ماں تجھے سلام

ماں کا ہم پلہ دنیا میں کوئی رشتہ نہیں جس نے خود کو تکلیف میں رکھ کر راحت پہنچانا سیکھا۔

ماں تجھے سلام

حقیقت تو یہ ہے کہ خالق کائنات نے اپنے بندوں سے محبت کا ذکر کرنا چاہا تو فرما دیا
۔“ماں سے ستر گنا زیادہ پیار کرتا ہوں”
اللہ اس کائنات میں رشتے تو بہت ہیں دادا ہے، دادی ہے، نانا ہے، نانی ہے، تایا ہے، تائی ہے، چچا ہے، چچی ہے، ماموں ہے، ممانی ہے، بہن ہے، بھائی ہے گویا کہ ایک لمبی لسٹ
مگر اولاد سے شفقت اور رحمدلی کی بات آئے تو چنائو ماں کا؟
کہیں بھول نہ جائو ایک انتہائی قریب کا رشتہ ہر دکھ درد میں زخموں سے چور ،آہ و بکا اور سسکیاں بھرتا، اولاد کے لیے دن رات محنت مزدوری کرتا، اولاد کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا یہ باپ ہی تو ہے.
پس ارشاد ہوا
“باپ جنت کا دروازہ ہے”
ڈر ہے کہ بات طول کا شکار نہ ہوجائے، اپنے عنوان پر رہ کر بات کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا.

لوگو!
حدیث میں آیاہے
ایک آدمی رسول خدا کےپاس آیا اور عرض کیا کہ کون زیادہ حقدار ہے جس کے ساتھ میں نیک سلوک کروں؟ تو آپ نے فرمایا : تیری ماں۔ اس نے دوبارہ پوچھا کہ ماں کے بعد؟ تو آپ ص نے جواب دیا تیری ماں۔ اس نے پھر پوچھا اس کےبعد؟ پھر بھی آپ ص نے جواب دیا کہ تیری ماں۔ اس نے وہی سوال پھر تکرار کیا تو آپ ص نے فرمایا تیرا والد۔
ماں کے مقام کو کون پہنچے جس کی عزت وتکریم اور حقوق آمنہ کا لال خود بیان کرے۔
سبب کیاہے؟
تابش کے الفاظ میں
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
ہائے
اماں ھاجرہ آپ یاد کس وقت آئی
اک ماں تھی جنگل بیابان میں، بچے کو گود میں لیے ، ہر طرف پہاڑ ہی پہاڑ، خشکی ہی خشکی ،پانی کے کہیں بھی آثار نہ تھے، بچے کو پیاس لگنے لگی، ہونٹ خشک ہونے لگے۔
میں کہتا ہوں کہ
چشم فلک نے دیکھا
جس جگہ ماں بیٹا تشریف فرما تھے اس زرے زرے نے دیکھا۔
کہ
ماں کی محبت جوش میں آئی، بچے کی اس حالت کو دیکھ کرپھر چین سے نہ بیٹھی، سکھ کا سانس نہ لیا، گردونواح میں نظر دوڑائی ،میخ نما پہاڑوں پر دوڑنا شروع کردیا، کہیں پانی کی ایک بوند مل جائے، میرے بیٹے کی پیاس بجھ جائے۔

شاعر کے الفاظ میں
ماں ، خلوص و مہر کا پیکر ، محبت کا ضمیر
ماں خُدا کارحم ، وہ دُنیا میں جنت کی سفیر

پروردگار کوماں کی یہ ادا اتنی پسند آئی.
پس فرما دیا
اس بندے کا حج و عمرہ ہی نہیں جو اس ماں کی طرح پہاڑوں پر سات چکر نہ لگائے۔
یہ تو نبی کی ماں تھی۔ مقام بھی اعلٰی ، شان بھی اعلٰی
مگر عرش والے نے ماں کے مقام کو بلند رکھا نبی کی ہو یا کسی عام بندے کی۔
دوستو!
یوں ہی اک ماں سے ملاقات کا موقعہ ملا جو مکان سے ملحقہ ایک دوکان پر دوکاندار کے فرائض سر انجام دے رہی تھی۔ بظاہر تو دوکان نہ لگتی تھی کیونکہ چھوٹے سے کمرے کو دوکان میں بدلا گیا تھا۔
چھوٹے چھوٹے بچے خرید میں مصروف تھے چند لمحات کے لیے ایک سائیڈ پر کھڑے انتظار کرنے لگے اس سوچ کے ساتھ اللہ کیا ماجرہ ہے؟۔
جیسے ہی ملاقات کے لیے بلایا گیا۔
حال دریافت کیا۔۔۔۔۔۔
دوکاندار ماں دھیمہ لہجے میں مخاطب ہوئی خاوند فوت ہو گیا، بیوہ ہوں، اولاد والی ہوں، دوکان چلاتی ہوں۔
سبب کیاہے؟
ظاہر ہے
کہیں بچے بھوک اور پیاس سے ترستے ہوئے نہ سو جائے، ہمسایوں کے بچوں کو ہر طرح کی سہولیات سے استفادہ دیکھ کر دل نہ للچانے لگے، کہیں بچوں کی زبان پر یہ الفاظ نہ آجائے ماں کاش آج ہمارا باپ ہوتا، اس کا کاروبارہوتا اور ہم بھی ہر طرح کی سہولیات سے مستفید ہوتے۔
مشکل کی اس گھڑی میں یہ وہ ماں تھی جو گھریلو معاملات کے ساتھ ساتھ کاروباری معاملات میں مصروف عمل نظر آتی ہے۔
لوگوں کے آگے ہاتھ تو نہ پھیلایا، بھیک کے لیے سڑکوں کی راہ تو نہ لی، لوگوں کے طعن تو نہ سنے۔
محنت کو بہتر جانا، نا ممکن کوممکنات میں بدلنے کے لیے ہمہ وقت مصروف ۔
ہائے
یقین جانئیے
تھکن تو ہوتی ہوگی مگر اولاد کی محبت زخموں پر مرہم کا کام کرتی.

