آسماں ہو گا سحر کے نور سے آٸینہ پوش - قسط 2

کشمیر کی بیٹی کی داستان جو اپنے لہو کی قربانی دے کر امر ہوگٸ تھی۔۔۔

کشمیر ہماری شہہ رگ ہے ۔۔ہم بن شہہ رگ کے زندہ ہیں۔۔

آج تمہارے بابا کے ساتھ کچھ مہمان آرہے ہیں تم ڈراٸنگ روم سیٹ کر دینا زینی۔۔فضیلہ نے زینی سے کہا۔
زینی ماں پھر کافروں کی دعوت ہو گی گھر خوب گلچھڑے اڑیں گے ۔۔۔بابا کو جلتا ہوا کشمیر کیوں نظر نہیں آتا ماں ۔۔۔؟ جو انڈین آرمی کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔۔۔آج زینی پھٹ ہی تو پڑی تھی ۔ زینی کی بات سن کے فضیلہ کی آنکھوں میں آنسو آگۓ تھے ۔۔اور وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گٸیں۔۔۔آگ اور خون کےاس کھیل میں کون غدار ہے اور کون اپنا ۔۔۔اس بات کا فیصلہ کرنے کا وقت نہیں آیا تھا۔۔۔پرویز جو زینی کا پاسپورٹ اور ضروری چیزیں دینے آۓ تھےبیٹی کی بات سن کر الٹے قدموں واپس لوٹ گۓ۔
ہاں لوٹتے وقت اس کی آنکھوں میں اترے خون کی سرخی کوٸ نہ دیکھ سکا تھا۔۔۔
کہیں دور اب بھی آزادی کا نغمہ گونج رہا تھا درد بھری آواز میں گانے والے اس شخص کو آج تک کوٸ نہ جان سکا تھا ہاں اس کی آواز سے کشمیر کا بچہ بچہ واقف تھا۔۔
اے کشمیر تیری خاطر میں جاں لٹا کے آیا ہو
تیری قسمت میں لکھے سب اندھیرے مٹا کے آیا ہو۔
اے کشمیر تیری خاطر اے کشمیر تیری خاطر

آگ اور خون کی یہ ہولی میں اپنے جسم پہ کھیل آیا ۔۔
دشمن کا اک اک وار میں اپنے دل پہ سہہ آیا۔۔

