شاہ رخ خان جیسا

روشن صدیقی چوبیس پچیس سال کا ایک خوش رو نوجوان تھا- اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا- اس کے باپ کی اندرون ملک جانے والی بسوں کے اڈے پر اخبارات اور رسالوں کی چھوٹی سی دکان تھی – پڑھنے لکھنے کا شوق تو تقریباً ختم ہی ہوگیا ہے، مقامی لوگ تو کم کم ہی اس کی دکان پر آتے تھے مگر بسوں میں دور دراز کا سفر کرنے والے وقت گزاری کے لیے اس کی دکان سے اخبار یا رسالے خرید لیا کرتے تھے- اس کام میں پہلے جیسی آمدنی نہیں تھی- ان کے گھر کا بس جیسے تیسے گزارہ چل ہی رہا تھا-

اچھی بات یہ تھی کہ اس کسمپرسی کی حالت میں بھی اس کی ماں نے پیچھے لگ لگ کر اسے تعلیم دلوا دی تھی، کیونکہ وہ ان کی اکلوتی اولاد تھا، اور ماں چاہتی تھی کہ پڑھ لکھ کر وہ ایک کامیاب انسان بن جائے، مگر تعلیم کے ساتھ کوئی ہنر نہ سیکھنے کی وجہ سے ابھی تک اسے نوکری نہیں ملی تھی-
جب اس نے انٹر کیا تھا تو اپنے بحرین والے چچا کے کہنے پر ڈرائیونگ سیکھ لی تھی، کیوں کہ چچا نے کہا تھا کہ وہ اس کو بحرین بلوا کر کسی کمپنی میں بطور ڈرائیور بھرتی کروا دے گا- اس نے ڈرائیونگ بہت شوق سے سیکھی تھی اور مہارت حاصل کرنے کے لیے کافی عرصہ کرائے کی ٹیکسی بھی چلائی- کچھ وجوہات کی بنا پر اس کا چچا اسے بحرین نہ بلا سکا-

اسی دوران اس نے بی اے کر لیا تھا اور نوکری کی تلاش میں تھا- اس کے باپ نے اس سے بہت کہا کہ وہ بھی اخبار اور رسالوں کے کام میں اس کا ہاتھ بٹایا کرے، کیونکہ نوکری تو کہیں لگ نہیں رہی، اس لیے گھر میں خالی بیٹھنے سے دکان میں بیٹھنا بہترہوگا، مگر وہ بی اے پاس تھا، ایک چھوٹی سی دکان پر بیٹھنا اسے بالکل بھی پسند نہیں تھا- اس کی قناعت پسندی ختم ہوگئی تھی، وہ تو یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح اس کے پاس کہیں سے پیسہ آجائے اور وہ بھی ایک عیش کی زندگی گزارے- جب کئی دفعہ کہنے کے بعد بھی اس نے باپ کی بات پر کان نہ دھرے تو باپ نے کہنا ہی چھوڑ دیا، اور اظہار ناراضگی کے طور پر اس سے بات چیت بھی بند کردی-

باپ کی ناراضگی کی روشن صدیقی کو کوئی پرواہ بھی نہ تھی- اس کی اپنی مصروفیات ہی اتنی تھیں کہ اس کے پاس باپ کی ناراضگی پر دھیان دینے کا وقت ہی نہ تھا- وہ رات گئے تک دوستوں کے ساتھ رہتا اور دن چڑھے تک سوتا تھا-

اسے دوستوں کے توسط سے کچھ مختلف فیکٹریوں میں نوکریاں مل بھی سکتی تھیں مگر اٹھارہ بیس ہزار کو وہ خاطر میں ہی نہیں لاتا تھا- وہ چاہتا تھا کہ اس کی شکل و صورت اور تعلیم کی مناسبت سے اسے چالیس پینتالیس ہزار روپوں کی کسی صاف ستھرے آفس میں کام ملے مگر کامیابی کا دور دور تک پتہ نہیں تھا، وہ بے دلی سے اپنی کوشش کو جاری رکھے ہوۓ تھا- یہ اس کی بے وقوفی ہی تھی کہ وہ کم پیسوں کی نوکری کو خاطر میں نہیں لا رہا تھا- اگر بیوقوفی نہ ہوتی تو وہ اٹھارہ بیس ہزار کی نوکری کر کے چالیس پینتالیس ہزار کی نوکری کی تلاش جاری رکھ سکتا تھا-

وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ایک پسماندہ علاقے میں رہتا تھا- وہاں کے لوگوں میں ابھی وہ شعور نہیں آیا تھا جو ہر اچھے معاشرے کی ضرورت ہوتا ہے- چودہ جماعت تک تعلیم حاصل کر کے وہ سمجھ رہا تھا کہ ایک بہترین نوکری خود چل کر اس کے پاس آجائے گی، جب اس کی یہ امید پوری نہ ہوئی تو دوسرے کم ہمت انسانوں کی طرح اسے بھی اپنے ملک اور لوگوں سے شکوے شکایتیں پیدا ہوگئیں جنہوں نے اس کے دل و دماغ میں نفرت کے بیج بونا شروع کردئیے- اسے اپنا باپ بھی اچھا نہیں لگتا تھا، وہ سوچتا تھا کا اگر وہ اخبار رسالے بیچنے کے بجائے کوئی دوسرا کام کر لیتا تو ان کے گھر کے وہ حالات نہ ہوتے جیسے کہ اب ہیں-

جب وہ اسکول میں پڑھتا تھا تو دوسرے امیر لڑکوں کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر اسے اپنی غربت کا بے حد احساس ہوتا تھا- اسے اپنی ماں پر بھی غصہ آتا تھا - اگر وہ کسی ڈھنگ کے آدمی سے شادی کر لیتی تو ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا-

بدقسمتی سے اس کا اٹھنا بیٹھنا اچھے دوستوں میں نہیں تھا- وہ لوگ اپنی آسانی کے لیے برائی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے- اوباش دوستوں کے ساتھ نے اسے بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا- اس کی طرح اس کے دوستوں نے بھی مظلومیت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، وہ سمجھتے تھے کہ اس معاشرے نے انہیں کچھ نہیں دیا، اس سوچ نے ان کے ذہنوں کو بھی منفی بنا دیا تھا اور پیسے کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے تھے-

ایسے لوگوں کی گھر میں کوئی عزت نہیں ہوتی- آدمی اگر جائز طریقے سے دو پیسے بھی کما کر گھر میں لائے تو گھر والے خوش ہوتے ہیں- انھیں یہ امید بھی ہوجاتی ہے کہ ابھی ان کا بیٹا دو پیسے لا رہا ہے، ایمانداری، شوق اور لگن سے کام میں لگا رہا تو چار پیسے بھی لانے لگے گا-

آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ ہو تو بڑی مشکل ہوجاتی ہے- سارا دن تو گزارنا ہی پڑتا ہے اور اس میں خرچہ بھی ہوتا ہے- باپ تو منہ اندھیرے نکل جاتا تھا اور رات گئے گھر آتا تھا- وہ خرچہ ماں سے لیتا تھا- مگر جب بھی وہ اسے کچھ پیسے دیتی تھی تو باتیں سنا کر دیتی تھی- اس بے عزتی سے اسے سخت چڑ تھی اور وہ ہر روز اس بے عزتی سے دوچار ہو تا تھا-

مایوس ہو کر اس نے دوستوں کے ساتھ اسٹریٹ کرائم کی بھی منصوبہ بندی کی اور رات کے اندھیرے میں سنسان علاقوں میں چند لوگوں سے موبائل اور پرس وغیرہ بھی چھینے- مگر اس کام میں خطرات بہت تھے، کامیاب ہوگئے تو چند دن خرچے کی طرف سے بے فکری ہوجاتی تھی مگر ناکامی کی صورت میں جیل کی ہوا اور جاننے والوں میں بے عزتی- ہر برے کام کرنے والے کی طرح وہ بھی بزدل تھا، ایک دو مرتبہ جب اس کے دو تین دوست اس طرح کی وارداتیں کرتے ہوۓ پکڑے گئے اور عوام کے ہاتھوں مار کھا کر پولیس کے حوالے کیے گئے تو اس نے اس طرح کے کاموں سے خود کو مجبوراً علحیدہ کرلیا اور کسی نوکری کی تلاش میں لگ گیا-

اس نے ایک دو جگہ اپلائی کیا ہوا تھا- ایک روز اس کا انٹرویو لیٹر بھی آگیا- ایک پرائیویٹ کمپنی تھی جس میں دھاگہ بنایا جاتا تھا، اس میں ایک اسسٹنٹ انچارج کی ضرورت تھی- تنخواہ وہ ہی بیس ہزار- چونکہ وہ گھر سے تنگ آیا ہوا تھا اس لیے اس نے بھی درخواست بھیج دی تھی- صرف بیس ہزار ہی ملیں گے مگر ماں کے طعنوں سے جان تو چھوٹ جائے گی-

اس نے ارادہ کر لیا کے انٹرویو کے لیے پہنچ جائے گا- اس نے اپنے ڈھنگ کے کپڑے نکالے اور استری کے لیے دھوبی کی دکان پر دے آیا- بال بڑھ گئے تھے، اس لیے وہ حجام کی دکان پر پہنچا- دکان میں رش تھا، وہ بھی ایک طرف بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا- وقت گزاری کے لیے اس نے اخبار اٹھالیا- اندر کے صفحے میں اس کی نظر ایک اشتہار پر پڑی-