شاعر کے الفاظ میں
دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن
ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے
ماں کہ اس حسن سلوک سے کون متاثر نہ ہوتاہوگا؟
کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔
مسلمان بھی ہوتے ہیں، عیسائی بھی ہوتے ہیں، یہودی بھی ہوتے ہیں، ہندومت بھی ہوتے ہیں، جین مت بھی ہوتے ہیں، سکھ مت بھی ہوتے ہیں گویا کہ ایک لمبی لسٹ۔
لوگو !
کیوں نہ متاثر ہوں ماں نے منوایا تو
خلوص منوایا، کردار منوایا، حسن سلوک منوایا، پیار منوایا۔
خیر باد کہاتو
نفرت کو کہا،انتقام کو کہا،بغض کو کہا۔
الطاف حسین حالی رح نے سچ کہا تھا
“ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے ”
امریکی خاتون اینا ہاروس متاثر ہوئی تو میدان میں آئی، ماں کے مقام ومرتبت کو منوانے کےلیے کوششوں میں لگ گئی ، بھرپور تک ودو کے بعد امریکہ کے صدر ووڈرو ولسن سے مئی کے ہر دوسرے ہفتے میں ماں کا عالمی دن منوانے میں کامیاب ہوئی جو مدر ڈے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
لوگو!
کچھ کہنا چاہتاہوں ، حقائق سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں مگر افسوس سے، یہ دن تو مغرب کا تھا۔جتنا انھوں نے ماں کو جانا اتنی ہی کوشش کر لی۔
متعین کیاتو سال بھر کا صرف ایک دن ، ورنہ اولڈ ہومز بنا ڈالے ۔
کہے دیتا ہوں ہم تو اسلام کے پیروکار ہیں، احسان فراموش تو نہیں مگر احسان جتلاتے بھی نہیں، بس خدمت پر یقین رکھتے۔
دوستو!
بد قسمتی کا عالم یہ ہے کہ آج ہم بھی اس مغربی تہوار کو اپنانے میں کسی سے پیچھے نہیں، اولڈ ہومز بنا ڈالے ،نفرتوں کے جال بچھا دیے، بوڑھی ماں کو طعن دینے سے باز نہ رہے۔
مائیں قتل ہوتی رہیں اخباروں کی سرخیاں بنتی رہیں۔
ہائے
ماں نے تو ہر دن،ہر گھنٹہ ، ہر منٹ ، ہر سکینڈ بلکہ ہرلمحہ اولاد کےلیے وقف کیا۔
دعا کرتی “اللہ میری عمر بھی میری اولاد کو لگ جائے”
مگر ہم نے کچھ نہ سوچا بس اندھا دھند مقلد ہوئے تو مغربی تہذیب کے۔اولڈ ہومز میں بوڑھی ماں سناتی رہی تو
دکھ دردسناتی رہی،
سناتی رہی تو
اپنی داستان حیات سناتی رہی،
مگر ہم ٹس سے مس نہ ہوئے۔
سبب کیا ہے؟
ہمارے دل خوف الٰہی سے خالی اور ایما نی حرارت سے محروم ہوگئے.
اقبال نے اسی لیے کہا تھا
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
دکھی دل سے کہے دیتا ہوں کہ
ہم اپنے کردار کو دیکھیں یا ماں کے حسن سلوک کو؟
ماں کو ہم نے چھوڑا ماں نے نہیں،
درد ہم نے دیا ماں نے نہیں.
تو میں کیوں نہ کہوں
ماں تجھے سلام

Irfan Qayyum
About the Author: Irfan Qayyum Read More Articles by Irfan Qayyum: 12 Articles with 14669 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.