آسماں ہو گا سحر کے نور سے آٸینہ پوش - قسط 3

کشمیر کی ایسی بیٹی کی کہانی جو کشمیر پر قربان ہو کر ہمیشہ کیلۓ امر ہو گٸ

کشمیر ہماری شہہ رگ ہے ۔۔ہم بن شہہ رگ کے زندہ ہیں۔۔

سری نگر ایٸر پورٹ پر بابا ماں کے ساتھ معاذ بھی زینی کو سی آف کرنے آیا تھا۔۔۔وہ معاذ کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی اس نے آنکھوں پر گلاسز چڑھا لیۓ تھے بلیک سکارف میں اس کی سنہری رنگت دمک رہی تھی۔۔۔۔ہونٹوں پہ زبردستی کی مسکراہٹ سجاۓ وہ پہلے ماں سے ملی تھی۔۔۔فضیلہ بیگم کی آنکھیں مسلسل برس رہی تھیں ۔۔۔ماں میرے لیۓ دعا کریں۔۔اپنے آنسٶں کو میرے پیروں کی زنجیر مت بناٸیں۔۔۔۔۔۔
میں تو کچھ عرصے کیلۓ آپ لوگوں سے بچھڑ رہی ہوں۔۔۔

ان لاکھوں والدین کا دکھ ۔۔۔کشمیر کا دکھ محسوس کریں جن کی حوروں جیسی بیٹیوں کی معصومیت چھین کے درندے آۓ روز موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اور ہم بے حس اور بے ضمیروں کی طرح اپنی زندگیوں میں ایسے مگن رہتے ہیں جیسے کچھ ہوتا ہی نہیں ۔۔کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔۔

یہ سب اس نے بابا اور معاذ کو سنایا تھا پرویز نے تو اپنے چہرے کا رخ موڑ لیا تھا جبکہ معاذ کے چہرے پہ آکے گزر جانے والا نادیدہ رنگ کوٸ نہیں دیکھ سکا تھا۔۔۔اتنے میں اناٶسمنٹ ہونے لگی تھی۔۔زینی سب کو الوداع کہہ کر آگے کو بڑھ گٸ۔۔۔۔۔۔
سیٹ پر بیٹھتے ہی۔۔۔کب سے رکے آنسو اس کیےسنہری گالوں پر بکھر گۓ تھے۔۔۔۔
کبھی کبھی دل بلکل خالی ہو جاتا ہے ۔۔۔۔ہر احساس مر جاتا ہے ۔۔۔۔یوں محسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔۔جیسے ہم مر گۓ ہوں ۔۔۔ہمارے مرتے ہی دکھ درد خوشی ۔۔۔یہ ساری دنیا مر گٸ ہو ۔۔۔۔یہ احساس تب ہوتا ہے ۔۔۔۔جب درد سہنے کی اور ہمت نہیں رہتی۔۔۔
زینی بھی تو سہہ رہی تھی
غلامی کی اذیت
جان سے پیارے لوگوں کا کھوکھلا ہونا ۔۔۔خاندان کا غدار ہونا۔۔۔
اپنی جیسی لڑکیوں کی آۓ روز عزتیں برباد ہوتا دیکھنا بابا جیسے مردوں معاذ جیسے نفس پرست ہی کشمیر کی آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ محسوس ہوتے تھے۔۔۔
اذیت کے یہ خوفناک اژدھے اس کے سارے احساسات پتھر کر رہے تھے۔۔۔
ہاں زینی کو پتھر ہونا ہے ۔۔۔تاکہ میرے مقصد کی راہ میں کوٸ کانٹا کوٸ پتھر نہ آۓ۔۔۔۔اس کا مقصد واقعی بہت بلند اور بڑا تھا ۔۔۔۔۔۔وقت سے پہلے اس کے مقصد کی کسی کو خبر بھی لگ جاتی تو کفر کے ایوانوں میں زلزلہ برپا ہو جاتا۔۔۔۔۔۔خبر لگتی بھی کیسے اس کا یہ مقصد اور مشن کشمیر کیلۓ تھا۔۔۔۔اور کشمیر کی جان پاکستان کیلۓ تھا۔۔۔اپنے مقصد کو سوچ کے زینی کے لب خود بخود مسکرانے لگے تھے۔۔۔۔اس کا مشن اور پروجیکٹ آنے والے وقتوں میں دشمن دنیا کو ہلا کے رکھ دینے والا تھا۔۔۔۔

ہر دکھ اور درد کے احساس کو دفنا کر اسے وہ زینیہ پرویز آج پتھر کی ہو گٸ تھی۔۔۔زینی نے سیٹ پر سر رکھ آنکھیں بند کر لیں۔۔۔وہ سوچ رہی تھی اچھا تعلیمی بیک گراٶنڈ ہونے کی وجہ سے اسے کسی بھی ریسرچ اسٹیٹیوٹ میں پارٹ ٹاٸم جاب مل سکتی ہے۔۔۔۔آگے پڑھنے کیلۓ آنا تو اک بنانہ تھا ۔۔۔یہاں انگلینڈ آکر وہ اپنے پروجیکٹ پر بہتر انداز میں کام کر سکتی تھی۔۔۔
جیسے ہی وہ ایٸر پورٹ پر اتری اسے دیکھتے ہی ایک لڑکی اس کی طرف لپکی ۔۔اور اسے اپنے ساتھ آنے کا کہا
۔۔۔ وہ لڑکی اسے ہاسٹل چھوڑ کر ہر چیز کے بارے گاٸیڈ کر کے جا چکی تھی ۔۔۔لڑکی نے اسے بتایا ۔۔۔ایک ترک لڑکا بھی اس کا روم میٹ ہے اور اس کے ساتھ روم شٸر کرے گا۔۔۔۔ اور وہ بھی دو دن تک آجاۓ گا۔۔ایک نامحرم کے ساتھ وہ روم شیٸر نہیں کر سکتی تھی ۔۔۔اسے اس لڑکے کے آنے سے پہلے پہلے کہیں قریب کے ایریا میں کوٸ گھر دھونڈنا تھا جہاں وہ ایک پیٸنگ گیسٹ کے طور پر رہ سکے۔۔۔۔ جاری ہے
 

Sara Rahman
About the Author: Sara Rahman Read More Articles by Sara Rahman: 19 Articles with 27818 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.