کسی آدمی کو اپنی بیٹی کے لیے ایک ڈرائیور کی ضرورت تھی- تنخواہ تھی پچیس ہزار روپے- چوبیس گھنٹے اسی آدمی کی کوٹھی پر رہنا تھا اور کھانا پینا فری تھا-

وہ سوچ میں پڑ گیا- گھر سے تو وہ ویسے ہی تنگ آیا ہوا تھا- اس نے سوچا کہ کھانا پینا اور رہائش فری ہے، ساری تنخواہ بچا کرے گی، کونسا اماں کو کچھ دینا پڑے گا- ابا کو اخباروں اور رسالوں کی کمائی سے اتنا کچھ مل جاتا ہے کہ ان دونوں کا گزارہ چل جائے گا- پھر میرے چلے جانے سے وہ پیسے بھی بچیں گے جو ماں کو مجھے روز دینا پڑتے ہیں- اگر میں نے ایک سال بھی وہاں گزار لیا تو اپنا خرچہ نکال کر دو ڈھائی لاکھ روپے جمع بھی ہوجائیں گے- جب دو ڈھائی لاکھ جمع ہوجائیں گے تو میں اپنا کوئی کاروبار بھی شروع کرسکتا ہوں-

اشتہار پڑھ کر اسے اندازہ ہوا کہ اشتہار دینے والی آسامی مالدار تھی- اسے یاد آیا کہ اس کا ایک دوست بھی میٹرک کرنے کے بعد بہت ہی مجبوری کی حالت میں کسی بنگلے پر چوکیداری کی نوکری پر لگ گیا تھا- اس بنگلے کے مالک کا حقے کے تمباکو کا کاروبار تھا، اور یہ تمباکو پورے ملک میں سپلائی ہوتا تھا- گھر میں روپے کی ریل پیل تھی- اس کی ایک نوجوان بیٹی بھی تھی- اس کی شکل واجبی سی تھی- وہ پانچ جماعت تک پڑھنے کے بعد گھر بیٹھ گئی تھی- باپ صبح ہی صبح اپنے کارخانے چلا جاتا تھا- ماں ناشتہ کرکے دوپہر کے کھانے تک سوتی رہتی تھی، لڑکی کے باپ نے گھر کے کاموں کے لیے ایک میاں بیوی کو ملازم رکھا ہوا تھا- وہ صفائی ستھرائی اور کھانا پکانے کے کاموں میں مصروف رہتے- لڑکی باہر لان میں گیٹ پر بیٹھے چوکیداری کرتے ہوۓ اس کے دوست سے خوش گپیوں میں مصروف رہتی-

کچھ عرصہ بعد دونوں میں محبّت ہوگئی اور دونوں ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہنے لگے اور جلد ہی وہ وقت بھی آگیا کہ دونوں کو لگا کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہ رہ سکیں گے- معاملہ سنگین ہوگیا تھا، دو انسانی جانوں کا مسلہ پیدا ہو گیا تھا اور آخر لڑکی کے بہت مجبور کرنے پر اس کا دوست اس لڑکی کو لے کر بھاگ گیا- اس حل نے دو زندگیاں تو بچا لیں لیکن لڑکی کے باپ نے اس پر بہت غصہ کیا، وہ تو پولیس میں رپورٹ کروانے جا رہا تھا مگر بیوی کے یہ کہنے پر کہ اس سے خاندان کی بدنامی ہوگی، اس نے اپنا ارادہ تو ملتوی کر دیا مگر غصہ کرتا رہا- گھر سے جاتے ہوۓ لڑکی بہت سا روپیہ اور سونے کے زیورات وغیرہ بھی لے گئی تھی- ان کا ایک سال ہنسی خوشی گزر گیا-

سال بھر بعد جب ان کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوگیا اور لڑکی نے فون پر ماں کو اطلاع دی- زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ماں باپ کے سارے گلے شکوے آہستہ آہستہ ختم ہوگئے اور پھر ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکال کر ایک روز وہ لڑکی پھر سے اپنے ماں باپ سے آن ملی اور وہ جو ان کا چوکیدار تھا اس امیر آدمی کا داماد بن کر ان ہی کے ساتھ رہنے لگا- ماں کے کہنے پر باپ نے اسے یہ سوچ کر معاف کردیا کہ کیا ہوا اگر وہ ایک چوکیدار تھا، تھا تو انسان-

