آسماں ہو گا سحر کے نور سے آٸینہ پوش - قسط 1

کشمیر یوں پر بذدل انڈین آرمی کی طرف سے ڈھاۓ گۓ مظالم کی داستان ۔۔۔۔اور آذادی کے متوالوں کی ِ
سرفروشی اور جزبہ ایمان کی عظیم داستان۔۔۔جو آپ کو یہ ماننے پر مجبور کر دے گی کہ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے۔۔۔۔۔۔ اور ہم بن شہہ رگ کے سانسیں کیسے لے رہے ہیں ۔۔۔کشمیریوں کی ٹوٹتی سانسیں ۔۔۔بھی ہماری خوابِ غفلت کی نیند کو نہیں بیدار کر سکتی۔۔۔۔یا ہماری ماٸیں بانجھ ہو گٸ ہیں جو ایک اور محمد بن قاسم پیدا نہیں کرسکتیں۔۔۔

کشمیر ہماری شہہ رگ ہے ۔۔ہم بن شہہ رگ کے زندہ ہیں۔۔

معاذ بھاگتا ہوا آیا اور اپنے کمرے میں گھس گیا۔۔ناٸلہ اس کی اس حرکت پر مسکرائی زینی بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا اور خود معاذ کے کمرے کی طرف چل دی۔۔

١٣سالہ معاذ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا تھا ۔یہ کیا حرکت ہوٸ معاذ جب بھی زینی آتی ہے تم ایسی حرکتیں کرنے لگ جاتے ہو۔۔بیٹا وہ چھوٹی ہے آپ سے۔ آس پاس کوئی ہم عمر نہیں اس لیۓ آپ کے ساتھ کھیلنے آ جاتی ہے۔۔اور تم ہو کہ لفٹ کرانا تو دور کی بات مجھ سے بھی بات کرے تو آپ کو برا لگتا ہے۔۔۔کیوں کرتے ہیں آپ ایسا۔۔؟ماں اسے دیکھتے ہی مجھے بابا یاد آجاتے ہیں ۔۔۔کیسے انہوں نے کشمیر کی آذادی کے لیۓ اپنی جان دے دی۔۔میں تو بابا کو آخری ٹاٸم مل نہیں پایا دیکھ نہیں پایا۔۔۔اور آپ کہتی ہیں میں ایک غدار جو اپنی ماں جیسی دھرتی کا محافظ نہیں میں کیسے اس کی بیٹی کو دوست مانوں بتاٸیں ماں۔۔۔آج پھر میں نے زینی کے گھر سے کیپٹن شرما کو نکلتے دیکھا ہے۔۔۔معاذ شدّت غم وغصے سے سرخ ہوتی آنکھیں لیۓ ماں سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔ماں زینی کے بابا سے کیا مجھے غدار سے تعلق رکھنے والے ہر رشتے سے نفرت محسوس ہوتی ہے اور آپ کہتی ہیں بابا کے قاتلوں سے دوستی کر لوں؟

ناٸلہ بیٹے کو دیکھ رہی تھی شدت غم سے اس کی آنکھیں برسنے کو بیتاب تھی لیکن وہ بیٹے کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔۔

معاذ کی آواز بلند تھی ١٠ سالہ زینی نے ساری باتیں سن لی تھیں اور روتے ہوۓ گھر بھاگ آٸ ۔۔۔

اس دن کے بعد سے شوخ وچنچل زینی بلکل خاموش ہو گٸ تھی۔اس میں اتنی ہمت نہ تھی نہ ہی اتنی بڑی تھی کہ وہ اپنے بابا سے کوٸ سوال کر سکتی۔۔۔۔

