میں
لپٹ گیا جیسے میں پہلے اپنے اسکول سے آکر اور اپنا بستہ دروازے پرہی پھینک
کر ان سے چمٹ جاتاتھا. ان کے منہ سے بھی اتفاقاً وہی جملہ نکلا جو وہ ایسے
موقعوں پر مجھے ڈانٹنے کے لیے کہتی تھیں: "آدی اب ہٹ بھی جا......ماں کی
ہڈیاں توڑے گاکیا......؟ پورا گدھا ہوگیا ہے تو بھی....." پھر وہ اچانک
چونکیں کیوں کہ انہوں نے میری گرفت کو محسوس کرلیا تھا. عمارہ بھی بھاگ کر
مجھ سے لپٹ گئی. امی کو پہلے تو یقین ہی نہیں آیاکہ وہ میں ہی ہوں. وہ میرے
چہرے اور باقی جسم کو چھوکر اپنا شک دور کرتی رہیں اور ان کی آنکھیں نم
ہوگئیں. یہ مائیں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں. پہلے خود ہی اپنے آپ سے دور جانے
کا کہتی ہیں اور پھر خود ہی چھپ چھپ کر روتی رہتی ہیں. کچھ ہی دیر میں ابا
اور بڑے بھیا بھی آگئے اور سبھی مجھے گھر میں یوں اچانک پاکر بے حد خوش
ہوئے.........باہر میرے دوستوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا. گلی سے ان کی
سیٹیوں کی آواز چھوٹے چھوٹے وقفوں سے مستقل سنائی دینے لگی. اس دن مجھے
پہلی مرتبہ پتا چلاکہ امی کو بھی ان سیٹیوں کی حقیقت معلوم ہے کیوں کہ کچھ
دیر تک وہ میری بے چینی کو نوٹ کرتی رہیں پھر دھیرے سے مسکرا کہ بولیں: "آدی.....جا.....جاکر
مل آ ان لفنگوں سے......ورنہ یوں ہی سر کھاتے رہیں گے گلی میں کھڑے کھڑے......پر
جلدی آجانا......میں تیرے لیے گڑھ والے چاول بنارہی ہوں......" جانے ان
ماؤں کو ہم بچوں کی ہربات، ہر راز کا بن بولے ہی کیسے پتا چل جاتا ہے؟"
جی ہاں! بچپن کا دسمبر ایک ایسی کتاب جو آپ کو آپ کے بچپن سے ملاقات کروائے
گی. معصوم شراتوں، ننھی منی منصوبہ بندیوں سے لے کر جوانی کے پختہ ارادوں
تک کبھی آپ کو ھنسائے گی تو کبھی رلائے گی. |