دوست کی کہانی اور اس کے موجودہ ٹھاٹ اس کو یاد آئے تو روشن صدیقی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی- اس نے اسسٹنٹ انچارج کی پوسٹ پر لعنت بھیجی اور دوبارہ اشتہار کی جانب متوجہ ہوگیا- اس میں مزید لکھا تھا- امیدوار کو تین سال کا اگریمنٹ کرنا پڑے گا- اس دوران وہ نوکری نہ چھوڑنے کا پابند ہوگا- اس کی ڈیوٹی صرف اسکی بیٹی کے ساتھ ہوگی-

روشن صدیقی کو یہ شرط کوئی خاص نہ لگی- اس نے سوچا حرج ہی کیا ہے، پچیس ہزار تنخواہ، مفت رہائش اور کھانا پینا اور ڈیوٹی بھی صرف اس امیر آدمی کی بیٹی کے ساتھ- ہر وقت کا ساتھ ہوگا، ساتھ رہتے رہتے تو جانوروں سے بھی محبت ہوجاتی ہے، وہ تو انسان تھا- اس کی نظر حجام کے بڑے سے آئینے پر پڑی، اس کے دوست اسے شاہ رخ خان سے تشبیہ دیتے تھے- وہ آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر مسکرانے لگا-

ابھی ایک کٹنگ اور باقی تھی، روشن صدیقی کی باری آنے میں کچھ دیر تھی- اس نے موبائل نکالا اور اشتہار میں دیا ہوا ایڈریس اس میں نوٹ کرنے لگا- ایڈریس میں شہر کی ایک مشہور عمارت کا نام تھا جہاں پر بڑے بڑے وکیلوں کے دفتر تھے اور اسی عمارت میں فرہاد اینڈ کمپنی کا دفتر تھا جہاں انٹرویو ہونا تھا- امیدواروں کو اگلے روز صبح نو بجے بلایا گیا تھا-

انٹرویو والے روز روشن صدیقی بن ٹھن کر فرہاد اینڈ کمپنی کے دفتر جانے کے لیے نکل کھڑا ہوا- اس نے ماں کو بتا دیا تھا کہ وہ نوکری کے لیے انٹرویو دینے جا رہا ہے- ماں کے لیے یہ کوئی نئی خبر نہ تھی- اس نے دوپٹے کے پلو سے سو روپے نکال کر خاموشی اور بے رخی سے اس کے حوالے کردئیے اور اس بارے میں اس سے ایک سوال تک نہ کیا-

ماں کے اس رویے نے اسے سخت دکھ پہنچایا تھا- اس نے خود پر بڑا ضبط کیا اور اس سلسلے میں ماں سے بغیر کچھ کہے گھر سے نکل گیا-

سارا شہر اس کا دیکھا بھالا تھا- اس نے ایک بس پکڑی اور اس اسٹاپ پر اتر گیا جہاں سے تقریباً پندرہ بیس منٹ کی دوری پر اس دفتر کی عمارت تھی جہاں اس نے انٹرویو دینا تھا- ابھی اس نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ سڑک کے کنارے اسے ایک گاڑی کھڑی نظر آئ - ایک پچپن ساٹھ سال کی عورت اس کا بونٹ کھولے اس کے انجن کو صرف دیکھ رہی تھی، کچھ کر نہیں رہی تھی- وہ کافی تنومند تھی اور اس کا رنگ بہت زیادہ صاف تھا- سر کے بالوں میں سفیدی جھلک رہی تھی- اس کے کپڑے نہایت قیمتی تھے-
وہ چونکہ خود ایک اچھا ڈرائیور تھا اور اسے گاڑیوں کی چھوٹی موٹی خرابیوں کو ٹھیک کرنا آتا تھا، اس لیے اس نے گاڑی کے قریب پہنچ کر کہا- "آنٹی- اگر اجازت ہو تو میں کچھ ہیلپ کروں؟"-

اس عورت نے اسے دیکھا، کپڑوں اور بات چیت سے وہ ایک معقول آدمی نظر آ رہا تھا- وہ جلدی سے بولی "بیٹا تمہارا شکریہ- یہ اچانک بند ہوگئی ہے- دیکھو تو کیا ہوا ہے"-

یہ کہہ کر وہ ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہوگئی- روشن صدیقی نے انجن پر نظر ڈالی تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی، بیٹری کے ایک ٹرمینل کا کلپ الگ پڑا تھا، اس نے اسے لگا دیا اور بونٹ بند کر کے اس خاتون سے بولا- "گاڑی اسٹارٹ کیجیے"-

اس کی بات سن کر وہ عورت کچھ حیرت زدہ سی ہوگئی، اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنی جلدی گاڑی ٹھیک ہوگئی ہوگی- وہ جلدی سے گاڑی میں بیٹھی اور چابی گھمائ تو وہ پہلی ہی کوشش میں اسٹارٹ ہوگئی، روشن صدیقی کو دیر ہو رہی تھی، وہ رسمی شکریے کے الفاظ سننے کے لیے رکا نہیں اور روانہ ہوگیا- گاڑی اس کے نزدیک سے گزری تو اس عورت نے ہاتھ ہلا کر اس کا شکریہ ادا کیا تھا-