زینی جب بھی یہ الفاظ سنتی تھی ۔۔۔اس کے دل کی ہر دھڑکن اس عہد پہ لبیک کہتی تھی۔۔نغمہ تو کب کا ختم ہو گیا تھا لیکن ان الفاظ کی گہراٸ اسے کسی اور دنیا میں لے گٸ تھی ۔۔۔فضیلہ کی آواز اسے سوچوں کی دنیا سے باہر لے آٸ تھی۔۔۔بیٹا زینی ناٸلہ آنٹی کا بیٹا آیا ہے تمہارے بابا کے ساتھ ان کی لاٸبریری میں ہے۔۔۔چاۓ تیار کر کے لو ساتھ میں شامی تل لو اوربسکٹ نمکو بھی رکھ لینا۔۔۔
ناٸلہ آنی کا بیٹا ماں۔۔۔؟ زینی نے حیرت سے پوچھا ۔۔ہاں وہی اب جلدی کرو ۔۔۔مجھے باقی کام دیکھنے ہیں۔۔فضیلہ شاٸد جلدی میں تھی بیٹی کے چہرے پہ پھیلنے والی حیرت نہ دیکھ پاٸیں۔۔۔
معاذ اور پرویز باتیں کر رہے تھے جب زینی چاۓ کی ٹرالی دھکیلتے ہوۓ اندر داخل ہوٸ اور وہ دونوں خاموش ہوگۓ۔۔۔۔زینی نے سلام کیا اور خاموشی سے چاۓ سرو کرنے لگی ۔۔۔کمرے میں چھاٸ خاموشی کو پرویز نے توڑا ۔۔۔
اور معاذ کو بتایا کہ یہ زینیہ ہے ۔۔۔حال ہی میں ماسٹرز کمپلیٹ کر کے آٸ ہے ممبٸ سے۔۔۔اب مزید تعلیم حاصل کرنے باہر جا رہی ہے۔۔۔
معاذ نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوۓ کہا۔۔یہ تو اچھی بات ہے انکل اور آج کے دور ک تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہماری قوم اعلی تعلیم حاصل کرے ۔۔۔زینی انہیں چاۓ دے کر باہر نکل گٸ۔۔۔
زینی دھڑام سے بستر پر گری ۔۔یہ یہاں بابا کے ساتھ ۔۔۔۔ کیا یہ بابا کو کوٸ نقصان تو نہیں پہنچانا چاہتا ۔۔۔؟اللہ نہ کرے ۔۔۔لیکن معاذ کو توہماری فیملی سے نفرت تھی۔۔۔کٸ سوال زینی کے دماغ میں سر اٹھارہے تھے ۔لیکن کوٸ سرا ہاتھ نہ آیا۔۔۔۔۔زینی بد دل ہو کر ماں کے ساتھ کچن میں کام کرانے لگی۔۔
ماں یہ انیلا خالہ کا بیٹا کیوں آیا تھا ۔؟ کیا اسے کوٸ کام تھا بابا سے زینی نے ماں سے پوچھا۔۔
ہاں بیٹا معاذ برطانیہ سے اسپیشلا ٸزیشن کر کے آچکا ہے وہ ایک کامیاب ڈاکٹر ہے۔۔۔وہ چاہتا ہے تمہارے بابا اسےانڈین آرمی میں کمیشن دلوا
دیں ۔۔اگر یہ نہ ہوا تو ممبٸ میں ہی کسی بڑے ہاسپٹل میں لگوا دیں ۔۔وہ یہاں سے اپنی ماں کو بھی لے جانا چاہتا ہے۔۔۔فضیلہ بیگم پھرتی س کام نمٹا نے کے ساتھ ساتھ زینی کو معاذ کے آنے کا سبب بتانے لگیں ۔۔۔یہ بات سنتے ہی زینی کو زوردار چکر آیا اس نے پاس کھڑی ماں کو تھاما اور اپنے آپ کو گرنے سے بچایا ۔۔۔فضیلہ زینی کی اچانک طبیعت خراب ہونے پر گھبرا گٸیں ۔۔کیا ہوا زینی تم ٹھیک تو ہو نا؟ فضیلہ زینی کو جلدی سے روم میں لے گٸیں اور پرویز کو فون کرنے لگیں۔۔۔۔
جلدی آٸیں پرویز وہ ززززینی ۔۔۔۔۔زینی کو چکر آیا اور وہ گرتے گرتے بچی ہے ۔۔۔اس کا رنگ ہلدی کی طرح پیلا ہورہا ہے ۔۔آپ جلدی سے گھر آجاٸیں۔۔

زینی کا بلڈپریشر لو ہوا ہے ۔۔۔۔کھانے پینے کا خیال نہیں رکھتی کمزوری بھی ہے ۔۔۔دوا دی ہے ۔۔۔ٹھیک ہو جاۓ گی۔۔۔ڈاکٹر پرویز نے فضیلہ کو تسلی دی۔

کیا دنیا کی محبت اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ آپ اپنے آپ کو اپنے خدا کو بھول جاٶ۔۔۔طلبِ دنیا ضمیر کو مار دیتی ہے۔۔۔معاذ بھی غداروں میں سے ہو گیا۔۔اپنے بابا کی جلی لاش بھول گیا ۔۔کشمیر میں بہتا لہو بھول گیا۔۔۔۔۔اپنا فرض بھول گیا۔۔۔۔معاذ تمہیں تو غدار کی بیٹی سے بھی نفرت تھی ۔۔۔اور اب تم خود ایک۔۔۔۔۔۔اس سے آگے زینی نہ سوچ سکی اور سن ہوتے دماغ کے ساتھ نیند کی گہری وادی میں کھو گٸ۔۔۔۔
اب کیسی طبیعت ہے زینی بیٹا ۔۔۔ڈاکٹر پرویز نے زینی کے سر پہ ہاتھ رکھا اورپوچھا۔۔۔بیٹا آکسفورڈ یونورسٹی میں ایڈمشن ہو چکا ہے پاسپورٹ بھی آگیا ہے ۔۔۔دو دن بعد کی ٹکٹ بھی کنفرم ہے۔۔۔باقی سب انتظامات بھی ہو چکے ہیں ۔۔۔۔اب جلدی سے ٹھیک ہو جاٶ میرا بیٹا۔۔۔بابا کی ان محبتوں پہ وہ ہمیشہ موم ہو جاتی تھی جو بھی تھے جیسے بھی تھے وہ اس کے بابا تھے ۔۔اس کے لیۓ تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھایا تھے۔۔زینی اپنے بابا کے گلےلگ گٸ اور اور مسکراے ہوۓ ان کا شکریہ ادا کرنے لگی۔۔
 

Sara Rahman
About the Author: Sara Rahman Read More Articles by Sara Rahman: 19 Articles with 27815 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.