معاذ اور زینی سرینگر شہر میں رہتے تھے گھر پاس پاس تھے ۔۔۔زینی کے والد پرویز ایک ڈاکٹر تھے اور کٹھ پتلی حکومت کے سیاسی کارکن بھی تھے ۔۔۔انڈین آرمی کے ساتھ ان کے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہ تھے ۔۔۔دوسرے لفظوں میں لوگ انہیں انڈیا کا وفادار کتا سمجھتے تھے۔۔معاذ کے والد تحریک آذادی کے کارکن تھے آذادی کی خاطر وہ دشمن کی بربریت کی نظر ہو گۓ تھے ۔۔دشمن نے انہیں گرفتار کرکے زندہ جلا ڈالا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاذ کے دل میں دشمن کے خلاف نفرت مزید بڑھ گٸ تھی۔۔۔
٩دسمبر ٢٠٠١
پیاری ڈاٸری جب سے میں نے ماں کو اپنی نفرت کی وجہ بتاٸ تب سے زینی دور ہو گٸ ہے۔۔اگر وہ ایک غدار کی بیٹی نہ ہوتی تب میں اسے ضرور دوست بنا لیتا۔۔
اپریل ٢٠١٠
بابا کے مشن کو تکمیل تک پہنچانا ہے ۔۔پیاری ڈاٸری تم جانتی ہو خالی جزبہ کبھی بھی ہمیں ان کافروں سے جیتنہیں دلا سکتا ۔۔۔۔میں ایک کا میاب ڈاکٹر بن گیا ہوں ۔۔اور میں چاہتا ہوں کسی طرح انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کروں اور ان کی جڑیں کاٹوں ۔۔۔۔بابا سے کیا عہد میں ہر حال میں نبھاٶں گا ۔۔۔۔
١٠ سال بعد

پرویز زینی کی پڑھاٸ مکمل ہو گٸ ہے ۔۔۔ایک دو بہت اچھے رشتے ہیں جو میری نظر میں ہیں ۔۔میں چاہتی ہوں اب ا س کے ہاتھ پیلے کر دوں رات کے کھانے کے دوران زینی کی ماں فضیلا نے پرویز سے کہا۔۔۔۔ماں بابا مجھے شادی نہیں کرنی میں مزید پڑھنا چاہتی ہوں آپ مجھے مزید پڑھنے کیلۓ باہر بھجوادیں۔۔۔
اکلوتی بیٹی نے زندگی میں پہلی دفعہ کوٸ فرماٸش کی تھی یہ فرماٸش جاٸز بھی تھی۔۔پرویز جانتے تھے کہ ان کی یہ ذہین بیٹی ضرور کچھ الگ کرے گی۔

ضرور بیٹا اگر آپ پڑھنا چاہتی ہیں تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔۔۔پرویز نے بیٹی کے سر پر پیار کرتے ہوۓ کہا۔۔۔زینی کی آنکھیں محبت کے اس انداز پر نم ہو گٸیں زینی باپ کا شکریہ ادا کر کے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گٸ۔۔۔وہ کبھی کبھار معاذ کو دیکھ لیتی تھی ۔۔۔۔٦ انچ سے نکلتا قد چوڑے شانے نیلی آنکھیں ۔۔۔۔۔گوری رنگت ۔وہ واقعی کسی سلطنت کا شہزادہ لگتا تھا۔۔۔۔بچپن کی یہ پسندیدگی پتہ نہیں کب زینی کے دل میں محبت کا بیج بو گٸ تھی جو گزرے برسوں میں ایک مضبوط درخت کی حثیت اختیار کر گٸ تھی۔۔۔
کیا ہوتا بابا جو آپ ایمان فروش نہ ہوتے۔۔۔۔بچپن میں کہی گٸ معاذ کی باتیں اس کے دل کو چھلنی کر دیتی تھیں۔۔۔بابا میں چاہ کر بھی آپ سے نفرت نہیں کر سکتی۔۔۔۔۔۔۔ہاں یہ میرا اس دھرتی سے وعدہ ہے کہ میں ایک ایمان فروش باپ کی بیٹی نہیں بلکہ کشمیر کی بیٹی بن کے دکھاٶں گی۔۔
اے کشمیر میں تیری بیٹی ہوں ہاں یہ وعدہ ہے میرا تجھ سے۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
 

Sara Rahman
About the Author: Sara Rahman Read More Articles by Sara Rahman: 19 Articles with 25600 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.