تھوڑی دیر بعد وہ اس وہ اس کمپنی کی عمارت میں پہنچ گیا- اس نے وہاں کام کرنے والوں سے کچھ معلومات حاصل کر لی تھیں- وہ سب اس کو دیدہ زیب لباس اور شکل و صورت کا اچھا ہونے کی وجہ سے اس بات پر حیرت کر رہے تھے کہ اتنا جاذب نظر اور پڑھا لکھا شخص ایک ڈرائیور کی آسامی کے لیے انٹرویو دینے آیا ہے-

ان لوگوں سے اس کو جو معلومات حاصل ہوئی تھیں ان کے مطابق کوئی فرہاد علی اس کمپنی کا مالک تھا اور اسی نے انٹرویو لینا تھا- ان ہی لوگوں سے روشن صدیقی کو پتا چلا کہ فرہاد علی اس شہر کا ہی نہیں بلکہ ملک کا مانا ہوا وکیل ہے- کسی بھی کیس کو لڑنے کے لیے وہ ایک کروڑ روپیہ فیس لیتا تھا- اس کی جان پہچان بڑے بڑے سیاسی لیڈروں سے بھی تھی اور ملک کی دوسری معروف شخصیتوں سے بھی-

روشن صدیقی نے دیکھا وہاں پر کئی امیدوار پہلے ہی سے موجود تھے- اس نے ان کا جائزہ لیا تو ان میں اسے کوئی بھی پچاس پچپن سے کم کا دکھائی نہیں دیا- بے رونق چہروں والے، زندگی سے بے زار وہ سب لوگ لاتعلقی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے- ان میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جس نے ڈھنگ کے کپڑے پہن رکھے ہوں-

اسے یقین ہوگیا کہ اس کا انتخاب ہو جائے گا- ان میں سے بہت سے لوگ اس شرط سے بھی نالاں نظر آئے جس کے تحت وہ تین سال کے لیے ایک اگریمنٹ میں جکڑے جا رہے تھے- ان میں سے کچھ کا خیال تھا کہ اگر یہ شرط ختم نہ کی گئی تو وہ انکار کردیں گے-

ٹھیک نو بجے انٹرویو شروع ہوگیا- روشن صدیقی کو بہت حیرت ہوئی کہ بیس منٹ کے عرصے میں تقریباً آٹھ امیدوار فارغ ہو کر چلے بھی گئے تھے- اس کی باری آئی، دفتر کے ایک آدمی نے اسے فرہاد علی کے کمرے میں بھیج دیا جہاں پر انٹرویو ہو رہے تھے- وہ اندر داخل ہوا تو کمرے کی شان و شوکت دیکھ کر مرعوب ہوگیا-

وہ ایک ہال نما کمرہ تھا- بڑی بڑی کھڑکیوں پر پردے پڑے ہوۓ تھے- دیواروں کے ساتھ نہایت قیمتی اور آرامدہ صوفے تھے- سامنے ایک بہت بڑی میز اور کرسی تھی- اس کرسی پر ایک سرخ و سفید رنگت کا ایک عمر رسیدہ مگر صحت مند شخص بیٹھا تھا اور بغور روشن صدیقی کو دیکھ رہا تھا- اس کے سر کے بال سفید تھے اور چہرہ جھریوں سے پاک تھا- اس کی آنکھیں سیاہ تھیں اور ان میں ایک تیز چمک تھی-

روشن صدیقی نے چہرے پر متانت اور شرافت کا نقاب چڑھایا اور ادب سے ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑا ہوگیا- اس کا یہ فدویانہ انداز دیکھ کر فرہاد علی کی آنکھوں میں پسندیدگی کے اثرات نمو دار ہوۓ-

اس نے روشن صدیقی کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولا- "اگر تم پہلے ہی آجاتے تو میرا دوسرے لوگوں کا انٹرویو لینے میں اتنا وقت ضائع نہ ہوتا- ہر کوئی نواب بنا ہوا تھا، کہہ رہے تھے کہ انھیں تین سالوں کی شرط منظور نہیں- جب نوکری کرنا ہوتی ہے تو نخروں کو ایک طرف رکھنا پڑتا ہے- کیوں؟"-

"سر آپ صحیح فرما رہے ہیں"- روشن صدیقی نے بڑے ادب سے کہا- اسے فرہاد علی کی آواز میں ایک عجیب سا بھاری پن اور کرختگی محسوس ہوئی تھی-

