روشنی کی کہانی

پاکستان کے اندھے سسٹم کی کہانی جو پاکستان کے غریب بچوں کے خوابوں کو نگل رہا ہے

ایسے دستور کو صبح بےنور کو ہم نہیں مانتے

گھر کے کام سمیٹ کر ٹیپو کو نانی کے گھر چھوڑا اور باپ سے نظر بچا کر سکول کو بھاگ گٸ ۔۔اس کی ماں اس کے اس شوق کے بارے جانتی تھی، اور یہ بھی جانتی تھی کہ نشاٸ شوہر اور اوپر تلے بچوں کی فوج وہ اکیلے نہیں سنبھال سکتی تھی اسے نکھٹو شوہر کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی پالنا ہے۔۔۔لیکن زیبن کبھی بھی روشنی کو سکول جانے سے منع نہ کر سکی۔۔۔

روشنی بھاگ کے آ دیکھ تو سکول میں نوی(نٸ ) استانی آٸ ہے۔۔قسمے وڈی سوہنی ہے۔۔زری نے سکول داخل ہوتے ہی اپنے کھچڑی بالوں کو کھجاتے ہوۓ روشنی کو نٸ استانی کے بارے بتایا۔۔روشنی گاٶں کے واحد سرکاری سکول میں تیسری جماعت کی طالبہ تھی۔۔ماں کا ہاتھ بٹا کے بالوں کی دو پونیاں بنا کے جب وہ اجلا یونیفارم پہن کے سکول جاتی تھی تو زیبن دل ہی دل میں اس کی نظر اتارتی تھی۔۔

خوش قسمتی سے پہلا پیریڈ مس ماہ نور کا ہی تھا ۔۔۔بچے خوشی اور اشتیاق سے مس ماہ نور کی بات سن رہے تھے ۔ایک روشنی ہی تھی جسے کسی سے کوٸ مطلب نہیں تھا وہ اپنی الگ ہی دنیا میں مگن رہتی تھی ۔۔ہیلو بیٹا کہاں گم ہیں ۔۔۔ماہ نور نے روشنی کی آنکھوں کے آگے ہاتھ ہلا کے اسے خوابوں کی دنیا سے باہر نکالا ماہ نور روشنی کا باقی بچوں سے الگ انداز پہلے ہی محسوس کر چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک ماہ بعد ماہ نور پرنسپل آفس میں داخل ہوٸ ۔۔۔میڈم تیسری کلاس کی ماہ نور ایک ہفتہ سے سکول سے غیر حاضر ہے۔۔۔آپ براۓ مہربانی پتہ کروا کے بتاٸیں بچی پڑھنے والی ہے ۔۔یہی روٹین رہی تو اس کا مستقبل خراب ہو گا۔۔۔میڈم نے خاموش نظروں سے ماہ نور کو دیکھا اور روزنامچہ ان کے سامنے رکھ دیا۔۔۔سکول کے بچوں کی کل تعداد ٢٥٠ کے قریب تھی ۔۔میڈم نے بتایا کے روزانہ صرف ١٢٠ سے ١٣٠ بچہ سکول آتا ہے۔۔۔باقی غربت اور بےروزگاری کی وجہ سے والدین کے ساتھ کمانے جاتے ہیں ۔۔۔گورنمنٹ کے سخت اصولوں کی وجہ سے ہم کچھ نہیں کر سکتے اور بچوں کو سکول سے نکال بھی نہیں سکتے۔۔۔لہٰذا آپ جو روٹین چل رہی ہے چلنے دیں ۔۔۔لیکن میڈم۔۔۔۔۔۔۔؟امید ہے آپ سمجھ گٸ ہوں گی ہاتھ کے اشارے سے میڈم نے ماہ نور کو مزید کچھ کہنے روکا ۔۔اور موباٸل کی طرف متوّجہ ہو گٸ۔۔۔۔

ماہ نور شکستہ قدموں سے چلتی ہوٸ کمرہ جماعت کی طرف بڑھ گٸ۔۔۔

وہ سوچ رہی تھی کہ ہم اپنے سسٹم کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے ۔۔۔۔جب قوم کے معمار ہی قوم کو سدھارنے کی کوشش نہیں کریں گے ۔۔۔سستی اور کاہلی نہیں چھوڑیں گے ۔۔۔تو میرا پاکستان اور پاکستان کے غریب بچے ہمیشہ غریب رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ انہیں سنوارنے اور حسین مستقبل کے خواب کوٸ دکھانےنہیں آۓ گا۔۔۔امیر کا بچہ ڈاکٹر بھی بنے گا پاٸیلٹ بھی بیوروکریٹ بھی بنے گا سیاستدان بھی آرمی چیف بھی بنے گا پاکستان کا رکھوالا بھی۔۔قسمت نہیں بدلے گی تو صرف پاکستان کے غریب بچے کی۔۔۔۔وہ غریب بھی رہے گا اور مزدور بھی رہے گا۔۔۔۔ایک آنسو ماہ نور کی آنکھ سے ٹپکا اورر مٹی میں جذب ہو گیا۔۔۔۔۔

یہ دکھ کی کہانی ہے ایک روشنی کی کہانی ہے۔۔۔جس کے مقدر میں اس کی ماں جیسے اندھیرے لکھے تھے۔۔۔۔کیونکہ اس روشن آنکھوں والی روشنی کو اس کے باپ نے قرض کے بدلے بیچ ڈالا تھا۔۔۔۔۔ایک اور پاکستان کی بیٹی اندھے سسٹم کی نظر ہو گٸ تھی۔۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
ساری دنیا کی خوشیوں کو لے کر چلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو ہم نہیں جانتے ہم نہیں مانتے۔۔
 

Sara Rahman
About the Author: Sara Rahman Read More Articles by Sara Rahman: 19 Articles with 25493 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.