سفر در سفر

عمر کو اگر 60 سال تصور کیا جائے تو اپنی عمر کے3/1 یعنی 20 سے 22 سال کے عرصہ میں ہی میں نے سمندر، پہاڑ، ریگستان کی خاک اور گھنے جنگلات کا اصلی روپ شاید دیکھ لیا۔چھٹی جماعت میں زندگی کا پہلا اکیلا سفر کیا وہ 40 سے 50 میل پر محیط تھا لیکن اپنے اندر خود اعتمادی کی چنگاری کو بھڑکانے کے لئے کافی تھا. نویں جماعت کا طالب علم تھا یعنی تقریبا 15 سال کی عمر میں شوق کو دیکھتے ہوئے گھر والوں نے اسکول کے ایک ہفتے پر محیط تعلیمی اور معلوماتی دورے پر بوائز سکائوٹس کے ساتھ گھوڑا گلی مری میں ڈیرے ڈالنے بھیج دیا جس نے نہ صرف میرے اندر نئی چیزوں کودیکھنے کا تجسس بڑھایا بلکہ اپنے آپ کو، اپنے علاقے کی لوگوں کی سوچ کو وہاں پر موجود پورے پاکستان سے آئے بوائز سکائوٹس کی سوچ سے ہم آہنگی پر مجبور کیا. اسکے بعد تو پھر چل سو چل زندگی کچھ ایسی چلی اور شوق بلکہ موج جنوں نے کچھ ایسا ربط قائم کیا کہ کہ جنوبی پنجاب کے علاقے بہاولپور میں رہنے والا اک عام سے انسان نے بہاولپور سے نہ صرف کشمیر کی وادیوں بلکہ دریائے کنہار کے اک لمبے سلسلے سے لے کر کراچی کے ساحل تک کا سفر کیا;اس تمہید کا در اصل مقصد یہ تھا کی یہ کالم کسی تنگ نظری کی نذرنہ ہوجائے۔اک صبح میرے تکئے کے نیچے رکھے موبائل کی گھنٹی میرے سکوں کو چیرتی ہوئی میرے دماغ میں جا لگی اور میری آنکھ کھل گئی;46;یہ میرے دوست عبدللہ کا فون تھا " یار آج چھٹی کا دن ہے کیوں نہ آج تمھارے آبائی گائوں جایا جائے " اسکا یہ کہنا تھا اور میرے اندر کا مسافرجاگ اٹھا بمشکل 15 منٹ مانگے اس سے، راستے سے تیسرے دوست کولیا اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگئے ۔ یہ تقریبا صبح 7 کا وقت تھا ہم نے ناشتہ بھی راستے میں موجود ایک دکان سے پارسل کروایا اور چاول چنے کی خوشبو اس وقت تک گاڑی سے ختم نہ ہوئی جب تک وہ راستے میں ایک جگہ قیام کے دوران ہمارے پیٹ کی زینت نہ بن چکا تھا. خیر صبح صبح کا وقت اور بچوں کو اسکول جاتے ہوے دیکھنا اپنے بچپن کی یاد دلاتا رہا. میرا گائوں بہاولپور سے تقریبا 100 کلومیٹر کی دوری پر پانچ دریائوں کی سرزمین ہیڈ پنجند کے قریب تھا. اپنے علاقے کی محرومیوں کو قلمزد کرتے ہوئے مجھے یہ فخر تو محسوس ہورہا ہے کہ میں ان لوگوں میں سے ایک ہوں جو ظالم کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا جانتے ہیں .خیر قصہ مختصر راستے میں اچشریف کے مقام پر درباروں پر حاضری دی اور اسکول جاتے ہوے بچوں کو دیکھتے ہوئے دل سے بے اختیار یہ دعا نکلی کے کبھی تو تمہاری محنت رنگ لائے گی ۔ میرے علاقے میں اسکول یا تو قریب کوئی ہے نہیں اور قریب سے قریب تر بھی اگر فاصلہ ماپا جائے تو میلوں کا سفر بنتا ہے ۔ کچی کلاس کے بچوں کے لئے ہاتھ میں تختی کا وزن اٹھائے اور کمر پر بوری نما کپڑے کا ایک بیگ جسکی رسی کندھوں سے ہوتی ہوئی دوبارہ اسی بیگ میں جا گھستی تھی اٹھائے وہ میلوں کا سفر تے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے. جنوبی پنجاب کے مضافاتی علاقے سارے ہی تقریبا ایک جیسے ہیں دور کی بستیوں میں اسکول کا موجود ہونا اور غریب والدین کا صبح صبح کھیتی باڑی پر نکل جانا اور بچوں کا اپنے مستقبل کے لئے تگ و دو کرنا روزانہ کا معمول ہوتا ہے. خیر یہ سب دیکھتے ہوے آگے برھتے گئے تو سڑک کنارے بہت سے ایسے اسکول دیکھے جہاںبچے اپنے استاد کے گرد بوریاں بچھا کر اپنے علم کے منبع یعنی استاد سے علم کا جام لیتے نظر آئے اور ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو دستیاب گورنمنٹ آف پنجاب کی تعلیمی سہولیات دیکھ کر میں مجبور ہوا کہ یہ کالم لکھوں . ان بہت سے بچوں میں سے چند ایک یعنی آٹے میں نمک کے برابر بچے ہی میٹرک کر پاتے ہیں اور پھر ان میں سے بھی صرف چند ایک شہر میں رہ کر تعلیم حاصل کر پاتے ہیں . اب ان بچوں کا تناسب نکالنا کہ کتنے بچے شہر پہنچ پاتے ہیں یہ میں نے آپ پر چھوڑا. خیر ا س و قت تقریبا ہم دوستوں کو سفر کرتے گھومتے صبح کے 11 بج چکے تھے; اپنے آبائی گھر پہنچا ،دادا جان کو راستے میں فون پراطلاع دے چکا تھا تو وہ پہلے سے ہے ڈیرے پر انتظار کی گھڑی کے ختم ہونے کے درپے تھے۔ پرتپاک طریقے سے کمر پر تھپکی دیتے ہوے ملے اور کچھ دیر دوستوں کو وہاں کی زندگی اور شہر کی زندگی کا فرق سمجھاتے ہوے اپنے دور کی باتیں چھیڑ بیٹھے.قصہ مختصر دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا کھانا کھا کر اجازت چاہی ،اور واپسی کی طرف چل پرے راستے میں ابھی ہیڈ پنجند کے پل پر موجود ہے تھے کی تیسرا دوست جسکا نام رضوان تھا کہنے لگا کیوں نہ آج اپنے پرانے میٹرک کے ہم جماعتی حمزہ جو کہ ہیدپنجد کے پل سی 1 گھنٹے کی دوری پر رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور میں مقیم تھا وہا ںجایا جائے پھر سے سفر شروع کیا اور تعلیم کے موضوع اور جنوبی پنجاب کی محرومیوں اور کا ذکر کرتے ہوے عبدللہ بولا کی بالکل یہی حال اسکے علاقے میانوالی کا بھی ہے. عبدللہ خود بچپن سے تعلیم کے حصول کے لئے بہاولپور مقیم تھا. راستے میں اسکے علاوہ جب موجود سہولیات کا جائزہ لیا تو اپر پنجاب اور دوسرے ترقی یافتہ علاقوں کی نسبت اس علاقے کو پستی کی طرف پایا; راستہ بھٹک گئے اور چننی گوٹھ پر موجود لیاقت پور کے شارٹ کٹ کو بھول کر خان بیلے اور رحیم یار خان کے روٹ پر چل دیے. خان بیلے پہنچ کر یاد آیا کہ راستہ غلط ہے.گویا خان بیلے سے کچے پکے راستوں سے ہوتے ہوے لیاقت پور شہر پہنچے اور دوست سے ملاقات کی.یہ تقریبا اعصر کا وقت تھا ۔ دوستوں کی دوبارہ سے ایک نشست ہوئی جس میں وہاں کے پڑھے لکھی لوگوں کے کھیتی باڑی کرنے کی وجہ دریافت کرنے پر بیروزگاری سب سے بڑی وجہ بتلائی گئی. جنوبی پنجاب کے ان پسماندہ علاقوں میں سے اگر کوئی یہ سب مشکلات جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے پار کرکے تعلیم حاصل کر بھی لیتا ہے تو بے روزگاری کی وجہ سے دوبارہ اپنے بوڑھے باپ کا کھیتی باڑی میں ہاتھ بٹانے لگتا ہے. ہمارے اس خطے میں کوئی خاص صنعت بھی نہیں کے چلو پرائیویٹ سیکٹر بڑے شہروں کی مانند بیروزگاری پر کچھ حد تک قابو تو پا لے گا; گویا اس المیے کی وجہ سے آنے والی نسلوں کو یہاں کے لوگ تعلیم جیسے زیور سے آراستہ کرنے سے بھی قطراتے نظر آتے ہیں . یہاں کا ریگستان جہاں اسکول کا نام و نشان تک نہیں وہا ںکی آبادی اور جانور آج بھی ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے دکھائی دیتے ہیں .بہاولپور جیسے شہر میں آج بھی نواب کے دور کے تعلیمی ادارے، ہسپتال، اور دیگر امارات موجود ہیں اسکے علاوہ کوئی بڑا حکومت کا کارنامہ نہیں . پاکستان میں موجود ہر بر سر اقتدار آنے والی پارٹی یہاں کے لوگوں کی محرومیوں کا نعرہ لگاتی نظر آتی ہے اور یہان کے لوگ پھر سے ان پر اعتبار کر کے امید کا دیا روشن رکھتے ہیں اور آخر کر بھی کیا سکتے ہیں اسکے سوا معاملات کو تو اس نہج تک پہنچا دیا گیا ہے کہ جنوبی پنجاب کے طلبا کی تعلیم کو دھکا لگانے والی اکلوتی سکالرشپ ";فیس ری امبرسمینٹ" پر بھی شب و خون مار دیا گیا ہے; جسکے ذریے ایسے دیہات کے وہ بچے جو محنت کر کہ یونیورسٹی کی تعلیم تک پہنچ پاتے تھے وہ دروازہ بھی حکومتی پالیسیوں کی نظر ہوگیا;کل ایک رپورٹ پڑھ کر دل خون کے آنسو رویا کہ جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور میں سال 2017 اور 2018 صرف 2 سال کے عرصہ میں 9721 افراد نے خودکشی کی کوشش کی، جن میں سے 685 افراد لقمہ اجل بن گئے; اور موجودہ سال 2019 میں صرف 3 ماہ میں 386 افراد نے زندگی سے بیزار ہو کر خود کشی کی کوشش کی; آخر کب تک;؟؟؟ ہم دوستوں کا واپسی گھر کا سفر تو مکمل ہوگیا لکن ہمارے ذہنوں میں موجود بہت سے سوالوں کو ایک عنوان دے گیا; آخر کب تک؟؟؟
 

Haroon Munir
About the Author: Haroon Munir Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.