"تمہیں تو اس شرط پر کوئی اعتراض نہیں ہے ؟"- فرہاد علی نے پوچھا-

"اگر مجھے اعتراض ہوتا تو میں انٹرویو دینے کے لیے حاضر ہی نہ ہوتا- میری ڈیوٹی صرف آپ کی بیٹی اور ان کے بچوں کے ساتھ ہی ہوگی نا"-

روشن صدیقی نے نوکری ملنے سے پہلے ہی چاپلوسی شروع کردی تھی- اس سوال میں اس کی ایک غرض بھی چھپی ہوئی تھی- ابھی ابھی اس کے ذہن میں آیا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی بیٹی شادی شدہ ہو اور کسی وجہ سے باپ کے گھر میں ہی رہتی ہو- اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر وہ شادی شدہ ہوئی تو پھر وہ یہ نوکری نہیں کرے گا، اس کی اور اس کی بیٹی کی شکل پر لعنت بھیج کر چلا جائے گا-

فرہاد علی مسکرا دیا- "وہ غیر شادی شدہ ہے – سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے میری بہت لاڈلی ہے- یہ میں اس لیے بتا رہا ہوں تاکہ تم اس بات کو ذہن میں رکھو اور دوران ڈیوٹی کوئی کوتاہی نہ کرو- اس کو گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے- بس تمہیں اس کے ساتھ ساتھ ہی رہنا ہوگا- اسے نئی نئی جگہوں پر جانے کا بہت شوق ہے- اس کے اس شوق سے تنگ آ کر کوئی ڈرائیور بھی ہمارے یہاں نہیں ٹکتا ہے، لوگ اول درجے کے کاہل اور نکھٹو ہوگئے ہیں- ورنہ تم خود سوچو کیا نام ہے تمہارا........"- کہتے کہتے فرہاد علی نے اس کی درخواست پر نظر ڈالی اور اپنی بات جاری رکھتے ہوۓ بولا- "ہاں روشن صدیقی........ پر فضا اور مہنگے مقامات پر ہفتے ہفتے قیام کرنا کیا محنت طلب کام ہے- ڈیوٹی بھی ہو رہی ہے اور تفریح بھی- خرچہ بھی کچھ نہیں، اور ٹور ختم ہو تو ٹپ کے نام پر بھی کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے"-

روشن صدیقی کو اس کی بات سن کر بڑا اطمینان ہوا- اس کی بیٹی نہ صرف غیر شادی شدہ تھی، بلکہ سب سے چھوٹی بھی تھی- فرہاد علی جیسے ایک امیر کبیر آدمی کی بیٹی اگر چھوٹی بھی ہو تو اسے رجھانا زیادہ مشکل کام نہیں ہوگا، چھوٹوں کا تجربہ بھی کم ہوتا ہے اور مشاہدہ بھی- ان کو اپنی راہ پر لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا- اس کی اور اس کے دوستوں کی موبائل پر بہت سی کم عمر لڑکیوں سے دوستی تھی، جو کالجوں اور اسکولوں میں پڑھتی تھیں اور کم عمری اور اس کم عمری کی بیوقوفی کی وجہ سے جلد ہی ان جیسے لوگوں کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتی تھیں اور نقصان اٹھاتی تھیں-

فرہاد علی نے اس سے کچھ سوالات کیے، اس کا ڈرائیونگ لائسنس دیکھا، ڈرائیونگ کے اصولوں کے متعلق کچھ باتیں پوچھیں اور اسے خوش خبری سنا دی کہ اس کا تقرر ہوگیا ہے- فرہاد علی اس بات سے بھی بہت خوش تھا کہ وہ بی اے پاس نوجوان ہے اور اچھے طور طریقوں سے واقف ہے- اس نے اسی وقت موبائل پر کسی کے نمبر ملائے اور رابطہ ہوجانے پر بولا-

"بیٹی- تمہارے لیے ایک بڑا اچھا ڈرائیور مل گیا ہے- پڑھا لکھا نوجوان ہے، بی اے تک تعلیم ہے اور شکل و صورت میں بالکل شاہ رخ خان جیسا لگتا ہے" یہ کہتے کہتے اس نے مسکرا کر روشن صدیقی کی طرف دیکھا اور پھر مزید کہا- "اچھی بات یہ ہے کہ وہ خوشی خوشی تین سال کا بانڈ بھی بھرنے کو تیار ہے- مجھے تو بہت ہی ذمہ دار اور اچھا لگا ہے- تم اسے دیکھو گی تو میری رائے سے اتفاق کرو گی"-

تھوڑی در بعد فون بند کر کے اس نے روشن صدیقی کی درخواست اٹھائی اور اس پر کچھ لکھنے لگا- روشن صدیقی یہ سوچ رہا تھا کہ اس کی دونوں خاصیتیں یعنی بی اے تک تعلیم اور شاہ رخ خان جیسی شکل و صورت، فرہاد علی کی بیٹی سے شادی کروانے میں بہت کام آئیں گی-

تھوڑی دیر بعد فرہاد علی نے بیل بجائی، ایک چپڑاسی اندر آیا- اسے دیکھ کر فرہاد علی نے کہا-
"انہیں شگفتہ خانم کے پاس لے جاؤ اور ان کے ضروری کاغذات بنوا لو- ان سے کہنا کہ ان کی اوریجنل تعلیمی اسناد بھی لے کر فائل میں لگا لیں"-

روشن صدیقی کھڑا ہوگیا تو فرہاد علی نے اس سے کہا-

"فکر کی ضرورت نہیں- تمہارے اصلی کاغذات ہمارے دفتر میں ہی رہیں گے، اگریمنٹ ختم ہوجائے گا تو واپس مل جائیں گے- تین سال والا اسٹامپ پیپر بھی سائن کردینا- اور ہاں........تمھاری اچھی کارکردگی پر ہر سال تمھاری تنخواہ میں دو ہزار کا اضافہ بھی ہوا کرے گا- مجھے امید ہے کہ تم خوب دیانت داری اور محنت سے اپنا کام کرو گے- بس میری بیٹی کو کوئی شکایت نہیں ہونا چاہیے- تم کل سے ڈیوٹی پر آجانا- شگفتہ خانم ہماری کوٹھی کا ایڈریس تمہیں سمجھا دے گی"-

روشن صدیقی اس کا شکریہ ادا کر کے اٹھ گیا- وہ سوچ رہا تھا کہ ہوسکتا ہے حالات ایسے ہوجائیں کہ ایک سال بعد دو ہزار روپے بڑھانے کی نوبت ہی نہ آئے- اس کی حیثیت ایک ڈرائیور کی نہ رہے، داماد کی ہوجائے- وہ مسکراتے ہوۓ چپڑاسی کے پیچھے پیچھے چل پڑا-

شگفتہ خانم ایک خوبصورت اور ہنس مکھ لڑکی تھی اور اپنے کام میں بھی بہت تیز تھی- وہ لکھنے لگتی تو اپنے نچلے ہونٹ کو اوپری ہونٹ سے غیر دانستہ طور پر دبا لیتی تھی- روشن صدیقی کو اس کا یہ انداز بہت بھایا تھا اور اس کی یہ دلکش حرکت اسے بہت اچھی لگ رہی تھی- روشن صدیقی کے پاس کرنے کو تو کوئی کام تھا نہیں، وہ بس شگفتہ خانم کے اس انداز کو دیکھے جا رہا تھا اور فرہاد علی کی بیٹی کے متعلق سوچے جا رہا تھا- ان دونوں کاموں میں اسے بے حد لطف آ رہا تھا-

کام زیادہ تھا- شگفتہ خانم کو اسے نمٹانے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا تھا- کام ختم ہوا تو وہ روشن صدیقی کو تقرری کا لیٹر دیتے ہوۓ بولی –

"امید ہے کہ آپ اپنی اس جاب سے لطف اندوز ہونگے- مجھے آپ میں کافی صلاحتیں نظر آ رہی ہیں - آپ دلجمئی سے اپنی ذمہ داری نبھانے والے لگ رہے ہیں- کوئی ڈرائیور فرہاد علی صاحب کے گھر ٹکتا ہی نہیں تھا- مجھے یاد نہیں کہ کسی نے ہفتہ دس دن سے زیادہ کام کیا ہو- لیکن میں ایک بات پر بہت حیران ہوں- یہ نوکری تو قطعی طور پر آپ کی شخصیت سے میل نہیں کھاتی پھر آپ کی عمر بھی کچھ زیادہ نہیں ہے"-

روشن صدیقی اس کی بات سن کر شاہ رخ خان کی طرح مسکرایا اور اسی کے انداز میں سر کو جنبش دے کر بولا- "ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جو روزگار بھی نہ دلوا سکے- ایک میں ہی نہیں، بہت سے ڈگری ہولڈرز ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں- بس یہ سمجھ لیں کہ میں بہت مجبوری میں یہ کام کرنے پر تیار ہوا ہوں- اگر مجبوری نہ ہوتی تو نہ تو میں اس تین سال کے اگریمنٹ پر راضی ہوتا اور نہ ہی اپنی اوریجنل تعلیمی دستاویزات یہاں جمع کرواتا"-

اس کی بات سن کر شگفتہ خانم کے چہرے پر افسوس کے اثرات نمودار ہوگئے تھے- وہ بولی- "حالات تو بہرحال واقعی خراب ہیں- ہر سال ہزاروں لوگ ڈگریاں تو حاصل کر لیتے ہیں مگر اس مناسبت سے نوکریوں کی وہ تعداد نہیں ہے جو کہ ہونی چاہیے، نہ سرکاری اداروں میں اور نہ پرائیویٹ اداروں میں- اس غیر متوازن صورت حال سےلڑکوں اور لڑکیوں میں فرسٹریشن بڑھ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ہمارے معاشرے میں کافی ابتری بھی آئ ہے"-

روشن صدیقی نے سر ہلا کر اس کی بات کی تائید کی اور پھر اس کا شکریہ ادا کر کے جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا-

اگلے روز وہ اپنے سوٹ کیس سمیت فرہاد علی کی کوٹھی پر پہنچ گیا- اس کی نوکری لگنے سے اس کی ماں بہت خوش تھی- اسے جب پتہ چلا کہ اس کا بیٹا شہر کے ایک مشہور و معروف وکیل کے گھر کام کرے گا تو وہ اور بھی خوش ہوئی اور اسے دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا-

روشن صدیقی کا استقبال فرہاد علی نے کیا تھا- وہ ایک پائپ کی مدد سے لان کے پودوں کو پانی دے رہا تھا- روشن صدیقی نے اسے سلام کیا- اسے دیکھ کر فرہاد علی نے پانی کا پائپ وہیں گھاس پر ڈال دیا اور گیٹ پر بیٹھے چوکیدار سے بولا-

"انہیں سرونٹ کوارٹر میں پہنچا کر ان کا سامان رکھوادو اور اندر بھیج دو"-

چوکیدار نے اسے سرونٹ کوارٹر دکھایا- اس میں ایک صاف ستھرا اور ہوا دار کمرہ تھا جس میں روشن صدیقی کو رہنا تھا- اس کمرے کے برابر میں کچن اور واش روم تھے- اس نے اپنا سوٹ کیس ایک کونے میں رکھا - چوکیدار اسے اپنے ساتھ لے کر کوٹھی میں آیا اور اسے ڈرائنگ روم میں پہنچادیا- فرہاد علی ایک صوفے پر بیٹھا اخبار دیکھ رہا تھا-

"ٹھیک ہے- بیٹھ جاؤ"- اس نے اخبار ایک طرف رکھ کر روشن صدیقی سے کہا اور پھر چوکیدار سے بولا- "جا کر جلدی سے انعم بیٹی کو بھیج دو"-

بیٹی کا اتنا پیارا اور آسان نام سنا تو روشن صدیقی کے دل میں گدگدیاں ہونے لگیں- چوکیدار سر کو جنبش دے کر چلا گیا-

تھوڑی دیر بعد ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا- روشن صدیقی ادب سے سر جھکائے بیٹھا رہا- اگر وہ گھوم کر دیکھتا تو شائد اس کی یہ حرکت تہذیب سے گری ہوئی ہوتی اور ممکن تھا کہ فرہاد علی اس کو مائنڈ کرتا- اس کے کانوں میں فرہاد علی کی آواز آئ-

"بیٹی انعم- ان سے ملو یہ ہیں تمھارے نئے ڈرائیور- اس بار میں نے ایسا انتظام کیا ہے کہ یہ تین سال سے پہلے نوکری چھوڑ کر نہیں جائیں گے- خوشی کی بات ہے کہ یہ بی اے پاس ہیں- اور یہ تو میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ ان کی شکل و صورت بالکل شاہ رخ خان جیسی ہے- تمہیں تو شاہ رخ خان بہت زیادہ پسند ہے"-

روشن صدیقی کو یوں محسوس ہوا کہ وہ اس کے پاس آ کر کھڑی ہوگئی ہے- پھر اسے سبک سینڈلوں میں گورے گورے صحت مند پاؤں بھی نظر آگئے- وہ احتراماً اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا تاکہ فرہاد علی کی بیٹی کو سلام کر سکے-

وہ کھڑا ہوا اور اس کی نظر انعم پر پڑی تو اس کا دل دھک سے رہ گیا- وہ اسے پہچان گیا تھا، یہ تو وہ ہی عورت تھی جو کل اپنی گاڑی کا بونٹ کھولے سڑک پر کھڑی تھی-

وہ بھی اسے پہچان گئی تھی اور اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی- اس کی آنکھوں میں حیرت کے علاوہ اس کے لیے پسندیدگی کی جھلک بھی صاف نظر آ رہی تھی-

(ختم شد)
 

Mukhtar Ahmad
About the Author: Mukhtar Ahmad Read More Articles by Mukhtar Ahmad: 70 Articles with 122139 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.